سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں حالت حیض میں ہوتی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کو دھو دیتی تھی۔
تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل جعفر بن الحارث الواسطي، [مكتبه الشامله نمبر: 1108]» یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 301]، [مسلم 297]، [ابن حبان 3668]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل جعفر بن الحارث الواسطي
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يعلى بن عبيد، حدثنا الاعمش، عن تميم بن سلمة، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: "لقد كنت اغسل راس رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا حائض، وهو عاكف".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "لَقَدْ كُنْتُ أَغْسِلُ رَأْسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا حَائِضٌ، وَهُوَ عَاكِفٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں ہوتے اور میں حالت حیض میں، (پھر بھی) میں آپ کے سر مبارک کو دھو دیتی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1109]» یہ اثر صحیح ہے، اور (1102) میں تخریج گذر چکی ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، قال: سمعت مغيرة، قال: ارسل ابو ظبيان إلى إبراهيم يساله عن الحائض توضئ المريض؟، قال: "نعم، وتسنده"، قال: لا، فقلت للمغيرة: سمعته من إبراهيم؟، قال: لا، قال عبد الله: وتسنده يعني في الصلاة.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ مُغِيرَةَ، قَالَ: أَرْسَلَ أَبُو ظَبْيَانَ إِلَى إِبْرَاهِيمَ يَسْأَلُهُ عَنْ الْحَائِضِ تُوَضِّئُ الْمَرِيضَ؟، قَالَ: "نَعَمْ، وَتُسْنِدُهُ"، قَالَ: لَا، فَقُلْتُ لِلْمُغِيرَةِ: سَمِعْتَهُ مِنْ إِبْرَاهِيمَ؟، قَالَ: لَا، قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَتُسْنِدُهُ يَعْنِي فِي الصَّلَاةِ.
شعبہ نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ کو کہتے سنا کہ ابوظبیان نے امام ابراہیم رحمہ اللہ کے پاس قاصد بھیجا کہ حائضہ کے بارے میں دریافت کرے کہ وہ مریض کو وضو کرا سکتی ہے؟ ابراہیم رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں، کہا: نماز میں اس کو سہارا بھی دے سکتی ہے؟ کہا: نہیں۔ شعبہ نے کہا: میں نے مغیرہ سے پوچھا: تم نے خود ابراہیم رحمہ اللہ سے سنا؟ کہا: نہیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: «وتسنده»: یعنی اس کو نماز میں سہارا دے سکتی ہے؟ (جس کا انہوں نے جواب دیا کہ نماز میں نہیں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 1110]» اس روایت کی سند میں انقطاع ہے، لہٰذا ضعیف ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 202/1] و [مصنف عبدالرزاق 1259]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شعبة، قال سليمان: اخبرني عن ثابت بن عبيد، عن القاسم، عن عائشة رضي الله عنها، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: "ناوليني الخمرة"، قالت: إني حائض، قال:"إنها ليست في يدك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ سُلَيْمَانُ: أَخْبَرَنِي عَنْ ثَابِتِ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: "نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ"، قَالَتْ: إِنِّي حَائِضٌ، قَالَ:"إِنَّهَا لَيْسَتْ فِي يَدِكِ".
قاسم سے مروی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے مصلّٰی (جائے نماز) دے دو“، تو انہوں نے عرض کیا: میں حائضہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ (یعنی: حیض) تمہارے ہاتھ میں تھوڑے ہی ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1111]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 298]، [أبوداؤد 261]، [نسائي 272]، [ترمذي 134] و [أبوعوانه 313/1]
سیدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حائضہ کے ساتھ کھانا کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ کھاؤ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1113]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 342/4، 293/5]، [ترمذي 133]، [ابن ماجة 651]، [سنن أبى داؤد 212 وغيرهم]
وضاحت: (تشریح احادیث 1093 سے 1109) امام ترمذی رحمہ اللہ نے فرمایا: تمام علماء کا یہی قول ہے کہ حائضہ کے ساتھ کھانا کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ... الخ۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن عيينة، عن علي بن مسهر، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنه، انه كان يامر جاريته ان تناوله الخمرة من المسجد، فتقول: إني حائض، فيقول: "إن حيضتك ليست في كفك فتناوله".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ جَارِيَتَهُ أَنْ تُنَاوِلَهُ الْخُمْرَةَ مِنْ الْمَسْجِدِ، فَتَقُولُ: إِنِّي حَائِضٌ، فَيَقُولُ: "إِنَّ حِيضَتَكِ لَيْسَتْ فِي كَفِّكِ فَتُنَاوِلُهُ".
نافع رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اپنی لونڈی سے کہتے کہ انہیں مسجد سے مصلّٰی اٹھا کر دے دے، وہ کہتی: میں حائضہ ہوں، وہ جواب دیتے: تمہارا حیض تمہارے ہاتھ میں تھوڑے ہی ہے، چنانچہ وہ مصلّٰی انہیں دے دیتی۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1114]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 360/2]
(حديث مرفوع) اخبرنا مروان بن محمد، حدثنا الهيثم بن حميد، حدثنا العلاء بن الحارث، عن حرام بن حكيم، عن عمه، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن مؤاكلة الحائض، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إن بعض اهلي لحائض، وإنا لمتعشون إن شاء الله جميعا".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ حَرَامِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّ بَعْضَ أَهْلِي لَحَائِضٌ، وَإِنَّا لَمُتَعَشُّونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ جَمِيعًا".
حرام بن حکیم سے مروی ہے کہ ان کے چچا (سیدنا عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے بارے میں پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری کوئی بیوی حیض والی ہو گی اور ہم سب ان شاء الله ایک ساتھ شام کا کھانا کھائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1115]» اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ «مؤاكلة الحائض» سے متعلق حدیث (1109) میں گذری ہے۔
قاسم سے مروی ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ کے مصلّٰی چھونے میں کوئی حرج نہیں سمجھتی تھیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1116]» یہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقوف فعل ہے جو صحیح ہے۔ تفصیل و تخریج گذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1109 سے 1112) ان تمام احادیث و آثار سے معلوم ہوا کہ جس عورت کو حیض آ رہا ہو اس کے ساتھ کھانا پینا، بیٹھنا اٹھنا، مباشرت کرنا اور جیسا کہ کہا گیا ما فوق الازار سب کچھ جائز ہے۔