عثمان بن حاضر ازدی نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور عرض کیا کہ مجھے وصیت کیجئے، کہا: سنو! الله کا تقویٰ اختیار کرو اور اس پر قائم رہو۔ اتباع کرو ابتداع سے بچو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف زمعة، [مكتبه الشامله نمبر: 141]» یہ اثر اس سند سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [الإبانة 200]، [الفقيه والمتفقه 173/1]، [البدع والنهى عنها ص:25] میں اسی سند سے مذکور ہے، لیکن مروزی نے [السنة 83] میں بسند حسن ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 140) اس اثر میں تقویٰ کی وصیت اور استقامت کا درس ہے، نیز یہ کہ انسان بدعت سے پرہیز کرے اور صرف اتباع و اطاعت پر اکتفا کرے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف زمعة
(حديث مقطوع) اخبرنا مخلد بن مالك بن جابر، اخبرنا النضر بن شميل، عن ابن عون، عن ابن سيرين، قال: "كانوا يرون انه على الطريق ما كان على الاثر".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ بن جابر، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّهُ عَلَى الطَّرِيقِ مَا كَانَ عَلَى الْأَثَرِ".
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: لوگوں کا خیال تھا آدمی جب تک حدیث پر عامل ہے صراط مستقیم پر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 142]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم لابن عبدالبر 1778، 1779]، محمد بن سیرین اپنے وقت کے امام، سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے خاص شاگرد، کبار تابعین میں سے تھے۔ 110 ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔ دیکھئے: [الخلاصة ص: 340]
(حديث مقطوع) اخبرنا يوسف بن موسى، حدثنا ازهر، عن ابن عون، عن ابن سيرين، قال: "ما دام على الاثر، فهو على الطريق".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَزْهَرُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "مَا دَامَ عَلَى الْأَثَرِ، فَهُوَ عَلَى الطَّرِيقِ".
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: انسان جب تک عامل بالحدیث ہے وہ صحیح راستے پر ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 143]» اس روایت کی یہ سند صحیح ہے، مذکورہ بالا حوالہ دیکھئے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 141 سے 143) مفہوم یہ کہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ہٹ کر عمل کرنا ضلالت و گمراہی ہے۔ مسلکِ سنّت پر اے سالک چلا جا بے ڈھرک جنت الفردوس کو سیدھی گئی ہے یہ سڑک
ابوقلابہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم حاصل کرو اس کے پہلے کہ وہ قبض کر لیا جائے، اور علم کا قبض کیا جانا یہ ہے کہ اہل علم ختم ہو جائیں۔ خبردار! اپنے آپ کو غلو، بہت زیادہ غور و خوض (تعمق) اور نئی عبادتیں ایجاد کرنے سے بچانا، اور (طریق) قدیم کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب رضوان اللہ علیہم کے طریق کو پکڑے رہنا)۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو قلابة: عبد الله بن زيد الجرمي لم يدرك عبد الله بن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 144]» اس روایت کے رواۃ ثقات ہیں لیکن سند میں انقطاع ہے کیونکہ ابوقلابہ کا لقاء سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں۔ نیز یہ اثر [إبانة 168]، [مفتاح الجنة ص:30]، [الفردوس 2236] و [كنز العمال 28865] وغیرہ میں موجود ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع أبو قلابة: عبد الله بن زيد الجرمي لم يدرك عبد الله بن مسعود
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، وابو النعمان، عن حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، قال: قال ابن مسعود رضي الله عنه: "عليكم بالعلم قبل ان يقبض، وقبضه ان يذهب باصحابه، عليكم بالعلم، فإن احدكم لا يدري متى يفتقر إليه او يفتقر إلى ما عنده، إنكم ستجدون اقواما يزعمون انهم يدعونكم إلى كتاب الله وقد نبذوه وراء ظهورهم، فعليكم بالعلم، وإياكم والتبدع، وإياكم والتنطع، وإياكم والتعمق، وعليكم بالعتيق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ، وَقَبْضُهُ أَنْ يُذْهَبَ بِأَصْحَابِهِ، عَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ، فَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَا يَدْرِي مَتَى يُفْتَقَرُ إِلَيْهِ أَوْ يُفْتَقَرُ إِلَى مَا عِنْدَهُ، إِنَّكُمْ سَتَجِدُونَ أَقْوَامًا يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ يَدْعُونَكُمْ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ وَقَدْ نَبَذُوهُ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالْعِلْمِ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّبَدُّعَ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّنَطُّعَ، وَإِيَّاكُمْ وَالتَّعَمُّقَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَتِيقِ".
ابوقلابہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: علم حاصل کرو اس سے پہلے کہ وہ سمیٹ لیا جائے، اور اس کا سمٹ جانا یہ ہے کہ اہل علم اٹھا لئے جائیں، علم کو لازم پکڑو (کیونکہ) تم میں سے کوئی نہیں جانتا کب اس کی ضرورت پڑ جائے، یا اس شخص کی ضرورت پڑ جائے جس کے پاس علم ہو، تم کو ایسے بہت سے لوگ ملیں گے جن کا گمان ہو گا کہ وہ کتاب اللہ کی طرف بلاتے ہیں، حالانکہ انہوں نے اسے (کتاب اللہ کو) پس پشت ڈال رکھا ہو گا، علم کو تھامے رکھو اور نئی عبادتیں ایجاد کرنے (بدعت) سے بچو، غلو سے دور رہو، تعمق و گہرائی سے پرہیز کرو، اور اسلاف کے نقش قدم پر چلو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه أبو قلابة لم يدرك ابن مسعود، [مكتبه الشامله نمبر: 145]» اس اثر کی سند بھی مذکورہ بالا اثر کی طرح ضعیف ہے۔ مزید اطلاع کے لئے دیکھئے: [طبراني 8845] و [شرح اعتقاد أهل السنة 108]
وضاحت: (تشریح احادیث 143 سے 145) لیکن یہ اثر ضعیف ہونے کے باوجود اقوالِ زریں کا نمونہ ہے اور اس میں علم حاصل کرنے کی ترغیب، غلو، تعمق اور بدعت سے پرہیز کی تلقین اور اسلافِ کرام کے نقشِ قدم پر چلنے کی بات کہی گئی ہے جو بالکل درست اور ضروری ہے، الله تعالیٰ سب کو اس کی توفیق بخشے۔ آمین
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه أبو قلابة لم يدرك ابن مسعود
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، حدثنا يزيد بن حازم، عن سليمان بن يسار، ان رجلا يقال له: صبيغ قدم المدينة فجعل يسال عن متشابه القرآن، فارسل إليه عمر رضي الله عنه وقد اعد له عراجين النخل، فقال: "من انت؟، قال: انا عبد الله صبيغ، فاخذ عمر عرجونا من تلك العراجين، فضربه وقال: انا عبد الله عمر فجعل له ضربا حتى دمي راسه، فقال: يا امير المؤمنين، حسبك، قد ذهب الذي كنت اجد في راسي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ رَجُلًا يُقَالُ لَهُ: صَبِيغٌ قَدِمَ الْمَدِينَةَ فَجَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ مُتَشَابِهِ الْقُرْآنِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَقَدْ أَعَدَّ لَهُ عَرَاجِينَ النَّخْلِ، فَقَالَ: "مَنْ أَنْتَ؟، قَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ صَبِيغٌ، فَأَخَذَ عُمَرُ عُرْجُونًا مِنْ تِلْكَ الْعَرَاجِينِ، فَضَرَبَهُ وَقَالَ: أَنَا عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فَجَعَلَ لَهُ ضَرْبًا حَتَّى دَمِيَ رَأْسُهُ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، حَسْبُكَ، قَدْ ذَهَبَ الَّذِي كُنْتُ أَجِدُ فِي رَأْسِي".
سلیمان بن یسار نے کہا: ایک شخص جس کا نام صبیغ تھا، مدینہ آ کر قرآن کی آیات متشابہات کے بارے میں پوچھنے لگا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کھجور کی ٹہنیاں منگائیں اور اسے بلا بھیجا، پوچھا تم کون ہو؟ جواب دیا میں اللہ کا بندہ صبیغ ہوں، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان ٹہنیوں میں سے ایک ٹہنی اٹھائی اور کہا: میں اللہ کا بندہ عمر ہوں اور اس کی پٹائی شروع کر دی، یہاں تک کہ اس کا سر لہولہان ہو گیا تو اس نے کہا: بس کیجئے امیر المومنین، میرے سر میں جو شبہات در آئے تھے ختم ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع سليمان بن يسار لم يدرك عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 146]» سلیمان بن یسار نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا اس لئے یہ روایت منقطع ہے، اور اس کو آجری نے [الشرعية ص: 75] میں ذکر کیا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع سليمان بن يسار لم يدرك عمر بن الخطاب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا حماد بن سلمة، ويزيد بن إبراهيم، عن عبد الله بن ابي مليكة، عن القاسم، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: تلا رسول الله صلى الله عليه وسلم: هو الذي انزل عليك الكتاب منه آيات محكمات هن ام الكتاب واخر متشابهات سورة آل عمران آية 7 فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا رايتم الذين يتبعون ما تشابه منه، فاحذروهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَيَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، قَالَتْ: تَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَابَ مِنْهُ آيَاتٌ مُحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ وَأُخَرُ مُتَشَابِهَاتٌ سورة آل عمران آية 7 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَيْتُمْ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ، فَاحْذَرُوهُمْ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: «﴿هُوَ الَّذِيْ أَنْزَلَ ...﴾»(آل عمران: 7/3) اور فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو آیات متشابہات کی تلاش میں رہتے ہوں تو ان سے بچو۔“
تخریج الحدیث: «حديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 147]» یہ متفق علیہ صحیح حدیث ہے۔ دیکھئے: [البخاري 4547]، [مسلم 2665]
وضاحت: (تشریح احادیث 145 سے 147) محکم سے مراد وہ آیات ہیں جن کا معنی ومفہوم واضح اور صریح امر یا نہی کی صورت میں ہو، اور اس کا حکم اٹل ہو، اور متشابہ اس کے برعکس ہے۔ ان دونوں روایات سے معلوم ہوا کہ متشابہات میں خوض سے بچنا چاہیے، جیسا کہ دوسری متفق علیہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ ترجمہ آیتِ مذکورہ بالا: ”وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے آپ پر کتاب اتاری جس میں بعض آیات محکم (مضبوط) ہیں جو اصل کتاب ہیں، اور بعض متشابہ آیات ہیں۔ “ جن کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن محمد، حدثنا حفص، عن الاعمش، عن شقيق، قال: سئل عبد الله عن شيء، فقال: "إني لاكره ان احل لك شيئا حرمه الله عليك، او احرم ما احله الله لك".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، قَالَ: سُئِلَ عَبْدُ اللَّه عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: "إِنِّي لَأَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ لَكَ شَيْئًا حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ، أَوْ أُحَرِّمَ مَا أَحَلَّهُ اللَّهُ لَكَ".
شقیق نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ کوئی ایسی چیز تمہارے لئے حلال کر دوں جو اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کر رکھی ہو یا جو اللہ تعالیٰ نے حلال کر دیا ہے وہ حرام قرار دیدوں۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 148]» اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن امام دارمی کے علاوہ اور کسی نے روایت نہیں کیا۔ اس روایت سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ دینے میں تامل اور شدت احتیاط کا پتہ لگتا ہے۔
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيينة، عن ابي إسحاق الفزاري، عن ابن عون، عن ابن سيرين، عن حميد بن عبد الرحمن، قال: "لان ارده بعيه احب إلي من ان اتكلف له ما لا اعلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق الْفَزَارِيِّ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: "لَأَنْ أَرُدَّهُ بِعِيِّهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَتَكَلَّفَ لَهُ مَا لَا أَعْلَمُ".
حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ کسی چیز کے علم سے عاجز آ کر اس کا جواب نہ دینا میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ و محبوب ہے اس چیز سے کہ جس کا مجھے علم نہیں ہے اس میں تکلف سے کام لوں۔ (یعنی اپنی کم علمی کا اظہار بےجا تکلف سے بہتر ہے)۔
تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 149]» اس روایت کی سند جید ہے، اور [المعرفة والتاريخ 68/2] میں یہ اثر موجود ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 147 سے 149) ان دونوں روایات میں بنا علم کچھ کہنے سے پرہیز اور علم نہ رکھتے ہوئے تکلف سے بچنے کی ترغیب ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، اخبرني ابن عجلان، عن نافع مولى عبد الله، ان صبيغا العراقي، جعل يسال عن اشياء من القرآن في اجناد المسلمين حتى قدم مصر، فبعث به عمرو بن العاص رضي الله عنه إلى عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فلما اتاه الرسول بالكتاب فقراه، فقال: اين الرجل؟، قال: في الرحل، قال عمر: "ابصر ان يكون ذهب فتصيبك مني به العقوبة الموجعة، فاتاه به، فقال عمر: تسال محدثة، فارسل عمر إلى رطائب من جريد، فضربه بها حتى ترك ظهره دبرة، ثم تركه حتى برا، ثم عاد له، ثم تركه حتى برا، فدعا به ليعود له، قال: فقال صبيغ: إن كنت تريد قتلي، فاقتلني قتلا جميلا، وإن كنت تريد ان تداويني، فقد والله برئت، فاذن له إلى ارضه، وكتب إلى ابي موسى الاشعري رضي الله عنه، ان لا يجالسه احد من المسلمين، فاشتد ذلك على الرجل، فكتب ابو موسى إلى عمر: ان قد حسنت توبته، فكتب عمر: ان ائذن للناس بمجالسته".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ صَبِيغًا الْعِرَاقِيَّ، جَعَلَ يَسْأَلُ عَنْ أَشْيَاءَ مِنْ الْقُرْآنِ فِي أَجْنَادِ الْمُسْلِمِينَ حَتَّى قَدِمَ مِصْرَ، فَبَعَثَ بِهِ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَلَمَّا أَتَاهُ الرَّسُولُ بِالْكِتَابِ فَقَرَأَهُ، فَقَالَ: أَيْنَ الرَّجُلُ؟، قَالَ: فِي الرَّحْلِ، قَالَ عُمَرُ: "أَبْصِرْ أَنْ يَكُونُ ذَهَبَ فَتُصِيبَكَ مِنِّي بِهِ الْعُقُوبَةُ الْمُوجِعَةُ، فَأَتَاهُ بِهِ، فَقَالَ عُمَرُ: تَسْأَلُ مُحْدَثَةً، فَأَرْسَلَ عُمَرُ إِلَى رَطَائِبَ مِنْ جَرِيدٍ، فَضَرَبَهُ بِهَا حَتَّى تَرَكَ ظَهْرَهُ دَبِرَةً، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، ثُمَّ عَادَ لَهُ، ثُمَّ تَرَكَهُ حَتَّى بَرَأَ، فَدَعَا بِهِ لِيَعُودَ لَهُ، قَالَ: فَقَالَ صَبِيغٌ: إِنْ كُنْتَ تُرِيدُ قَتْلِي، فَاقْتُلْنِي قَتْلًا جَمِيلًا، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ أَنْ تُدَاوِيَنِي، فَقَدْ وَاللَّهِ بَرِئْتُ، فَأَذِنَ لَهُ إِلَى أَرْضِهِ، وَكَتَبَ إِلَى أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنْ لَا يُجَالِسَهُ أَحَدٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَدَّ ذَلِكَ عَلَى الرَّجُلِ، فَكَتَبَ أَبُو مُوسَى إِلَى عُمَرَ: أَنْ قَدْ حَسُنَتْ تَوْبَتُهُ، فَكَتَبَ عُمَرُ: أَنْ ائْذَنْ لِلنَّاسِ بِمُجَالَسَتِهِ".
سیدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام نافع نے کہا کہ صبیغ (ابن غسل) عراقی مسلمانوں کے لشکر میں کچھ آیتوں کے بارے میں سوالات کرتے ہوئے مصر پہنچے تو سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے انہیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دیا، جب قاصد ان کے پاس پیغام لایا تو انہوں نے پوچھا: وہ آدمی کہاں ہے؟ کہا: خیمہ میں ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جا کر دیکھو، اگر بھاگ گیا تو تمہیں دردناک سزا دوں گا، چنانچہ قاصد اسے (صبیغ کو) لے کر حاضر خدمت ہوا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نئی باتیں نکالتے ہو؟ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سرسبز ٹہنیاں منگائیں اور اس کی اتنی پٹائی لگائی کہ وہ لہولہان ہو گیا، پھر اسے چھوڑ دیا، جب وہ اور اس کے زخم اچھے ہو گئے تو پھر مار لگائی، پھر مہلت دیدی، پھر اس کو بلایا تاکہ مزہ چکھائیں، تو صبیغ نے کہا: اگر آپ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں تو ایک بارگی مار ڈالئے، اور اگر میرا علاج کرنا چاہتے ہیں تو الله کی قسم میں اب اچھا ہو گیا ہوں، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اس کے وطن جانے کی اجازت دیدی، اور سیدنا ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھ بھیجا کہ اس کے پاس کوئی مسلمان نہ بیٹھے، اور یہ چیز اس صبیغ پر بہت گراں گزری، چنانچہ سیدنا ابوموسی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ اس نے اچھی طرح سچی توبہ کر لی ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ اب لوگوں کو اس سے ملنے جلنے اور بیٹھنے کی اجازت دیدو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 150]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، کیونکہ اس میں ایک راوی عبدالله بن صالح ضعیف ہیں، نیز اسے ابن وضاح نے [البدعة ص: 56] میں اور آجری نے [الشريعة ص:75] میں ذکر کیا ہے، لیکن ان دونوں طرق میں انقطاع ہے، جیسا کہ حدیث رقم (146) میں گزر چکا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 149) بدعتی کے پاس بیٹھنا بھی درست نہیں جیسا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا، نیز اس اثر میں بدعتی کی سزا اور عقوبت کا بیان بھی ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الله بن صالح