(حديث مرفوع) اخبرنا الحسن بن الربيع، حدثنا ابو الاحوص، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إنه ليس من صلاة اثقل على المنافقين من صلاة العشاء الآخرة، وصلاة الفجر، ولو يعلمون ما فيهما، لاتوهما ولو حبوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ صَلَاةٍ أَثْقَلُ عَلَى الْمُنَافِقِينَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ الْآخِرَةِ، وَصَلَاةِ الْفَجْرِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا، لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”منافقین پر عشاء اور فجر سے زیادہ کوئی نماز بھاری نہیں ہے، اور اگر ان دونوں نمازوں کا اجر و ثواب انہیں معلوم ہو جائے تو وہ ان کے لئے گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے چلے آئیں۔“
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1309]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 657]، [مسلم 651]، [ابن ماجه 798]، [ابن حبان 2098]
وضاحت: (تشریح احادیث 1303 سے 1307) ان تمام روایات سے نمازِ فجر اور عشاء کی فضیلت معلوم ہوئی، اور یہ دونوں نمازیں منافقین پر بے حد شاق گذرتی ہیں کیونکہ یہ آرام اور سونے کا وقت ہوتا ہے، مؤمن ذوق و شوق سے ان کو ادا کرنے کے لئے حاضر ہوتے ہیں اور منافق آرام کرتے اور سوتے رہتے ہیں، گویا کہ ان دونوں نمازوں سے پیچھے رہنا نفاق کی علامت ہے، نیز یہ کہ منافق کو صرف دنیاوی لالچ ہے اور مؤمن آخرت کو ترجیح دیتے ہیں۔
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن عجلان، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لقد هممت ان آمر فتياني فيجمعوا حطبا، فآمر رجلا يصلي بالناس، ثم اخالف إلى اقوام يتخلفون عن هذه الصلاة، فاحرق عليهم بيوتهم، لو كان عرقا سمينا، او معرقتين لشهدوها، ولو يعلمون ما فيهما، لاتوهما ولو حبوا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ فِتْيَانِي فَيَجْمَعُوا حَطَبًا، فَآمُرَ رَجُلًا يُصَلِّي بِالنَّاسِ، ثُمَّ أُخَالِفَ إِلَى أَقْوَامٍ يَتَخَلَّفُونَ عَنْ هَذِهِ الصَّلَاةِ، فَأُحَرِّقَ عَلَيْهِمْ بُيُوتَهُمْ، لَوْ كَانَ عَرْقًا سَمِينًا، أَوْ مُعَرَّقَتَيْنِ لَشَهِدُوهَا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا، لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے ارادہ کر لیا (تھا) کہ اپنے جوانوں کو حکم دوں کہ وہ لکڑیاں جمع کریں پھر کسی آدمی کو حکم دوں کہ وہ نماز پڑھائے، پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں جو اس نماز سے پیچھے رہ جاتے ہیں (حاضر نہیں ہوتے) اور انہیں ان کے گھروں سمیت جلا دوں، اگر ایک اچھے قسم کے گوشت کی ہڈی یا کم گوشت کی دو پسلیاں ملنے کا علم ہو جائے تو وہ ضرور مسجد میں حاضر ہوں، اور اگر ان کو ان نمازوں کا اجر و فضیلت معلوم ہو جائے تو وہ (گھٹنوں کے بل) گھسٹتے ہوئے چلے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 1310]» اس سند سے یہ روایت حسن ہے، لیکن حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 644]، [مسلم 651]، [مسند أبى يعلی 6338]، [ابن حبان 2096]، [مسند الحميدي 986]
وضاحت: (تشریح حدیث 1307) اس حدیث کے پیشِ نظر کچھ علمائے کرام نے نمازِ باجماعت کو واجب قرار دیا ہے کیونکہ اگر یہ صرف سنّت ہوتی تو جماعت کے چھوڑنے والے کو آگ میں زندہ جلانے کی دھمکی نہ دی جاتی، بعض علماء نے کہا کہ یہ تنبیہ منافقین کے لئے تھی اس لئے واجب نہیں، جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا سنّت ہے، بہر حال جماعت کی فضیلت سے انکار ممکن نہیں۔ سماحۃ الشيخ ابن باز رحمہ اللہ فرض نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنے کو واجب قرار دیتے تھے اور ان کا فتویٰ ہے کہ قدرت رکھتے ہوئے کوئی شخص فرض نماز جماعت سے ادا نہ کرے تو گھر میں اس کی نماز نہ ہوگی۔
(حديث مرفوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن نافع، عن ابن عمر، انه نزل بضجنان في ليلة باردة، فامر مناديا فنادى: الصلاة في الرحال، ثم اخبر ان النبي صلى الله عليه وسلم كان"إذا كان في سفر في ليلة باردة او المطر امر مناديا فنادى: الصلاة في الرحال".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ نَزَلَ بِضَجْنَانَ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ، فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى: الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ أَخْبَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"إِذَا كَانَ فِي سَفَرٍ فِي لَيْلَةٍ بَارِدَةٍ أَوْ الْمَطَرِ أَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى: الصَّلَاةُ فِي الرِّحَالِ".
نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک سرد رات میں مقام ”ضجنان“ پر پڑاؤ ڈالا تو موذن کو حکم دیا کہ کہے: «الصلاة فى الرحال» یعنی ”نماز اپنے اپنے خیموں میں پڑھ لو“، پھر بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں ہوتے اور رات ٹھنڈی ہوتی یا بارش ہو جاتی تو موذن کو حکم دیتے کہ وہ منادی کر دے کہ «الصلاة فى الرحال»(ایک نسخہ میں ہے آپ نے خیمہ کے اندر نماز پڑھی)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1311]» اس حدیث کی سند صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 632]، [مسلم 697]، [أبويعلی 5673]، [ابن حبان 2076]
وضاحت: (تشریح حدیث 1308) اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بہت سردی یا بہت بارش میں اپنی جگہ پر نماز ادا کی جا سکتی ہے، ان دونوں عذروں کے بغیر نماز گھر، دوکان یا خیمہ کے اندر پڑھنا اور جماعت ترک کر دینا درست نہیں ہے۔
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا داود بن ابي هند، قال: قلت لسعيد بن المسيب: رجل صلى في بيته، ثم ادرك الإمام وهو يصلي، ايصلي معه؟ قال: نعم، قلت: بايتهما يحتسب؟ قال: بالتي صلى مع الإمام، فإن ابا هريرة حدثنا، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة الرجل في الجميع تزيد على صلاته وحده بضعا وعشرين جزءا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ: رَجُلٌ صَلَّى فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ أَدْرَكَ الْإِمَامَ وَهُوَ يُصَلِّي، أَيُصَلِّي مَعَهُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: بِأَيَّتِهِمَا يَحْتَسِبُ؟ قَالَ: بِالَّتِي صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ، فَإِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَنَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي الْجَمِيعِ تَزِيدُ عَلَى صَلَاتِهِ وَحْدَهُ بِضْعًا وَعِشْرِينَ جُزْءًا".
داؤد بن ابی ہند نے کہا: میں نے سعید بن المسيب رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ ایک آدمی نے اپنے گھر میں نماز پڑھ لی، پھر امام کو نماز پڑھتے پا لیا تو کیا وہ اس امام کے ساتھ نماز پڑھے؟ سعید بن المسیب رحمہ اللہ نے کہا: ہاں نماز پڑھے، میں نے عرض کیا: پھر ان دو میں سے کون سی نماز (فرض) شمار ہو گی؟ ابن المسیب رحمہ اللہ نے کہا: وہی جو امام کے ساتھ پڑھی ہے، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ نماز اس کے اکیلے نماز پڑھنے سے بیس گنا سے زیادہ بہتر ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1312]» یہ حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 648]، [مسلم 649]، نیز صحیحین میں خمس وعشرین ہے یعنی 25 گنا زیادہ ثواب۔
(حديث مرفوع) اخبرنا مسدد، حدثنا يحيى، عن عبيد الله، حدثني نافع، عن عبد الله، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "صلاة الرجل في جماعة تزيد على صلاته وحده سبعا وعشرين درجة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "صَلَاةُ الرَّجُلِ فِي جَمَاعَةٍ تَزِيدُ عَلَى صَلَاتِهِ وَحْدَهُ سَبْعًا وَعِشْرِينَ دَرَجَةً".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی جماعت کے ساتھ کی نماز اکیلے پڑھنے سے ستائیس گنا زیادہ ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1313]» اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 645]، [مسلم 650]، [أبويعلی 5752]، [ابن حبان 2052]
وضاحت: (تشریح احادیث 1309 سے 1311) آدمی اکیلے نماز پڑھے تو صرف ایک نماز کا ثواب اور جماعت کے ساتھ نماز ادا کرے تو 25 یا 27 نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔ صحیحین کی روایت میں ہے کہ نماز باجماعت 27 نمازوں سے بھی افضل ہے۔ اس سے نماز باجماعت کی فضیلت معلوم ہوئی، اور ان دونوں روایات میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے 25 کہا ہو اور کسی وقت 27 کہا ہو۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا الاوزاعي، حدثني الزهري، عن سالم، عن ابن عمر , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا استاذنت احدكم زوجته إلى المسجد، فلا يمنعها".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا اسْتَأْذَنَتْ أَحَدَكُمْ زَوْجَتُهُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَلَا يَمْنَعْهَا".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کسی کی بیوی مسجد جانے کی اجازت طلب کرے تو وہ (شوہر) اس کو (مسجد جانے سے) نہ روکے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1314]» یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 865، 873]، [مسلم 442]، [أبويعلی 5426، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا محمد بن عمرو، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تمنعوا إماء الله مساجد الله، وليخرجن إذا خرجن تفلات".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَمْنَعُوا إِمَاءَ اللَّهِ مَسَاجِدَ اللَّهِ، وَلْيَخْرُجْنَ إِذَا خَرَجْنَ تَفِلَاتٍ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی لونڈیوں کو مساجد سے نہ روکو، اور جب وہ باہر نکلیں تو خوشبو (زینت) کے ساتھ نہ نکلیں۔“
