سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 51
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن عباد، حدثنا سفيان هو ابن عيينة، عن ابن جدعان، عن انس بن مالك رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "انا اول من ياخذ بحلقة باب الجنة فاقعقعها"، قال انس: كاني انظر إلى يد رسول الله صلى الله عليه وسلم يحركها، وصف لنا سفيان كذا، وجمع ابو عبد الله اصابعه وحركها، قال: وقال له ثابت: مسست يد رسول الله صلى الله عليه وسلم بيدك؟، قال: نعم، قال: فاعطنيها اقبلها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ هُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُدْعَانَ، عَنْ أَنَسٍ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَنَا أَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِحَلْقَةِ بَابِ الْجَنَّةِ فَأُقَعْقِعُهَا"، قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَرِّكُهَا، وَصَفَ لَنَا سُفْيَانُ كَذَا، وَجَمَعَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ أَصَابِعَهُ وَحَرَّكَهَا، قَالَ: وَقَالَ لَهُ ثَابِتٌ: مَسَسْتَ يَدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَعْطِنِيهَا أُقَبِّلْهَا.
روایت ہے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سب سے پہلا شخص ہوں جو جنت کے دروازے کو کھٹکھٹاؤں گا، انس نے کہا: گویا کہ اب بھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھ کو حرکت کرتے دیکھ رہا ہوں۔ سفیان رحمہ اللہ نے اس کی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابوعبداللہ نے اپنی انگلیاں جمع کیں اور انہیں حرکت دی، راوی نے کہا: ثابت نے ان سے کہا: تمہارا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے مس ہوا تھا؟ انہوں نے کہا: ہاں، کہا: مجھے دیجئے تاکہ میں اس کا بوسہ دے سکوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد بن جدعان، [مكتبه الشامله نمبر: 51]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اسے [ترمذي 3147] و [حميدي 1238] نے روایت کیا ہے۔ لیکن آپ کا سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹانا درست ہے، کما تقدم اور جیسا کہ امام احمد نے [مسند 144/3] میں صحيح سند سے ذکر کیا ہے۔ [صحيح مسلم 196] میں بھی روایت ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 47 سے 51)
ان احادیث سے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت معلوم ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے شخص ہوں گے جو جنت کا دروازہ کھلوائیں گے۔
❀ راوی نے اپنے قول کی صداقت کے لئے جو کیفیت دیکھی بیان کر دی۔
❀ اسلاف کرام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت۔
❀ بزرگ ہستی کے ہاتھ کا بوسہ دینا درست ہے۔ بعض علماء نے اسے صرف والدین کے ساتھ خاص کیا ہے۔ واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف علي بن زيد بن جدعان
حدیث نمبر: 52
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا احمد بن عبد الله، حدثنا حسين بن علي، عن زائدة، عن المختار بن فلفل، عن انس رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "انا اول شافع في الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ فِي الْجَنَّةِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں جنت میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا شخص ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 52]»
اس حدیث کی سند صحيح ہے۔ دیکھئے: [صحيح مسلم 196] و [مصنف ابن ابي شيبه 11697] و [دلائل النبوة 479/5] وغيرهم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 53
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يزيد هو ابن عبد الله بن الهاد، عن عمرو بن ابي عمرو، عن انس بن مالك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "إني لاول الناس تنشق الارض عن جمجمتي يوم القيامة ولا فخر، واعطى لواء الحمد ولا فخر، وانا سيد الناس يوم القيامة ولا فخر، وانا اول من يدخل الجنة يوم القيامة ولا فخر، وآتي باب الجنة فآخذ بحلقتها فيقولون: من هذا؟، فاقول انا محمد، فيفتحون لي فادخل فاجد الجبار مستقبلي، فاسجد له، فيقول: ارفع راسك يا محمد وتكلم، يسمع منك، وقل، يقبل منك، واشفع تشفع، فارفع راسي، فاقول: امتي امتي يا رب، فيقول: اذهب إلى امتك، فمن وجدت في قلبه مثقال حبة من شعير من الإيمان، فادخله الجنة، فاذهب، فمن وجدت في قلبه مثقال ذلك ادخلتهم الجنة، فاجد الجبار مستقبلي فاسجد له، فيقول: ارفع راسك يا محمد وتكلم، يسمع منك، وقل: يقبل منك، واشفع تشفع، فارفع راسي فاقول: امتي امتي يا رب، فيقول: اذهب إلى امتك، فمن وجدت في قلبه مثقال حبة من خردل من الإيمان فادخله الجنة، فاذهب، فمن وجدت في قلبه مثقال ذلك ادخلتهم الجنة، وفرغ من حساب الناس وادخل من بقي من امتي في النار مع اهل النار، فيقول اهل النار: ما اغنى عنكم انكم كنتم تعبدون الله ولا تشركون به شيئا، فيقول الجبار: فبعزتي لاعتقنهم من النار، فيرسل إليهم، فيخرجون من النار وقد امتحشوا، فيدخلون في نهر الحياة، فينبتون فيه كما تنبت الحبة في غثاء السيل ويكتب بين اعينهم هؤلاء عتقاء الله، فيذهب بهم فيدخلون الجنة، فيقول لهم اهل الجنة: هؤلاء الجهنميون، فيقول الجبار: بل هؤلاء عتقاء الجبار".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنِّي لَأَوَّلُ النَّاسِ تَنْشَقُّ الْأَرْضُ عَنْ جُمْجُمَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرُ، وَأُعْطَى لِوَاءَ الْحَمْدِ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرُ، وَأَنَا أَوَّلُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا فَخْرُ، وَآتِي بَابَ الْجَنَّةِ فَآخُذُ بِحَلْقَتِهَا فَيَقُولُونَ: مَنْ هَذَا؟، فَأَقُولُ أَنَا مُحَمَّدٌ، فَيَفْتَحُونَ لِي فَأَدْخُلُ فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي، فَأَسْجُدُ لَهُ، فَيَقُولُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ، يُسْمَعْ مِنْكَ، وَقُلْ، يُقْبَلْ مِنْكَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي، فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبّ، فَيَقُولُ: اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ شَعِيرٍ مِنْ الْإِيمَانِ، فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، فَأَذْهَبُ، فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ، فَأَجِدُ الْجَبَّارَ مُسْتَقْبِلِي فَأَسْجُدُ لَهُ، فَيَقُولُ: ارْفَعْ رَأْسَكَ يَا مُحَمَّدُ وَتَكَلَّمْ، يُسْمَعْ مِنْكَ، وَقُلْ: يُقْبَلْ مِنْكَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ: أُمَّتِي أُمَّتِي يَا رَبِّ، فَيَقُولُ: اذْهَبْ إِلَى أُمَّتِكَ، فَمَنْ وَجَدْتَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ الْإِيمَانِ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ، فَأَذْهَبُ، فَمَنْ وَجَدْتُ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَلِكَ أَدْخَلْتُهُمْ الْجَنَّةَ، وَفُرِغَ مِنْ حِسَابِ النَّاسِ وَأُدْخِلَ مَنْ بَقِيَ مِنْ أُمَّتِي فِي النَّارِ مَعَ أَهْلِ النَّارِ، فَيَقُولُ أَهْلُ النَّارِ: مَا أَغْنَى عَنْكُمْ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَعْبُدُونَ اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُونَ بِهِ شَيْئًا، فَيَقُولُ الْجَبَّارُ: فَبِعِزَّتِي لَأَعْتِقَنَّهُمْ مِنْ النَّارِ، فَيُرْسِلُ إِلَيْهِمْ، فَيَخْرُجُونَ مِنْ النَّارِ وَقَدْ امْتُحِشُوا، فَيُدْخَلُونَ فِي نَهَرِ الْحَيَاةِ، فَيَنْبُتُونَ فِيهِ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي غُثَاءِ السَّيْلِ وَيُكْتَبُ بَيْنَ أَعْيُنِهِمْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ اللَّهِ، فَيُذْهَبُ بِهِمْ فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ لَهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ: هَؤُلَاءِ الْجَهَنَّمِيُّونَ، فَيَقُولُ الْجَبَّار: بَلْ هَؤُلَاءِ عُتَقَاءُ الْجَبَّارِ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ فرماتے تھے: میں وہ سب سے پہلا شخص ہوں کہ میرے سر سے قیامت کے دن زمین شق ہو گی اور کچھ فخر نہیں، مجھے حمد باری تعالیٰ کا جھنڈا عطا کیا جائے گا اور کچھ فخر نہیں، میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں اس میں بھی کوئی فخر نہیں، اور قیامت کے دن سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والا بھی میں ہی ہوں اور کچھ فخر نہیں، میں جنت کے دروازے کے پاس آ کر اس کے کُنڈے بجاؤں گا تو وہ کہیں گے یہ کون ہے؟ میں جواب دوں گا کہ میں محمد ہوں وہ میرے لئے دروازے کھول دیں گے تو میں اپنے سامنے جبار (قہر و غضب والا) کو پاؤں گا۔ میں سجدے میں گر جاؤں گا (رب ذوالجلال) فرمائے گا: اے محمد! اپنا سر اٹھایئے اور گفتگو کیجئے، آپ کی بات سنی جائے گی، آپ مانگئے مراد پوری کی جائے گی، شفاعت کیجئے آپ کی سفارش قبول کی جائے گی۔ چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: میری امت اے میرے پروردگار! ارشاد ہوگا اپنی امت کے پاس جائیے جس کے دل میں بھی جو کے دانے برابر بھی ایمان ہو اس کو جنت میں داخل کر دیجئے۔ میں جاؤں گا اور جس کے دل میں بھی اتنا ایمان پاؤں گا اسے جنت میں داخل کرا دوں گا، سامنے میرے (میرا رب) جبار ہو گا میں اسے سجدہ کروں گا، ارشاد ہو گا: اے محمد سر اٹھائیے اور بات کیجئے، سنی جائے گی، آپ جو مانگیں گے دیا جائے گا، شفاعت کریں گے قبول کی جائے گی، میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا: اے رب! میری امت، میری امت، ارشاد ہو گا جاؤ اپنی امت کے پاس اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی ایمان ہو اسے جنت میں داخل کر دو، میں امت کے پاس آؤں گا اور جس کے دل میں رائی کے دانے بھر بھی ایمان پاؤں گا اسے جنت میں داخل کرا دوں گا، اس وقت تک حساب کتاب سے فراغت ہو چکی ہو گی اور میری امت میں سے جو باقی بچے ہوں گے جہنم میں داخل کر دیئے جائیں گے، دوزخ والے کہیں گے تم سے زیادہ کوئی غنی نہیں، تم اللہ کی عبادت کرتے تھے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک و ساجھی بھی نہیں بناتے تھے، زبردست تسلط والا (جبار) فرمائے گا: میری عزت کی قسم میں انہیں جہنم سے آزاد کر دوں گا، چنانچہ وہ بھی دوزخ سے نکال لئے جائیں گے اور ان کے چہرے جھلسے ہوئے ہوں گے، وہ سب نہر حياة میں ڈالے جائیں گے اور وہ اس میں سے ایسے اگیں گے جیسے پانی کے خس و خاشاک میں سے (سبزہ) اُگتا ہے، اور ان کی آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ کے آزاد کردہ لوگ ہیں، پھر ان کو لے جا کر جنت میں داخل کر دیا جائے گا، ان سے اہل جنت کہیں گے یہ جہنمی لوگ ہیں، جبار فرمائے گا (نہیں) یہ جبار کے آزاد کردہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح فهو صدوق ولكنه كثير الخطأ وكانت فيه غفلة، [مكتبه الشامله نمبر: 53]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ اسے [امام أحمد 144/3]، [ابن منده 877] اور بیہقی نے [دلائل النبوة 479/5] میں ذکر کیا ہے۔ امام احمد نے صحیح سند سے بھی اسے [مسند 145/3] میں ذکر کیا ہے لہٰذا اس کا معنی صحیح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح فهو صدوق ولكنه كثير الخطأ وكانت فيه غفلة
