سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 21
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا فروة، حدثنا الوليد بن ابي ثور الهمداني، عن إسماعيل السدي، عن عباد ابي يزيد، عن علي بن ابي طالب رضوان الله عليه، قال: "كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بمكة فخرجنا معه في بعض نواحيها، فمررنا بين الجبال والشجر، فلم نمر بشجرة ولا جبل إلا قال: السلام عليك يا رسول الله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا فَرْوَةُ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي ثَوْرٍ الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل السُّدِّيِّ، عَنْ عَبَّادٍ أَبِي يَزِيدَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ، قَالَ: "كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَكَّةَ فَخَرَجْنَا مَعَهُ فِي بَعْضِ نَوَاحِيهَا، فَمَرَرْنَا بَيْنَ الْجِبَالِ وَالشَّجَرِ، فَلَمْ نَمُرَّ بِشَجَرَةٍ وَلَا جَبَلٍ إِلَّا قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ".
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض نواحی مکہ میں نکلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی سامنے آیا اس نے کہا: اے اللہ کے رسول آپ پر سلامتی ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده فيه علتان: ضعف الوليد بن أبي ثور وجهالة عباد أبي يزيد وهو عباد بن أبي يزيد، [مكتبه الشامله نمبر: 21]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 3630]، [دلائل النبوة 153/2] لیکن اس کا شاہد [المعجم الاوسط 5428] میں ہے جو حسن ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 16 سے 21)
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عظمت وتوقیر ہے کہ پتھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے ہیں، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے، الله تعالیٰ جمادات کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے قوت گویائی عطا فرماتا ہے، نیز یہ کہ نبوت کے ملنے سے پہلے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم معزز و مکرم تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده فيه علتان: ضعف الوليد بن أبي ثور وجهالة عباد أبي يزيد وهو عباد بن أبي يزيد
حدیث نمبر: 22
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن شمر بن عطية، عن رجل من مزينة، او جهينة، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفجر فإذا هو بقريب من مئة ذئب قد اقعين وفود الذئاب، فقال لهم رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ترضخون لهم شيئا من طعامكم وتامنون على ما سوى ذلك؟"، فشكوا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الحاجة، قال:"فآذنوهن"، قال: فآذنوهن فخرجن ولهن عواء.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شِمْرِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ مُزَيْنَةَ، أَوْ جُهَيْنَةَ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْفَجْرَ فَإِذَا هُوَ بِقَرِيبٍ مِنْ مِئَةِ ذِئْبٍ قَدْ أَقْعَيْنَ وُفُودُ الذِّئَابِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَرْضَخُونَ لَهُمْ شَيْئًا مِنْ طَعَامِكُمْ وَتَأْمَنُونَ عَلَى مَا سِوَى ذَلِكَ؟"، فَشَكَوْا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَاجَةَ، قَالَ:"فَآذِنُوهُنَّ"، قَالَ: فَآذَنُوهُنَّ فَخَرَجْنَ وَلَهُنَّ عُوَاءٌ.
شمر بن عطیہ سے روایت ہے کہ مزینہ یا جہینہ کے ایک شخص نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر ادا کی، اچانک سو کے قریب بھیڑئیے نمودار ہوئے اور اپنی مخصوص نشست کی طرح بیٹھ گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (صحابہ کرام سے) فرمایا: اپنے کھانے میں سے کچھ انہیں دے دو تاکہ ان کے شر سے مامون و محفوظ ہو جاؤ، ان بھیڑیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھوک کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں اپنی مجبوری سے آگاہ کرو، لوگوں نے ایسا ہی کیا، چنانچہ وہ سب بھیٹرئیے آوازیں نکالتے ہوئے واپس چلے گئے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات ولكن قيل: أخطأ محمد بن يوسف في مئة وخمسين حديثا من حديث سفيان، [مكتبه الشامله نمبر: 22]»
اس روایت کے سارے راوی ثقات ہیں۔ دیکھئے: [البداية والنهاية 146/6]، و [مصنف ابن ابي شيبه 11785]

وضاحت:
(تشریح حدیث 22)
اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ شجر و حجر، حیوانات و جمادات میں سے جسے چاہے گویائی بخش دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کا معجزہ کہ درندے بھی آپ کے پاس آتے ہیں، ان کی فریاد کو سننا اور حاجت رفع کرنا ساری مخلوق پر شفقت و رحمت کی دلیل ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: « ﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ﴾ » ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات ولكن قيل: أخطأ محمد بن يوسف في مئة وخمسين حديثا من حديث سفيان
حدیث نمبر: 23
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن ابي سفيان، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: جاء جبريل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو جالس حزين، وقد تخضب بالدم من فعل اهل مكة من قريش، فقال جبريل عليه السلام: يا رسول الله، هل تحب ان اريك آية؟، قال: "نعم، فنظر إلى شجرة من ورائه"، فقال: ادع بها، فدعا بها، فجاءت وقامت بين يديه، فقال: مرها فلترجع، فامرها فرجعت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"حسبي حسبي".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ جِبْرِيلُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ حَزِينٌ، وَقَدْ تَخَضَّبَ بِالدَّمِ مِنْ فِعْلِ أَهْلِ مَكَّةَ مِنْ قُرَيْشٍ، فَقَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلامُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ تُحِبُّ أَنْ أُرِيَكَ آيَةً؟، قَالَ: "نَعَمْ، فَنَظَرَ إِلَى شَجَرَةٍ مِنْ وَرَائِهِ"، فَقَالَ: ادْعُ بِهَا، فَدَعَا بِهَا، فَجَاءَتْ وَقَامَتْ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: مُرْهَا فَلْتَرْجِعْ، فَأَمَرَهَا فَرَجَعَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"حَسْبِي حَسْبِي".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جبرئیل علیہ السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ اہل مکہ قریش کے ستائے ہوئے، خون سے لت پت، اداس و غمگین بیٹھے ہوئے تھے، جبرئیل علیہ السلام نے کہا: اے اللہ کے پیغمبر! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کو (اللہ کی قدرت کی) ایک نشانی دکھاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں دکھلاؤ، چنانچہ جبرئیل علیہ السلام نے ایک درخت کی طرف دیکھا جو ان کے پیچھے تھا اور کہا اسے بلائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخت کو بلایا پس وہ آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہو گیا، جبریل علیہ السلام نے کہا: اسے حکم دیجئے کہ واپس چلا جائے، چنانچہ وہ لوٹ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بس بس (یعنی یہ نشانی میرے لئے کافی ہے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 23]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کو [امام أحمد 113/3]، [ابن ابي شيبة 11781]، [ابن ماجه 4028]، [وابويعلي 3685] نے روایت کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 23)
اس حدیث سے ثابت ہوا:
❀ نبی ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اذیتیں برداشت کرنا، صبر کرنا اور ثابت قدم رہنا۔
❀ جبریل علیہ السلام کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنا اور پیغام رسانی کا کام سرانجام دینا۔
❀ درخت کا چل کر آنا بہت بڑا معجزہ ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی واضح دلیل ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 24
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا جرير، وابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي ظبيان، عن ابن عباس رضي الله عنه، قال: اتى رجل من بني عامر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الا اريك آية"، قال: بلى، قال:"فاذهب فادع تلك النخلة"، فدعاها فجاءت تنقز بين يديه، قال: قل لها ترجع، قال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم:"ارجعي"، فرجعت حتى عادت إلى مكانها، فقال: يا بني عامر، ما رايت رجلا كاليوم اسحر منه!.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا أُرِيكَ آيَةً"، قَالَ: بَلَى، قَالَ:"فَاذْهَبْ فَادْعُ تِلْكَ النَّخْلَةَ"، فَدَعَاهَا فَجَاءَتْ تَنْقُزُ بَيْنَ يَدَيْهِ، قَالَ: قُلْ لَهَا تَرْجِعْ، قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"ارْجِعِي"، فَرَجَعَتْ حَتَّى عَادَتْ إِلَى مَكَانِهَا، فَقَالَ: يَا بَنِي عَامِرٍ، مَا رَأَيْتُ رَجُلًا كَالْيَوْمِ أَسْحَرَ مِنْهُ!.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بنوعامر کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں ایک نشانی دکھاؤں؟ اس نے کہا دکھائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جاؤ اس کھجور کے درخت کو بلاؤ، چنانچہ وہ شخص گیا اور اس درخت کو بلایا تو وہ (درخت) ان سے آگے آگے کودتا ہوا چلا آیا، اس شخص نے کہا (اس سے کہئے) لوٹ جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوٹ جاؤ، چنانچہ وہ درخت اپنی جگہ واپس چلا گیا تو بنوعامر کے اس آدمی نے کہا: اے بنی عامر میں نے آج تک ان سے بڑا جادوگر دیکھا ہی نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 24]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 223/1]، [ترمذي 3632]، [معجم كبير 12622]، [مستدرك حاكم 620/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 24)
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کہ درخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتے اور حکم بجا لاتے ہیں۔ کفار و مشرکین کا عناد کہ اطاعت و صداقت قبول کرنے کے بجائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جادوگر گردانتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
5. باب مَا أُكْرِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ تَفْجِيرِ الْمَاءِ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ:
5. اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے پانی نکال کر آپ کو جو تکریم عطا کی اس کا بیان
حدیث نمبر: 25
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا شعيب بن صفوان، عن عطاء بن السائب، عن ابي الضحى، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: دعا النبي صلى الله عليه وسلم بلالا، فطلب بلال الماء ثم جاء، فقال: لا والله ما وجدت الماء، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "فهل من شن؟"فاتاه بشن، فبسط كفيه فيه فانبعثت تحت يديه عين، قال: فكان ابن مسعود رضي الله عنه يشرب، وغيره يتوضا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَالًا، فَطَلَبَ بِلَالٌ الْمَاءَ ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ الْمَاءَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فَهَلْ مِنْ شَنٍّ؟"فَأَتَاهُ بِشَنٍّ، فَبَسَطَ كَفَّيْهِ فِيهِ فَانْبَعَثَتْ تَحْتَ يَدَيْهِ عَيْنٌ، قَالَ: فَكَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَشْرَبُ، وَغَيْرُهُ يَتَوَضَّأُ.
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا، انہوں نے پانی تلاش کیا پھر آ کر بتایا کہ پانی نہیں ملا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی مشکیزہ ہے؟ وہ مشکیزہ لے کر آپ کے پاس آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا تو آپ کے ہاتھ کے پنجے کے نیچے سے چشمہ پھوٹ پڑا اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اس سے پینے لگے، دیگر حضرات وضو کرنے لگے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن شعيب بن صفوان لم يذكر فيمن سمعوا عطاء قبل الاختلاط، [مكتبه الشامله نمبر: 25]»
اس روایت کو دیگر محدثین نے بھی ذکر کیا ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 251/1]، [طبراني 12560]، [مسند ابي يعلی 3337]، [دلائل النبوة للبيهقي 128/4] مجموع طرق سے یہ روایت صحیح اور اس کی اصل صحیحین میں موجود ہے جو آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن شعيب بن صفوان لم يذكر فيمن سمعوا عطاء قبل الاختلاط
حدیث نمبر: 26
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن الاسود بن قيس، عن نبيح العنزي، قال: قال جابر بن عبد الله رضي الله عنهما: غزونا او سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ونحن يومئذ بضعة عشر ومائتان فحضرت الصلاة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "هل في القوم من طهور؟"، فجاء رجل يسعى، بإداوة فيها شيء من ماء، ليس في القوم ماء غيره،"فصبه رسول الله صلى الله عليه وسلم في قدح، ثم توضا فاحسن الوضوء، ثم انصرف وترك القدح"، فركب الناس ذلك القدح، وقالوا: تمسحوا تمسحوا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"على رسلكم"حين سمعهم يقولون ذلك،"فوضع رسول الله صلى الله عليه وسلم كفه في الماء والقدح"، وقال:"بسم الله"، ثم قال:"اسبغوا الطهور"، فوالذي هو ابتلاني ببصري لقد رايت العيون، عيون الماء تخرج من بين اصابعه فلم يرفعها حتى توضئوا اجمعون.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، قَالَ: قَالَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا: غَزَوْنَا أَوْ سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ بِضْعَةَ عَشَرَ وَمِائَتَانِ فَحَضَرَتْ الصَّلَاةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "هَلْ فِي الْقَوْمِ مِنْ طَهُورٍ؟"، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْعَى، بِإِدَاوَةٍ فِيهَا شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ، لَيْسَ فِي الْقَوْمِ مَاءٌ غَيْرُهُ،"فَصَبَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَدَحٍ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ انْصَرَفَ وَتَرَكَ الْقَدَحَ"، فَرَكِبَ النَّاسُ ذَلِكَ الْقَدَحَ، وَقَالُوا: تَمَسَّحُوا تَمَسَّحُوا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"عَلَى رِسْلِكُمْ"حِينَ سَمِعَهُمْ يَقُولُونَ ذَلِكَ،"فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّهُ فِي الْمَاءِ وَالْقَدَحِ"، وَقَالَ:"بِسْمِ اللَّهِ"، ثُمَّ قَالَ:"أَسْبِغُوا الطُّهُورَ"، فَوَالَّذِي هُوَ ابْتَلَانِي بِبَصَرِي لَقَدْ رَأَيْتُ الْعُيُونَ، عُيُونَ الْمَاءِ تَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ فَلَمْ يَرْفَعْهَا حَتَّى تَوَضَّئُوا أَجْمَعُونَ.
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ کرنے نکلے اس وقت ہماری تعداد 210 سے زائد تھی، نماز کا وقت آ پہنچا تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا لوگوں کے پاس کچھ پانی ہے؟ ایک آدمی ایک ڈولچی لے کر دوڑتا آیا جس میں تھوڑا سا پانی تھا، لوگوں کے پاس اس کے سوا بالکل پانی نہیں تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک بڑے پیالے میں انڈیل دیا، پھر آپ نے اس سے خوب اچھی طرح وضو فرمایا اور وہاں سے ہٹ گئے اور وہ پیالہ وہیں چھوڑ دیا، لوگ اس پیالے پر یہ کہتے ہوئے ٹوٹ پڑے، نہا لو نہا لو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ کہتے سنا تو فرمایا: ٹھہرو، پھر آپ نے اپنی ہتھیلی پانی اور پیالے پر رکھ دی اور فرمایا: بسم اللہ کرو، پھر فرمایا: اچھی طرح طہارت حاصل کرو۔ راوی نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے آنکھوں کی مصیبت میں مبتلا فرمایا، میں نے پانی کے ان چشموں کو دیکھا جو آپ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں کو ہٹایا نہیں تا آنکہ سب کے سب وضوء سے فارغ ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 26]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أحمد 292/2]، [مصنف ابن ابي شيبة 11172]، [دلائل النبوة 117/4]، و [صحيح ابن خزيمه 107]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 27
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، وسعيد بن الربيع، قالا: حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة، وحصين، سمعا سالم بن ابي الجعد، يقول: سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال: اصابنا عطش فجهشنا، فانتهينا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم،"فوضع يده في تور، فجعل يفور كانه عيون، من خلل اصابعه"، وقال: "اذكروا اسم الله"، فشربنا حتى وسعنا وكفانا، وفي حديث عمرو بن مرة: فقلنا لجابر: كم كنتم؟، قال: كنا الفا وخمس مئة ولو كنا مئة الف لكفانا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، وَسَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، وَحُصَيْنٍ، سَمِعَا سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَصَابَنَا عَطَشٌ فَجَهَشْنَا، فَانْتَهَيْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،"فَوَضَعَ يَدَهُ فِي تَوْرٍ، فَجَعَلَ يَفُورُ كَأَنَّهُ عُيُونٌ، مِنْ خَلَلِ أَصَابِعِهِ"، وَقَالَ: "اذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ"، فَشَرِبْنَا حَتَّى وَسِعَنَا وَكَفَانَا، وَفِي حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ: فَقُلْنَا لِجَابِرٍ: كَمْ كُنْتُمْ؟، قَالَ: كُنَّا أَلْفًا وَخَمْسَ مِئَةٍ وَلَوْ كُنَّا مِئَةَ أَلْفٍ لَكَفَانَا.
سالم بن ابی الجعد کہتے ہیں میں نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ ہم کو پیاس نے آ ليا (یہ صلح حدیبیہ کا واقعہ ہے) ہم رو پڑے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک ایک برتن پر رکھا اور آپ کی انگلیوں سے (پانی ایسے) ابلنے لگا گویا کہ وہ پانی کے چشے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کا نام لے کر شروع کرو، راوی نے بیان کیا کہ پھر ہم نے پانی پیا اور وہ ہم سب کے لئے کافی رہا (بخاری کی روایت میں ہے: پیا اور وضو کیا)، عمرو بن مرہ کی روایت میں ہے کہ ہم نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا اس وقت تم کتنے افراد تھے؟ کہا: (1500) پندرہ سو تھے (بخاری میں 1400 چودہ سو ہے)، اگر ہم ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی ہمارے لئے کافی تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 27]»
اس روایت کی یہ سند صحیح ہے اس کی اصل صحیحین میں موجود ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 4152]، و [مسلم 1856]، [مسند أبى يعلی 2107]، و [صحيح ابن حبان 6538]، [نسائي 77]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 28
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله الرقاشي، حدثنا جعفر بن سليمان، حدثنا الجعد ابو عثمان، حدثنا انس بن مالك رضي الله عنه، حدثنا جابر بن عبد الله، قال: شكى اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العطش، "فدعا بعس، فصب فيه ماء، ووضع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده فيه"، قال: فجعلت انظر إلى الماء ينبع عيونا من بين اصابع رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس يستقون حتى استقى الناس كلهم.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا الْجَعْدُ أَبُو عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: شَكَى أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَطَشَ، "فَدَعَا بِعُسٍّ، فَصُبَّ فِيهِ مَاءٌ، وَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ فِيهِ"، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَى الْمَاءِ يَنْبُعُ عُيُونًا مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ يَسْتَقُونَ حَتَّى اسْتَقَى النَّاسُ كُلُّهُمْ.
سیدنا جابر بن عبدالله رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے آپ سے پیاس کی (شدت کی) شکایت کی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بڑا سا پیالہ منگایا اور اس میں پانی ڈال کر اپنا ہاتھ اس پر رکھ دیا، میں پانی کو دیکھ رہا تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں کے درمیان سے چشمے کی طرح ابل رہا تھا اور لوگ اس سے پانی پی رہے تھے حتی کہ سب کے سب سیراب ہو گئے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 28]»
اس روایت کی سند صحیح حدیث نمبر27 کی طرح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 29
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: سمع عبد الله رضي الله عنه بخسف، فقال: كنا اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم نعد الآيات بركة، وانتم تعدونها تخويفا، إنا بينما نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وليس معنا ماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "اطلبوا من معه فضل ماء"،"فاتي بماء، فصبه في الإناء، ثم وضع كفه فيه، فجعل الماء يخرج من بين اصابعه"، ثم قال:"حي على الطهور المبارك، والبركة من الله تعالى"، فشربنا، وقال عبد الله: كنا نسمع تسبيح الطعام وهو يؤكل.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ بِخَسْفٍ، فَقَالَ: كُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعُدُّ الْآيَاتِ بَرَكَةً، وَأَنْتُمْ تَعُدُّونَهَا تَخْوِيفًا، إِنَّا بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولَيْسَ مَعَنَا مَاءٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اطْلُبُوا مَنْ مَعَهُ فَضْلُ مَاءٍ"،"فَأُتِيَ بِمَاءٍ، فَصَبَّهُ فِي الْإِنَاءِ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ فِيهِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ"، ثُمَّ قَالَ:"حَيَّ عَلَى الطَّهُورِ الْمُبَارَكِ، وَالْبَرَكَةُ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى"، فَشَرِبْنَا، وقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: كُنَّا نَسْمَعُ تَسْبِيحَ الطَّعَامِ وَهُوَ يُؤْكَلُ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے زمین کے دھنس جانے کے بارے میں سنا تو فرمایا: معجزات کو ہم باعث برکت گردانتے تھے، تم ان کو باعث خوف سمجھتے ہو، ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے کہ پانی ختم ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس پانی بچا ہو اسے تلاش کرو، چنانچہ تھوڑا سا پانی لایا گیا، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن میں ڈال دیا، پھر اپنا دست مبارک اس پر رکھ دیا اور پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے (فوارے کی طرح) پھوٹنے لگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: برکت والے پانی کی طرف آؤ اور برکت تو الله تعالی ہی کی طرف سے ہے، پھر ہم سب نے پانی پیا۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا ہم کھانا کھاتے وقت کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 29]»
یہ روایت [بخاري 3579]، [صحيح ابن حبان 6540]، [مسند أبى يعلی موصلي 5372] وغیرہ میں موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 30
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عبد الله بن نمير، حدثنا ابو الجواب، عن عمار بن رزيق، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله رضي الله عنه، قال: زلزلت الارض على عهد عبد الله، فاخبر بذلك، فقال: إنا كنا اصحاب محمد صلي الله عليه وسلم نرى الآيات بركات، وانتم ترونها تخويفا، بينا نحن مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر إذ حضرت الصلاة وليس معنا ماء إلا يسير،"فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بماء في صحفة، ووضع كفه فيه، فجعل الماء يتبجس من بين اصابعه"، ثم نادى: "حي على الوضوء، والبركة من الله"، قال: فاقبل الناس فتوضئوا، وجعلت لا هم لي إلا ما ادخله بطني لقوله:"والبركة من الله"، فحدثت به سالم بن ابي الجعد , فقال: كانوا خمس عشرة مئة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجَوَّابِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ رُزَيْقٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: زُلْزِلَتْ الْأَرْضُ عَلَى عَهْدِ عَبْدِ اللَّهِ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ، فَقَالَ: إِنَّا كُنَّا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّي اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَرَى الْآيَاتِ بَرَكَاتٍ، وَأَنْتُمْ تَرَوْنَهَا تَخْوِيفًا، بَيْنَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ إِذْ حَضَرَتْ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ مَعَنَا مَاءٌ إِلَّا يَسِيرٌ،"فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فِي صَحْفَةٍ، وَوَضَعَ كَفَّهُ فِيهِ، فَجَعَلَ الْمَاءُ يَتْبَجِّسُ مِنْ بَيْنِ أَصَابِعِهِ"، ثُمَّ نَادَى: "حَيَّ عَلَى الْوَضُوءِ، وَالْبَرَكَةُ مِنْ اللَّهِ"، قالَ: فَأَقْبَلَ النَّاسُ فَتَوَضَّئُوا، وَجَعَلْتُ لَا هَمَّ لِي إِلَّا مَا أُدْخِلُهُ بَطْنِي لِقَوْلِهِ:"وَالْبَرَكَةُ مِنْ اللَّهِ"، فَحَدَّثْتُ بِهِ سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ , فَقَالَ: كَانُوا خَمْسَ عَشْرَةَ مِئَةٍ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ان کے زمانے میں زلزلہ آیا، جب انہیں اس کی خبر دی گئی تو کہنے لگے ہم اصحاب رسول محمد صلی الله علیہ وسلم ان آیات و معجزات کو برکت کی نظر سے دیکھتے تھے اور تم اس سے ڈرتے ہو، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ نماز کا وقت آ پہنچا اور ہمارے پاس تھوڑا سا پانی تھا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تھوڑا سا پانی منگا کر ایک برتن میں رکھ دیا اور اس پر اپنا دست مبارک رکھ دیا اور پانی آپ کی انگلیوں کے درمیان سے ابلنے لگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پانی والوں کے پاس آؤ (دوسرے نسخے میں ہے: وضوء کے لئے آؤ) اور برکت تو الله تعالی کی طرف سے ہے۔ راوی نے کہا: چنانچہ لوگ اس طرف متوجہ ہوئے اور وضو کیا اور مجھے تو اس وقت اس پانی کو اپنے پیٹ میں بھرنے کی پڑی تھی کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا یہ برکت اللہ کی طرف سے ہے۔ راوی نے کہا اس کو میں نے سالم بن ابی الجعد سے بیان کیا تو انہوں نے کہا اس وقت صحابہ کرام کی تعداد پندرہ سو تھی۔

تخریج الحدیث: «حديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 30]»
یہ حدیث صحیح ہے تخریج پچھلی حدیث میں گزر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 25 سے 30)
ان تمام روایات صحیحہ سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزه آشکارہ ہوا کہ اتنا بڑا لشکر، اور پانی کے چند قطرے، آپ دعا کرتے ہیں اور پانی چشمے کی طرح ابلنے لگتا ہے، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے نبی ہونے کی دلیل ہے، پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تواضع اور حق بیانی دیکھئے کہ اس عظیم واقعہ کے رونما ہونے پر اس معجزہ کو اپنے بجائے رب العالمین ہی کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ یہ الله تعالیٰ ہی کی نوازش و کرم ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: حديث صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.