سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمہ
حدیث نمبر: 131
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن داود، عن الشعبي، ان عمر رضي الله عنه، قال: يا ايها الناس، إنا لا ندري، "لعلنا نامركم باشياء لا تحل لكم، ولعلنا نحرم عليكم اشياء هي لكم حلال، إن آخر ما نزل من القرآن آية الربا، وإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يبينها لنا حتى مات، فدعوا ما يريبكم إلى ما لا يريبكم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ دَاوُدَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنَّا لَا نَدْرِي، "لَعَلَّنَا نَأْمُرُكُمْ بِأَشْيَاءَ لَا تَحِلُّ لَكُمْ، وَلَعَلَّنَا نُحَرِّمُ عَلَيْكُمْ أَشْيَاءَ هِيَ لَكُمْ حَلَالٌ، إِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَ مِنْ الْقُرْآنِ آيَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يُبَيِّنْهَا لَنَا حَتَّى مَاتَ، فَدَعُوا مَا يَرِيبُكُمْ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكُمْ".
امام شعبی سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگو! ہم نہیں جانتے، ہو سکتا ہے ہم تمہیں ایسے امور کا حکم دیں جو تمہارے لئے جائز نہ ہوں، ہو سکتا ہے ہم تمہارے لئے ایسی چیزیں حرام قرار دے دیں جو اصل میں تمہارے لئے حلال ہوں، قرآن کریم میں آخری آیت سود والی نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے اس کی اچھی طرح وضاحت بھی نہ کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتقال فرما گئے، اس لئے جس چیز میں تمہیں شبہ ہو اسے چھوڑ دو اور جس میں شبہ نہیں اس سے اپنا لو (اس پر عمل کرو)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه الشعبي لم يدرك عمر بن الخطاب، [مكتبه الشامله نمبر: 131]»
اس روایت کی سند میں ضعف ہے کیونکہ شعبی نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں، امام طبرانی رحمہ اللہ نے [تفسير 114/3] میں اسے نقل کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 129 سے 131)
اس روایت کی سند ضعیف ہے اور معنی بھی محل نظر ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال کے وقت فرمایا تھا: «لَقَدْ تَرَكْتُكُمْ عَلَى الْبَيْضَاء لَيْلُهَا كَنَهَارِهَا لَا يَزِيْغُ عَنْهَا إِلَّا هَالِكٌ.» ترجمہ: میں نے تم کو ایسی صاف و سفید شریعت پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن (کی طرح روشن) ہے، اس سے ہلاکت میں پڑنے والا ہی منہ موڑے گا۔
[طبراني: 247/18] نیز یہ «‏‏‏‏ ﴿بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ﴾ [المائدة: 67] » جو کچھ آپ کے رب کی طرف سے آپ پر اتارا گیا ہے اس کی تبلیغ کیجئے۔
اور « ﴿لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ﴾ [النحل: 44] » کے منافی ہے۔
یا اس سے مقصود یہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه الشعبي لم يدرك عمر بن الخطاب
19. باب مَنْ هَابَ الْفُتْيَا وَكَرِهَ التَّنَطُّعَ وَالتَّبَدُّعَ:
19. ان لوگوں کا بیان جنہوں نے فتوی دینے سے خوف کھایا اور غلو و زیادتی یا بدعت ایجاد کرنے کو برا سمجھا
حدیث نمبر: 132
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سلم بن جنادة، حدثنا ابن إدريس، عن عمه، قال: "خرجت من عند إبراهيم، فاستقبلني حماد، فحملني ثمانية ابواب، مسائل، فسالته، فاجابني عن اربع وترك اربعا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: "خَرَجْتُ مِنْ عِنْدِ إِبْرَاهِيمَ، فَاسْتَقْبَلَنِي حَمَّادٌ، فَحَمَّلَنِي ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ، مَسَائِلَ، فَسَأَلْتُهُ، فَأَجَابَنِي عَنْ أَرْبَعٍ وَتَرَكَ أَرْبَعًا".