تخریج الحدیث: «إسناده حسن ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1315]» اس حدیث کی سند حسن، لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 562]، [أبويعلی 5915]، [ابن حبان 2214]، [الموارد 327]، [مسندالحميدي 1008]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن ولكن الحديث صحيح
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن محمد بن عمرو، بإسناد هذا الحديث. قال: قال سعيد بن عامر: التفلة: التي لا طيب لها.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، بِإِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ: التَّفِلَةُ: الَّتِي لَا طِيبَ لَهَا.
سعید بن عامر نے کہا: «التفلة»(کے معنی ہیں) ایسی چیز جس میں خوشبو ہو۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1316]» اس روایت کو صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1311 سے 1314) پچھلی حدیث میں «تفلات» کا لفظ گزرا ہے جو اس روایت کے مطابق «تفلة» کی جمع ہے، یعنی عورتیں مسجد جائیں تو خوشبو لگا کر نہ جائیں۔ ان روایات سے معلوم ہوا کہ عورتوں کا نماز اور وعظ سننے کے لئے مسجد جانا درست ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد سے اللہ کی بندیوں کو نہ روکنے کی تاکید کی۔ شیخ محمد صالح العثیمین رحمہ اللہ نے «لَا تَمْنَعُوْا إِمَآءَ اللّٰهِ مَسَاجِدَ اللّٰهِ» کے لفظ میں ایک بہت لطیف اشارہ کیا ہے، لونڈیوں اور مساجد کی اضافت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی طرف کی، یعنی یہ لونڈیاں اور بندیاں بھی اللہ کی اور مساجد بھی اللہ کی، اس لئے اللہ کی بندیوں کو مسجد جانے سے نہ روکو۔ بہت سے علماء کا یہی مسلک ہے، لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کچھ لوگ عورتوں کا مسجد میں جانا ممنوع قرار دیتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے زمانے کی حالت کا علم ہوتا تو عورتوں کا مسجد جانا ممنوع قرار دیتے، اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً تو یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا گمان ہے، دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بالکل واضح ہے جس کے ہوتے ہوئے کسی کا قول و قرار قابلِ قبول نہیں۔ ثانیاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں کثرت سے مسجد آتی تھیں اور یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان میں ہے جو اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتے تھے بلکہ وہی بات بتاتے جس کی وحی کی جاتی تھی: «وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىٰ . إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ [النجم: 3-4] » کیا الله تعالیٰ کو (نعوذ بالله) معلوم نہیں تھا کہ اگلے زمانوں میں کیا حالات رونما ہوں گے؟ یقیناً تھا اس لئے مساجد سے عورتوں کو نہ روکنے کا حکم اس علم کے باوجود ابدی ہے، پھر طرفۂ تماشہ دیکھئے، مسجد جانے سے تو عورتوں کو روکا جاتا ہے اور ان کے شاپنگ، تفریح، نمائش اور میلے بلکہ فلم دیکھنے جانے میں انہیں کوئی عار نہیں ہوتا۔ «فَاعْتَبرُوْا يَا أُوْلِى الْاَبْصَار» ۔
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة , قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا وضع العشاء وحضرت الصلاة، فابدءوا بالعشاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا وُضِعَ الْعَشَاءُ وَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر شام کا کھانا سامنے رکھا جائے اور نماز کا (بھی) وقت ہو جائے تو پہلے کھانا کھا لو۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1317]» یہ حدیث سنداً و متناً صحیح متفق عليہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 671]، [مسلم 558]، [ترمذي 353]، [ابن ماجه 935]، [أبويعلی 4431]، [الحميدي 182، وغيرهم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه