سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 291
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن عبد الله، اخبرنا روح، عن كهمس بن الحسن، عن عبد الله بن شقيق، قال: جاء ابو هريرة رضي الله عنه إلى كعب يسال عنه، وكعب في القوم، فقال كعب: ما تريد منه؟ فقال: اما إني لا اعرف لاحد من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكون احفظ لحديثه مني، فقال كعب: "اما إنك لن تجد طالب شيء إلا سيشبع منه يوما من الدهر، إلا طالب علم او طالب دنيا"، فقال: انت كعب؟، قال: نعم، قال: لمثل هذا جئت.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: جَاءَ أَبُو هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى كَعْبٍ يَسْأَلُ عَنْهُ، وَكَعْبٌ فِي الْقَوْمِ، فَقَالَ كَعْبٌ: مَا تُرِيدُ مِنْهُ؟ فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَا أَعْرِفُ لِأَحَدٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُونَ أَحْفَظَ لِحَدِيثِهِ مِنِّي، فَقَالَ كَعْبٌ: "أَمَا إِنَّكَ لَنْ تَجِدَ طَالِبَ شَيْءٍ إِلَّا سَيَشْبَعُ مِنْهُ يَوْمًا مِنْ الدَّهْرِ، إِلَّا طَالِبَ عِلْمٍ أَوْ طَالِبَ دُنْيَا"، فَقَالَ: أَنْتَ كَعْبٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: لِمِثْلِ هَذَا جِئْتُ.
عبدالله بن شقیق نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے بارے میں پوچھتے ہوئے) ان کے پاس آئے، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: ان سے کیا چاہتے ہو؟ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو نہیں جانتا جو مجھ سے زیادہ ان کی حدیث کا حافظ ہو، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا: یقیناً آپ طالب علم اور طالب دنیا کے سوا کسی بھی چیز کے طالب کو ایک نہ ایک دن ضرور پائیں گے کہ وہ اکتا گیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ ہی کعب ہیں؟ کہا: جی ہاں! کہا: میں ایسے ہی کے پاس آیا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 292]»
اس روایت کی سند میں انقطاع کے سبب یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 92/1]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
حدیث نمبر: 292
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا يحيى بن ابي بكير، حدثنا شبل، عن عمرو بن دينار، عن طاوس، قال: قيل: يا رسول الله، اي الناس اعلم؟، قال: "من جمع علم الناس إلى علمه، وكل طالب علم غرثان إلى علم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا شِبْلٌ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟، قَالَ: "مَنْ جَمَعَ عِلْمَ النَّاسِ إِلَى عِلْمِهِ، وَكُلُّ طَالِبِ عِلْمٍ غَرْثَانُ إِلَى عِلْمٍ".
طاؤوس نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ فرمایا: جو لوگوں کا علم اپنے علم کے ساتھ بٹورے اور ہر طالب علم علم کا بھوکا ہوتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 293]»
اس حدیث کی سند دوسرے طرق سے صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 3183]، [القضاعي 205]، [مجمع الزوائد 748] و [مصنف عبدالرزاق 4844]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 293
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن الخليل بن مرة، عن معاوية بن قرة، قال: "كنت في حلقة فيها المشيخة وهم يتراجعون، فيهم عابد بن عمرو، فقال شاب في ناحية القوم: افيضوا في ذكر الله، بارك الله فيكم، فنظر القوم بعضهم إلى بعض، في اي شيء رآنا؟ ثم قال بعضهم: من امرك بهذا؟ فمر، لئن عدت، لنفعلن ولنفعلن".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ الْخَلِيلِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، قَالَ: "كُنْتُ فِي حَلْقَةٍ فِيهَا الْمَشْيَخَةُ وَهُمْ يَتَرَاجَعُونَ، فِيهِمْ عَابِدُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ شَابٌّ فِي نَاحِيَةِ الْقَوْمِ: أَفِيضُوا فِي ذِكْرِ اللَّهِ، بَارَكَ اللَّهُ فِيكُمْ، فَنَظَرَ الْقَوْمُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فِي أَيِّ شَيْءٍ رَآنَا؟ ثُمَّ قَالَ بَعْضُهُمْ: مَنْ أَمَرَكَ بِهَذَا؟ فَمُرَّ، لَئِنْ عُدْتَ، لَنَفْعَلَنَّ وَلَنَفْعَلَنَّ".
معاویہ بن قرہ نے کہا: میں مشائخ کے حلقہ میں تھا جو عابد بن عمرو سے رجوع کر رہے تھے، ایک طرف بیٹھے ہوئے ایک نوجوان نے کہا: (لوگو) اللہ کے ذکر میں مشغول ہو جاؤ «بارك الله فيكم»، لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، آیا اس نے ہم کو کس چیز میں مشغول دیکھا ہے؟ پھر ان میں سے کسی نے کہا: تمہیں کس نے اس کا حکم دیا؟ جاؤ بھاگو، اگر پھر ایسا کہا تو ہم تمہیں دیکھ لیں گے، ضرور دیکھیں گے۔

تخریج الحدیث: «لم يحكم عليه المحقق، [مكتبه الشامله نمبر: 294]»
اس روایت کی سند میں خلیل بن مرہ ضعیف باقی رجال ثقہ ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: لم يحكم عليه المحقق
حدیث نمبر: 294
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يوسف بن موسى، اخبرنا ابو عامر، انبانا قرة بن خالد، عن عون بن عبد الله، قال: قال عبد الله: "نعم المجلس مجلس تنشر فيه الحكمة، وترجى فيه الرحمة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ، أَنْبَأَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّه: "نِعْمَ الْمَجْلِسُ مَجْلِسٌ تُنْشَرُ فِيهِ الْحِكْمَةُ، وَتُرْجَى فِيهِ الرَّحْمَةُ".
عون بن عبداللہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کتنی اچھی ہے وہ مجلس جس میں حکمت بکھیری جائے اور اس میں رحمت کی آس لگائی جائے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع عون بن عبد الله لم يسمع من عبد الله فيما نعلم، [مكتبه الشامله نمبر: 295]»
اس روایت کے رجال ثقہ ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے، عون بن عبداللہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں، اور یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہو سکتا۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 775]، [جامع بيان العنم 215]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع عون بن عبد الله لم يسمع من عبد الله فيما نعلم
29. باب مَنْ قَالَ الْعِلْمُ الْخَشْيَةُ وَتَقْوَى اللَّهِ:
29. اس کا بیان کہ علم خشیت اور اللہ کا تقویٰ ہے
حدیث نمبر: 295
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني معاوية، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير، عن ابيه جبير بن نفير، عن ابي الدرداء رضي الله عنه، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فشخص ببصره إلى السماء، ثم قال: "هذا اوان يختلس العلم من الناس، حتى لا يقدروا منه على شيء , فقال زياد بن لبيد الانصاري: يا رسول الله، وكيف يختلس منا وقد قرانا القرآن؟ فوالله لنقرانه، ولنقرئنه نساءنا وابناءنا، فقال: ثكلتك امك يا زياد، إن كنت لاعدك من فقهاء اهل المدينة، هذه التوراة والإنجيل عند اليهود، والنصارى، فماذا يغني عنهم؟"، قال جبير: فلقيت عبادة بن الصامت رضي الله عنه، قال: قلت الا تسمع ما يقول اخوك ابو الدرداء؟ فاخبرته بالذي قال، قال: صدق ابو الدرداء، إن شئت لاحدثنك باول علم يرفع من الناس: الخشوع يوشك ان تدخل مسجد الجماعة، فلا ترى فيه رجلا خاشعا.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ جُبْيَرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَخَصَ بِبَصَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ، ثُمَّ قَالَ: "هَذَا أَوَانُ يُخْتَلَسُ الْعِلْمُ مِنْ النَّاسِ، حَتَّى لَا يَقْدِرُوا مِنْهُ عَلَى شَيْءٍ , فَقَالَ زِيَادُ بْنُ لَبِيدٍ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ يُخْتَلَسُ مِنَّا وَقَدْ قَرَأْنَا الْقُرْآنَ؟ فَوَاللَّهِ لَنَقْرَأَنَّهُ، وَلَنُقْرِئَنَّهُ نِسَاءَنَا وَأَبْنَاءَنَا، فَقَالَ: ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ يَا زِيَادُ، إِنْ كُنْتُ لَأَعُدُّكَ مِنْ فُقَهَاءِ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، هَذِهِ التَّوْرَاةُ وَالْإِنْجِيلُ عِنْدَ الْيَهُودِ، وَالنَّصَارَى، فَمَاذَا يُغْنِي عَنْهُمْ؟"، قَالَ جُبَيْرٌ: فَلَقِيتُ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ أَخُوكَ أَبُو الدَّرْدَاءِ؟ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قَالَ، قَالَ: صَدَقَ أَبُو الدَّرْدَاءِ، إِنْ شِئْتَ لَأُحَدِّثَنَّكَ بِأَوَّلِ عِلْمٍ يُرْفَعُ مِنْ النَّاسِ: الْخُشُوعُ يُوشِكُ أَنْ تَدْخُلَ مَسْجِدَ الْجَمَاعَةِ، فَلَا تَرَى فِيهِ رَجُلًا خَاشِعًا.
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی، پھر فرمایا: یہ ایسا وقت ہے کہ آدمیوں سے علم چھینا جا رہا ہے یہاں تک کہ اس میں سے کسی چیز پر قادر نہ ہوں گے۔ زیاد بن لبيد انصاری نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم سے کس طرح علم چھینا جائے گا حالانکہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور قسم اللہ کی ہم اس کو ضرور پڑھیں گے اور اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی پڑھائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اے زیاد! تمہیں تمہاری ماں روئے، میں تمہیں مدینہ کے سمجھ داروں میں شمار کرتا تھا، یہ توراة و انجیل یہود و نصاری کے پاس ہے مگر ان کے کیا کام آتی ہے۔ جبیر نے کہا: میں سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے کہا: آپ نے اپنے بھائی ابودرداء کی بات سنی؟ اور ان کا قول میں نے ذکر کیا، انہوں نے جواب دیا: ابودرداء نے صحیح کہا۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتاؤں کہ علم سے پہلے لوگوں کے پاس سے جو چیز اٹھے گی وہ خشوع ہے، قریب ہے کہ تم مسجد میں داخل ہو گے اور اس میں تمہیں کوئی خشوع والا آدمی دکھائی نہ دے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عبد الله بن صالح سيئ الحفظ وفيه غفلة وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 296]»
اس حدیث کی سند میں عبداللہ بن صالح ضعیف ہیں، اور اسے [ترمذي 2653] نے روایت کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [المستدرك 99/1 وقال صحيح الاسناد و وافقه الذهبي] اور اس کے دوسرے بھی شواہد ہیں جن سے اس کو تقویت ملتی ہے۔ دیکھئے: [مجمع الزوائد 992] و [صحيح ابن حبان 4572]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عبد الله بن صالح سيئ الحفظ وفيه غفلة وباقي رجاله ثقات
حدیث نمبر: 296
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا يزيد بن هارون، حدثنا الوليد بن جميل الكتاني، حدثنا مكحول، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "فضل العالم على العابد كفضلي على ادناكم"، ثم تلا هذه الآية إنما يخشى الله من عباده العلماء سورة فاطر آية 28، ثم قال إن الله وملائكته واهل سماواته وارضيه، والنون في البحر يصلون على الذين يعلمون الناس الخير".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ جَمِيلٍ الْكِتَانِيُّ، حَدَّثَنَا مَكْحُولٌ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ"، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ سورة فاطر آية 28، ثُمَّ قَالَ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ وَأَهْلَ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ، وَالنُّونَ فِي الْبَحْرِ يُصَلُّونَ عَلَى الَّذِينَ يُعَلِّمُونَ النَّاسَ الْخَيْرَ".
مکحول نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت شریفہ تلاوت فرمائی: «﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ ...﴾» [فاطر: 28/35] اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتے اور زمین و آسمانوں کے سب لوگ حتی کہ سمندر کی مچھلیاں بھی دعائے خیر کرتی ہیں ان کے لئے جو لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «هكذا جاء مرسلا، [مكتبه الشامله نمبر: 297]»
یہ مرسل روایت ہے، لیکن [ترمذي 2686] میں موصولاً مروی ہے۔ دیکھئے: [المعجم الطبراني الكبير 278/8، 7911] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو حسن غریب کہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: هكذا جاء مرسلا
حدیث نمبر: 297
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن اسد ابو عاصم، حدثنا يحيى بن يمان، عن سفيان، عن ليث، عن رجل، عن ابن عمر رضي الله عنه، قال: "لا يكون الرجل عالما حتى لا يحسد من فوقه، ولا يحقر من دونه، ولا يبتغي بعلمه ثمنا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ رَجُلٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَا يَكُونُ الرَّجُلُ عَالِمًا حَتَّى لَا يَحْسُدَ مَنْ فَوْقَهُ، وَلَا يَحْقِرَ مَنْ دُونَهُ، وَلَا يَبْتَغِيَ بِعِلْمِهِ ثَمَنًا".
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کوئی آدمی اس وقت تک عالم نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے سے اعلیٰ پر حسد نہ کرے اور اپنے سے کم تر کو حقیر نہ سمجھے اور اپنے علم کی قیمت نہ مانگے۔

تخریج الحدیث: «في إسناده ليث بن أبي سليم وهو ضعيف وفيه جهالة الرجل الراوي عن ابن عمر، [مكتبه الشامله نمبر: 298]»
اس اثر کی سند میں کئی علتیں ہونے کے سبب ضعیف ہے، گرچہ علماء نے اسے ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 16477]، [حلية الأولياء 306/1]، [جامع بيان العلم 858] لیکن اس کا شاہد ہے۔ دیکھئے اثر رقم (300)۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 287 سے 297)
دینی امور میں اپنے سے اعلی پر اس طرح حسد کرنا کہ الله تعالیٰ مجھے بھی ایسا علم عطا کرے یا اتنا مال دے کہ میں اللہ کے راستے میں خرچ کروں، یہ جائز ہے، جیسا کہ حدیث: «لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ ......» [بخاري 73]، [مسلم 816] میں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده ليث بن أبي سليم وهو ضعيف وفيه جهالة الرجل الراوي عن ابن عمر
حدیث نمبر: 298
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن سليمان، عن ابي اسامة، عن مسعر، قال: سمعت عبد الاعلى التيمي، يقول: "من اوتي من العلم ما لا يبكيه، لخليق ان لا يكون اوتي علما ينفعه، لان الله تعالى نعت العلماء، ثم قرا: إن الذين اوتوا العلم إلى قوله يبكون سورة الإسراء آية 107 - 109".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الْأَعْلَى التَّيْمِيَّ، يَقُولُ: "مَنْ أُوتِيَ مِنْ الْعِلْمِ مَا لَا يُبْكِيهِ، لَخَلِيقٌ أَنْ لَا يَكُونَ أُوتِيَ عِلْمًا يَنْفَعُهُ، لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى نَعَتَ الْعُلَمَاءَ، ثُمَّ قَرَأ: إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ إِلَى قَوْلِهِ يَبْكُونَ سورة الإسراء آية 107 - 109".
مسعر سے روایت ہے: میں نے عبدالأعلىٰ التیمی کو کہتے سنا: جس کسی کو ایسا علم دیا گیا جو اسے رلا نہ سکے، اس کے لئے مناسب ہے کہ اسے ایسا علم ہی نہ ملے جو اسے فائدہ دے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے علماء کی تعریف فرمائی ہے، پھر انہوں نے پڑھا: «﴿إِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ (إلي قوله تعالٰي) يَبْكُونَ ....﴾» [الإسراء: 107/17-109] بیشک وہ لوگ جنہیں اس سے قبل علم دیا گیا ہے، ان کے پاس جب بھی اس کی تلاوت کی جاتی ہے، تو وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدے میں گر پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے، ہمارے رب کا وعدہ بلاشبہ پورا ہو کر رہنے والا ہے، وہ اپنی ٹھوڑیوں کے بل روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 299]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 17209]، [حلية الأولياء 88/5]، [الزهد لابن المبارك 125]

وضاحت:
(تشریح حدیث 297)
ان آیات کے آخر میں اہلِ علم کی صفت یہ بیان کی کہ وہ روتے ہوئے سجدے میں گر پڑتے ہیں اور یہ ہی محل شاہد ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 299
Save to word اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عصمة بن الفضل، حدثنا زيد بن حباب، عن مبارك بن فضالة، عن عبيد الله بن عمر العمري، عن ابي حازم، قال: "لا تكون عالما حتى يكون فيك ثلاث خصال: لا تبغي على من فوقك، ولا تحقر من دونك، ولا تاخذ على علمك دنيا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُبَارَكِ بْنِ فَضَالَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، قَالَ: "لَا تَكُونُ عَالِمًا حَتَّى يَكُونَ فِيكَ ثَلَاثُ خِصَالٍ: لَا تَبْغِي عَلَى مَنْ فَوْقَكَ، وَلَا تَحْقِرُ مَنْ دُونَكَ، وَلَا تَأْخُذُ عَلَى عِلْمِكَ دُنْيَا".
ابوحازم نے کہا: تم اس وقت تک عالم نہیں بن سکتے جب تک کہ تین صفات تمہارے اندر نہ پائی جائیں: جو تم سے اعلیٰ ہیں ان پر ظلم نہ کرو، اپنے سے کم علم کو حقیر نہ سمجھو، اور اپنے علم سے دنیا نہ خریدو۔

تخریج الحدیث: «مبارك بن فضال يدلس تدليس تسوية وقد عنعن. فالإسناد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 300]»
اس قول کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 243/3]، نیز اس معنی کی روایت حدیث نمبر (297) میں گزر چکی ہے جو ایک دوسرے کی شاہد ہو سکتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: مبارك بن فضال يدلس تدليس تسوية وقد عنعن. فالإسناد ضعيف
حدیث نمبر: 300
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن اسد، حدثنا عبثر، عن برد بن سنان، عن سليمان بن موسى الدمشقي، عن ابي الدرداء رضي الله عنه، قال: "لا تكون عالما حتى تكون متعلما، ولا تكون بالعلم عالما حتى تكون به عاملا، وكفى بك إثما ان لا تزال مخاصما، وكفى بك إثما ان لا تزال مماريا، وكفى بك كاذبا ان لا تزال محدثا في غير ذات الله عز وجل".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، عَنْ بُرْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَا تَكُونُ عَالِمًا حَتَّى تَكُونَ مُتَعَلِّمًا، وَلَا تَكُونُ بِالْعِلْمِ عَالِمًا حَتَّى تَكُونَ بِهِ عَامِلًا، وَكَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُخَاصِمًا، وَكَفَى بِكَ إِثْمًا أَنْ لَا تَزَالَ مُمَارِيًا، وَكَفَى بِكَ كَاذِبًا أَنْ لَا تَزَالَ مُحَدِّثًا فِي غَيْرِ ذَاتِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم جب تک متعلم نہ ہو عالم نہیں بن سکتے، اور جب تک اس علم کے عامل نہ ہو عالم نہیں ہو سکتے، اورتم کو گناہ کے لئے کافی ہے کہ تم جھگڑالو رہو، تمہارے گناہ کو کافی ہے کہ تم گھمنڈی رہو، اور تمہارے جھوٹا ہونے کے لئے کافی ہے کہ تم اللہ کی ذات کے سوا باتیں بناتے رہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 301]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [زهد لوكيع 220]، [اقتضاء العلم 16]، [جامع بيان العلم 1120]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن

Previous    26    27    28    29    30    31    32    33    34    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.