عبدالله بن ادریس نے اپنے چچا سے بیان کیا کہ میں ابراہیم النخعی کے پاس سے نکلا تو حماد رحمہ اللہ نے میرا استقبال کیا اور مجھے آٹھ قسم کے مسائل پوچھنے کو کہا، میں نے ابراہیم سے ان کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے چار مسائل کا جواب دیا اور چار قسم کے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 132]»
اس روایت میں عبداللہ بن ادریس کے چچا داؤد بن یزید ضعیف ہیں، لہٰذا یہ سند ضعیف ہے اور صرف امام دارمی نے اسے روایت کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 133
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا قبيصة، اخبرنا سفيان، عن عبد الملك بن ابجر، عن زبيد، قال: "ما سالت إبراهيم، عن شيء إلا عرفت الكراهية في وجهه".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا قَبِيصَةُ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبْجَرَ، عَنْ زُبَيْدٍ، قَالَ: "مَا سَأَلْتُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ شَيْءٍ إِلَّا عَرَفْتُ الْكَرَاهِيَةَ فِي وَجْهِهِ".
زبید الیامی نے کہا: میں نے ابراہیم سے جب بھی کسی بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو ان کے چہرے پر ناپسندیدگی محسوس کی۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 133]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور اس روایت کو ابویعلیٰ نے اپنی [مسند 7327] میں، اور فسوی نے [المعرفة والتاريخ 605/2] میں، اور ابونعیم نے [حلية الأولياء 220/4] میں ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 131 سے 133)
ان روایات میں ابراہیم سے مراد ابراہیم بن یزید النخعی ہیں جو اپنے وقت کے امام وفقیہ اور ثقہ تھے۔
دیکھئے: [تقريب التهذيب 301] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 134
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا إسحاق بن منصور، عن عمر بن ابي زائدة، قال: "ما رايت احدا اكثر ان يقول إذا سئل عن شيء: لا علم لي به من الشعبي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قَالَ: "مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ أَنْ يَقُولَ إِذَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ: لَا عِلْمَ لِي بِهِ مِنْ الشَّعْبِيِّ".
عمر بن ابی زائدہ نے کہا میں نے امام شعبی رحمہ اللہ سے زیادہ کسی کو یہ کہتے نہیں سنا: «لا علم لي به» مجھے اس کا علم نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 134]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 174/6]۔ امام شعبی رحمہ اللہ کا نام عامر بن شراحیل ہے جو اپنے وقت کے امام و فقیہ اور کبار تابعین میں سے تھے، خود فرماتے ہیں: میں نے پانچ سو صحابہ کو پایا۔ ابومجلز نے کہا: میں نے ان سے زیادہ (اس زمانے میں) کسی کو فقیہ نہیں پایا۔ [الخلاصة ص: 184]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 135
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو عاصم، عن ابن عون، قال: سمعته يذكر، قال: كان الشعبي إذا جاءه شيء اتقى، وكان إبراهيم يقول، ويقول، ويقول، قال ابو عاصم: "كان الشعبي في هذا احسن حالا عند ابن عون من إبراهيم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ، قَالَ: كَانَ الشَّعْبِيُّ إِذَا جَاءَهُ شَيْءٌ اتَّقَى، وَكَانَ إِبْرَاهِيمُ يَقُولُ، وَيَقُولُ، وَيَقُولُ، قَالَ أَبُو عَاصِمٍ: "كَانَ الشَّعْبِيُّ فِي هَذَا أَحْسَنَ حَالًا عِنْدَ ابْنِ عَوْنٍ مِنْ إِبْرَاهِيمَ".
ابوعاصم نے عبداللہ بن عون کو کہتے سنا کہ شعبی سے کوئی مسئلہ پوچھا جاتا تو پرہیز کرتے اور ابراہیم (النخعی) فتوی دیدیتے تھے۔ ابوعاصم نے کہا: شعبی اس سلسلے میں ابن عون کے نزدیک (اپنے احتیاط کی وجہ سے) ابراہیم سے زیادہ اچھے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 135]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور ابوزرعہ نے اس روایت کو اپنی [تاريخ 2004] میں ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 136
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن سعيد، اخبرنا احمد بن بشير، حدثنا شعبة، عن جعفر بن إياس، قال: قلت لسعيد بن جبير: ما لك لا تقول في الطلاق شيئا؟، قال: "ما منه شيء إلا قد سالت عنه، ولكني اكره ان احل حراما، او احرم حلالا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ بَشِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ إِيَاسٍ، قَالَ: قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ: مَا لَكَ لَا تَقُولُ فِي الطَّلَاقِ شَيْئًا؟، قَالَ: "مَا مِنْهُ شَيْءٌ إِلَّا قَدْ سَأَلْتُ عَنْهُ، وَلَكِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُحِلَّ حَرَامًا، أَوْ أُحَرِّمَ حَلَالًا".
جعفر بن ایاس نے کہا: میں نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ سے کہا: کیا بات ہے آپ طلاق کے مسئلے میں کچھ لب کشائی نہیں کرتے؟ انہوں نے کہا: طلاق سے متعلق کوئی بات ایسی نہیں جس کا میں نے سوال نہ کیا (یعنی اس کا علم حاصل نہ کیا ہو) لیکن مجھے یہ پسند نہیں کہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام قرار دیدوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 136]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، امام دارمی کے علاوہ کسی نے اسے روایت نہیں کیا۔ سعید بن جبیر رحمہ اللہ کبار تابعین میں سے ہیں جو اپنے وقت کے امام و فقیہ تھے۔ [الخلاصة ص: 136]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 137
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن عطاء بن السائب، قال: سمعت عبد الرحمن بن ابي ليلى، يقول: "لقد ادركت في هذا المسجد عشرين ومائة من الانصار، وما منهم من احد يحدث بحديث إلا ود ان اخاه كفاه الحديث، ولا يسال عن فتيا إلا ود ان اخاه كفاه الفتيا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى، يَقُولُ: "لَقَدْ أَدْرَكْتُ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ عِشْرِينَ وَمِائَةً مِنْ الْأَنْصَارِ، وَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ يُحَدِّثُ بِحَدِيثٍ إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْحَدِيثَ، وَلَا يُسْأَلُ عَنْ فُتْيَا إِلَّا وَدَّ أَنَّ أَخَاهُ كَفَاهُ الْفُتْيَا".
عطاء بن السائب نے کہا: میں نے عبداللہ بن ابی یعلی کو کہتے سنا، انہوں نے کہا: میں نے اس مسجد (نبوی) میں ایک سو بیس انصاری صحابہ کو پایا، ان میں سے جو کوئی بھی حدیث بیان کرتا تو اس کی آرزو رہتی کاش ان کا ساتھی حدیث بیان کرے اور ان میں سے کسی سے بھی کوئی فتویٰ پوچھا جاتا تو وہ پسند کرتے کہ ان کا کوئی اور ساتھی اس کام کو سر انجام دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 137]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 74/6]، [التاريخ لأبي زرعة 2031]، [كتاب الزهد لابن مبارك 58]، [جامع بيان العلم 1944]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 138
Save to word اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يوسف بن يعقوب الصفار، حدثنا ابو بكر، عن داود، قال: سالت الشعبي، كيف كنتم تصنعون إذا سئلتم؟، قال: "على الخبير وقعت، كان إذا سئل الرجل، قال لصاحبه: افتهم، فلا يزال حتى يرجع إلى الاول".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ يَعْقُوبَ الصَّفَّارُ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ دَاوُدَ، قَالَ: سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ، كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ إِذَا سُئِلْتُمْ؟، قَالَ: "عَلَى الْخَبِيرِ وَقَعْتَ، كَانَ إِذَا سُئِلَ الرَّجُلُ، قَالَ لِصَاحِبِهِ: أَفْتِهِمْ، فَلَا يَزَالُ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْأَوَّلِ".
داؤد بن ابی ہند نے کہا: میں نے شعبی سے پوچھا: جب آپ سے مسئلہ پوچھا جاتا تو کیا کرتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا: تم نے اس کا تجربہ رکھنے والے سے سوال کیا ہے۔ جب کسی سے مسئلہ دریافت کیا جاتا تو وہ اپنے ساتھی سے کہتا کہ جواب دو، اور وہ ساتھی کہتا آپ جواب دیں، حتی کہ تکرار کے بعد سوال کی نوبت پہلے آدمی کے پاس ہی آ جاتی۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وداود هو ابن أبي هند، [مكتبه الشامله نمبر: 138]»
اس روایت کی سند حسن ہے، «وانفرد به الدارمي» ۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 133 سے 138)
اس روایت سے فتویٰ دینے میں احتیاط ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ ان کے ساتھی اور جلساء انہیں جیسے ہوتے تھے اور اس میں صحبتِ صالح تر اصالح کند کی تعلیم ملتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وداود هو ابن أبي هند
حدیث نمبر: 139
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن الحجاج، قال: سمعت سفيان، عن ابن المنكدر، قال: "إن العالم يدخل فيما بين الله وبين عباده، فليطلب لنفسه المخرج".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ: "إِنَّ الْعَالِمَ يَدْخُلُ فِيمَا بَيْنَ اللَّهِ وَبَيْنَ عِبَادِهِ، فَلْيَطْلُبْ لِنَفْسِهِ الْمَخْرَجَ".
ابن المنکدر نے کہا: عالم (فتوے کے ذریعے) اللہ تعالیٰ اور اس کے بندوں کے درمیان مداخلت کرتا ہے، اس لئے اسے اپنے نکلنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے (یعنی: فتویٰ سازی سے احتراز کرنا چاہئے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ابن المنكدر، [مكتبه الشامله نمبر: 139]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونعیم نے [الحلية 152/3] میں اور خطیب نے [الفقيه والمتفقه 1088، 1089] میں صحیح سند سے ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ابن المنكدر
حدیث نمبر: 140
Save to word اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن قدامة، حدثنا ابو اسامة، عن مسعر، قال: اخرج إلي معن بن عبد الرحمن كتابا، فحلف لي بالله انه خط ابيه، فإذا فيه: قال عبد الله: "والذي لا إله إلا هو ما رايت احدا كان اشد على المتنطعين من رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما رايت احدا كان اشد عليهم من ابي بكر رضي الله عنه، وإني لارى عمر رضي الله عنه كان اشد خوفا عليهم او لهم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، قَالَ: أَخْرَجَ إِلَيَّ مَعْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ كِتَابًا، فَحَلَفَ لِي بِاللَّهِ أَنَّهُ خَطُّ أَبِيه، فَإِذَا فِيهِ: قَال عَبْدُ اللَّهِ: "وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ مَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَى الْمُتَنَطِّعِينَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا كَانَ أَشَدَّ عَلَيْهِمْ مِنْ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، وَإِنِّي لَأَرَى عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ أَشَدَّ خَوْفًا عَلَيْهِمْ أَوْ لَهُمْ".
مسعر نے کہا: معن بن عبدالرحمن نے میرے لئے ایک کتاب نکالی اور قسم کھا کر کہا کہ وہ ان کے والد کے خط سے لکھی ہوئی ہے، دیکھا تو اس میں لکھا ہے عبداللہ سے مروی ہے انہوں نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں نے غلو کرنے والوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کسی کو اتنا شدید و سخت نہیں دیکھا، پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے زیادہ ان پر کسی کو اتنا سختی کرنے والا نہیں دیکھا، اور اب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رہا ہوں کہ ان (متنطعين) سے ڈرنے یا ان پر ڈرنے والا اُن سے زیادہ کوئی نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 140]»
اس روایت کی اسناد صحیح ہے، اور اسے [ابوبكر بن ابي شيبه 6480] اور انہیں کی سند سے [أبويعلی 5022] اور [طبراني 10367] نے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 138 سے 140)
اس روایت میں دین میں غلو کرنے والوں سے بچنے اور ان کا گھیرا تنگ کرنے کی ترغیب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    10    11    12    13    14    15    16    17    18    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.