حدیث نمبر: 54
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني معاوية، عن يونس بن ميسرة، عن ابي إدريس الخولاني، عن ابن غنم، قال: "نزل جبريل عليه السلام على رسول الله صلى الله عليه وسلم فشق بطنه، ثم قال جبريل: قلب وكيع فيه اذنان سميعتان وعينان بصيرتان محمد رسول الله المقفي، الحاشر، خلقك قيم، ولسانك صادق، ونفسك مطمئنة"، قال ابو محمد: وكيع يعني: شديدا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ ابْنِ غَنْمٍ، قَالَ: "نَزَلَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَقَّ بَطْنَهُ، ثُمَّ قَالَ جِبْرِيلُ: قَلْبٌ وَكِيعٌ فِيهِ أُذُنَانِ سَمِيعَتَانِ وَعَيْنَانِ بَصِيرَتَانِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ الْمُقَفِّي، الْحَاشِرُ، خُلُقُكَ قَيِّمٌ، وَلِسَانُكَ صَادِقٌ، وَنَفْسُكَ مُطْمَئِنَّةٌ"، قَالَ أَبُو مُحَمَّد: وَكِيعٌ يَعْنِي: شَدِيدًا.
عبدالرحمن بن غنم نے روایت کیا کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اترے، آپ کا پیٹ چاک کیا پھر فرمایا: سخت مضبوط دل ہے جس میں دو سننے والے کان اور دو دیکھنے والی آنکھیں ہیں، محمد اللہ کے آخری رسول اور حاشر (جمع کرنے والے) ہیں۔ آپ کے اخلاق پاکیزہ ہیں اور آپ کی زبان سچی ہے اورنفس مطمئن ہے۔ امام دارمی نے فرمایا: «وكيع» کے معنی شدید کے ہیں۔

تخریج الحدیث: «في إسناده ثلاث علل: عبد الله بن صالح ومعاوية بن يحيى ضعيفان وهو مرسل أيضا عبد الرحمن بن غنم تابعي وليس صحابيا، [مكتبه الشامله نمبر: 54]»
اس روایت کی سند میں کئی خرابیاں ہیں، ابن غنم تابعی ہیں لہٰذا مرسل ضعیف ہے لیکن شق بطن کا واقعہ مشہور اور صحیح ہے، نیز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا صفات بھی صحیح اور معروف و مشہور ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ثلاث علل: عبد الله بن صالح ومعاوية بن يحيى ضعيفان وهو مرسل أيضا عبد الرحمن بن غنم تابعي وليس صحابيا
حدیث نمبر: 55
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني معاوية، عن عروة بن رويم، عن عمرو بن قيس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "إن الله ادرك بي الاجل المرحوم واختصر لي اختصارا فنحن الآخرون، ونحن السابقون يوم القيامة، وإني قائل قولا غير فخر: إبراهيم خليل الله، وموسى صفي الله، وانا حبيب الله، ومعي لواء الحمد يوم القيامة، وإن الله عز وجل وعدني في امتي واجارهم من ثلاث: لا يعمهم بسنة، ولا يستاصلهم عدو، ولا يجمعهم على ضلالة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ رُوَيْمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ أَدْرَكَ بِيَ الْأَجَلَ الْمَرْحُومَ وَاخْتَصَرَ لِيَ اخْتِصَارًا فَنَحْنُ الْآخِرُونَ، وَنَحْنُ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنِّي قَائِلٌ قَوْلًا غَيْرَ فَخْرٍ: إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللَّهِ، وَمُوسَى صَفِيُّ اللَّهِ، وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ، وَمَعِي لِوَاءُ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَنِي فِي أُمَّتِي وَأَجَارَهُمْ مِنْ ثَلَاثٍ: لَا يَعُمُّهُمْ بِسَنَةٍ، وَلَا يَسْتَأْصِلُهُمْ عَدُوٌّ، وَلَا يَجْمَعُهُمْ عَلَى ضَلَالَةٍ".
سیدنا عمرو بن قیس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے رحمت کی گھڑی میں دیکھا اور اس نے (زمانے کو) میرے لئے مختصر کر دیا، اس طرح ہم سب (قوموں) کے آخر میں آئے، لیکن قیامت کے دن سب سے پہلے لوگ ہوں گے، میں (تم سے) ایک بات بنا فخر کے کہہ رہا ہوں: ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں، اور موسیٰ اللہ کے مخلص دوست، اور میں اللہ کا محبوب ہوں، حمد کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہاتھ میں ہو گا۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میری امت کے بارے میں وعدہ فرمایا اور تین چیزوں سے انہیں چھٹکارہ نصیب فرمایا ہے: ان سب کو قحط سالی میں مبتلا نہ کرے گا (یعنی ساری امت پر یکبارگی عذاب نہ آئے گا) نہ ان کا کوئی دشمن ان سب کو نیست و نابود کر سکے گا اور ساری امت کو گمراہی پر جمع نہ ہونے دے گا۔

تخریج الحدیث: «في إسناده علتان: عبد الله بن صالح والانقطاع، [مكتبه الشامله نمبر: 55]»
یہ سند دو علتوں کی وجہ سے ضعیف ہے، عبدالله بن صالح ضعیف اور اس میں انقطاع ہے۔ دیکھئے: [البداية والنهاية 270/6]، [كنز العمال 32080]

وضاحت:
(تشریح حدیث 55)
یعنی ساری امت نہ قحط سالی میں مبتلا ہو گی، نہ جڑ سے ختم ہو گی، اور نہ ہی سب کے سب یکبارگی گمراہ ہوں گے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده علتان: عبد الله بن صالح والانقطاع
9. باب مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنُزُولِ الطَّعَامِ مِنَ السَّمَاءِ:
9. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکریم میں آسمان سے کھانا اترنے کا بیان
حدیث نمبر: 56
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن المبارك، حدثنا معاوية بن يحيى، حدثنا ارطاة بن المنذر، عن ضمرة بن حبيب، قال: سمعت مسلمة السكوني، وقال غير محمد: سلمة السكوني رضي الله عنه، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم إذ قال قائل: يا رسول الله، هل اتيت بطعام من السماء؟، قال: "نعم اتيت بطعام"، قال: يا نبي الله، هل كان فيه من فضل؟، قال:"نعم"، قال: فما فعل به؟، قال:"رفع إلى السماء، وقد اوحي إلي اني غير لابث فيكم إلا قليلا، ثم تلبثون، حتى تقولوا: متى متى؟ ثم تاتوني افنادا يفني بعضكم بعضا، بين يدي الساعة موتان شديد، وبعده سنوات الزلازل".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَرْطَاةُ بْنُ الْمُنْذِرِ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَسْلَمَةَ السَّكُونِيَّ، وَقَالَ غَيْرُ مُحَمَّدٍ: سَلَمَةَ السَّكُونِيَّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ أُتِيتَ بِطَعَامٍ مِنْ السَّمَاءِ؟، قَالَ: "نَعَمْ أُتِيتُ بِطَعَامٍ"، قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، هَلْ كَانَ فِيهِ مِنْ فَضْلٍ؟، قَالَ:"نَعَمْ"، قَالَ: فَمَا فُعِلَ بِهِ؟، قَالِ:"رُفِعَ إِلَى السَّمَاءِ، وَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنِّي غَيْرُ لَابِثٍ فِيكُمْ إِلَّا قَلِيلًا، ثُمَّ تَلْبَثُونَ، حَتَّى تَقُولُوا: مَتَى مَتَى؟ ثُمَّ تَأْتُونِي أَفْنَادًا يُفْنِي بَعْضُكُمْ بَعْضًا، بَيْنَ يَدَيْ السَّاعَةِ مُوتَانٌ شَدِيدٌ، وَبَعْدَهُ سَنَوَاتُ الزَّلَازِلِ".
سیدنا مسلمہ السکونی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ کو آسمان سے کھانا مہیا کیا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں میرے پاس کھانا لایا گیا، اس نے کہا: اے اللہ کے نبی! اس میں سے کچھ بچا بھی تھا، فرمایا: ہاں بچا تھا، کہا: پھر وہ کیا ہوا؟ فرمایا: آسمان پر اٹھا لیا گیا اور مجھے وحی کی گئی کہ میں تمہارے ساتھ بہت کم ٹھہروں گا اور تم لوگ موجود رہو گے اور کہنے لگو گے کب کب؟ (قیامت آئے گی)، پھرتم چھوٹی ٹولیوں میں میرے پاس ایک دوسرے کے ساتھ قتل و غارتگری کرتے ہوئے آؤ گے، قرب قیامت بہت اموات ہوں گی اور اس کے بعد زلزلوں کے سال آ ئیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف معاوية بن يحيى ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 56]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن [مسند ابي يعلى 6861] اور [صحيح ابن حبان 6777] میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [موارد الظمآن 1861]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف معاوية بن يحيى ولكن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 57
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا سليمان التيمي، عن ابي العلاء، عن سمرة بن جندب رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اتي بقصعة من ثريد"، فوضعت بين يدي القوم، فتعاقبوها إلى الظهر من غدوة، يقوم قوم ويجلس آخرون، فقال رجل لسمرة بن جندب: اما كانت تمد؟، فقال سمرة: من اي شيء تعجب؟ ما كانت تمد إلا من ها هنا، واشار بيده إلى السماء.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُتِيَ بِقَصْعَةٍ مِنْ ثَرِيدٍ"، فَوُضِعَتْ بَيْنَ يَدَيْ الْقَوْمِ، فَتَعَاقَبُوهَا إِلَى الظُّهْرِ مِنْ غُدْوَةٍ، يَقُومُ قَوْمٌ وَيَجْلِسُ آخَرُونَ، فَقَالَ رَجُلٌ لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ: أَمَا كَانَتْ تُمَدُّ؟، فَقَالَ سَمُرَةُ: مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَعْجَبُ؟ مَا كَانَتْ تُمَدُّ إِلَّا مِنْ هَا هُنَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى السَّمَاءِ.
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ثرید سے بھرا ہوا ایک برتن لایا گیا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا اور صبح سے دوپہر تک لوگ باری باری اس سے کھانا تناول کرتے رہے، ایک جماعت کھڑی ہوتی اور دوسری جماعت بیٹھ جاتی۔ ایک آدمی نے سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا اس برتن یا پیالے میں اور کچھ ڈالا گیا تھا؟ سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تمہیں تعجب کیوں ہے؟ اور انہوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا اور کہا: اس میں وہاں سے کھانا آ رہا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 57]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن ابي شيبة 11754]، [ترمذي 3629]، [دلائل النبوة 92/6]، [صحيح ابن حبان 6529]۔ مزید دیکھئے: [موارد الظمآن 2149]

وضاحت:
(تشریح احادیث 56 سے 57)
❀ ان احادیث سے ثابت ہوا کہ حضرت زکریا علیہ السلام اور حضرت مریم علیہا السلام کی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی کبھی کبھی آسمان سے رزق آتا تھا۔
❀ اس حدیث سے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ و کرامت ثابت ہوئی کہ ثرید کا ایک چھوٹا سا برتن اور اس سے لوگ صبح سے شام تک کھاتے رہے۔
❀ یہ کرامت اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھی جو اس نے اپنے بندے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کی، ورنہ انسان کے بس میں کچھ نہیں ہے، جیسا کہ سیدنا سمرة رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا کہ کھانا وہاں سے آرہا تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
10. باب في حُسْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
10. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و جمال کا بیان
حدیث نمبر: 58
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن سعيد، اخبرنا عبد الرحمن بن محمد، عن اشعث بن سوار، عن ابي إسحاق، عن جابر بن سمرة رضي الله عنه، قال: "رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم في ليلة إضحيان، وعليه حلة حمراء، فجعلت انظر إليه وإلى القمر، قال: فلهو كان احسن في عيني من القمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحِيَانٍ، وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَى الْقَمَرِ، قَالَ: فَلَهُوَ كَانَ أَحْسَنَ فِي عَيْنِي مِنْ الْقَمَرِ".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں سرخ لباس زیب تن کئے ہوئے دیکھا، میں کبھی آپ کی طرف اور کبھی چودہویں کے چاند کی طرف دیکھتا اور میری نظر میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چودہویں کے چاند سے زیادہ حسین تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف أشعث بن سوار ضعيف وهو متأخر السماع من أبي إسحاق، [مكتبه الشامله نمبر: 58]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور اسی سند سے یہ روایت [ترمذي 3812]، [معجم الكبير 1842]، [مستدرك الحاكم 186/4]، [دلائل النبوة 196/1] میں مروی ہے لیکن اس کا شاہد صحیح سند سے [مسند ابي يعلى 1699] میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف أشعث بن سوار ضعيف وهو متأخر السماع من أبي إسحاق
حدیث نمبر: 59
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إبراهيم بن المنذر، حدثنا عبد العزيز بن ابي الثابت الزهري، حدثني إسماعيل بن إبراهيم بن اخي موسى، عن عمه موسى بن عقبة، عن كريب، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم: "افلج الثنيتين، إذا تكلم رئي كالنور يخرج من بين ثناياه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي الثَابِتٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنُ أَخِي مُوسَى، عَنْ عَمِّهِ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْلَجَ الثَّنِيَّتَيْنِ، إِذَا تَكَلَّمَ رُئِيَ كَالنُّورِ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ ثَنَايَاهُ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ثنایا (سامنے کے دو دانت) میں جھری تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تو ان دونوں دانتوں کے درمیان نور کی شعاعیں پھوٹتی دیکھی جاتیں۔

تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 59]»
اس روایت میں ایک راوی عبدالعزيز متروک ہے اور اس کو ترمذی نے [شمائل 14] ميں، فسوی نے [المعرفة والتاريخ 288/3] میں، بیہقی نے [الدلائل 215/1] میں اور بغوی نے [شرح السنة 3644] میں اسی سند سے ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
حدیث نمبر: 60
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمود بن غيلان، حدثنا يزيد بن هارون، اخبرنا مسعر، عن عبد الملك بن عمير، قال: قال ابن عمر رضي الله عنه: "ما رايت احدا انجد، ولا اجود، ولا اشجع، ولا اضوا او اوضا من رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مِسْعَرٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَنْجَدَ، وَلَا أَجْوَدَ، وَلَا أَشْجَعَ، وَلَا أَضْوَأَ أَوْ أَوْضَأَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مدد کرنے والا، سخاوت کرنے والا، بہادر اور خوبصورت کوئی نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 60]»
اس سند کے تمام رواۃ ثقہ ہیں اور اسی سند سے یہ روایت [مسلم 2307] و [طبقات ابن سعد] میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.