(حديث مقطوع) اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابي قلابة، قال: "إن اهل الاهواء اهل الضلالة، ولا ارى مصيرهم إلا إلي النار، فجربهم فليس احد منهم ينتحل قولا او قال: حديثا فيتناهى به الامر دون السيف، وإن النفاق كان ضروبا، ثم تلا: ومنهم من عاهد الله لئن آتانا من فضله لنصدقن ولنكونن من الصالحين سورة التوبة آية 75، ومنهم من يلمزك في الصدقات فإن اعطوا منها رضوا وإن لم يعطوا منها إذا هم يسخطون سورة التوبة آية 58، ومنهم الذين يؤذون النبي ويقولون هو اذن قل اذن خير لكم سورة التوبة آية 61 فاختلف قولهم واجتمعوا، في الشك والتكذيب، وإن هؤلاء اختلف قولهم واجتمعوا في السيف، ولا ارى مصيرهم إلا إلي النار"، قال حماد: ثم قال ايوب عند ذا الحديث او عند الاول: وكان والله من الفقهاء ذوي الالباب: يعني ابا قلابة.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، قَالَ: "إِنَّ أَهْلَ الْأَهْوَاءِ أَهْلُ الضَّلَالَةِ، وَلَا أَرَى مَصِيرَهُمْ إِلَّا إِلَي النَّارَ، فَجَرِّبْهُمْ فَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَنْتَحِلُ قَوْلًا أَوْ قَالَ: حَدِيثًا فَيَتَنَاهَى بِهِ الْأَمْرُ دُونَ السَّيْفِ، وَإِنَّ النِّفَاقَ كَانَ ضُرُوبًا، ثُمَّ تَلَا: وَمِنْهُمْ مَنْ عَاهَدَ اللَّهَ لَئِنْ آتَانَا مِنْ فَضْلِهِ لَنَصَّدَّقَنَّ وَلَنَكُونَنَّ مِنَ الصَّالِحِينَ سورة التوبة آية 75، وَمِنْهُمْ مَنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقَاتِ فَإِنْ أُعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَإِنْ لَمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَا هُمْ يَسْخَطُونَ سورة التوبة آية 58، وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيِقُولُونَ هُوَ أُذُنٌ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ سورة التوبة آية 61 فَاخْتَلَفَ قَوْلُهُمْ وَاجْتَمَعُوا، فِي الشَّكِّ وَالتَّكْذِيبِ، وَإِنَّ هَؤُلَاءِ اخْتَلَفَ قَوْلُهُمْ وَاجْتَمَعُوا فِي السَّيْفِ، وَلَا أَرَى مَصِيرَهُمْ إِلَّا إِلَي النَّارَ"، قَالَ حَمَّادٌ: ثُمَّ قَالَ أَيُّوبُ عِنْدَ ذَا الْحَدِيثِ أَوْ عِنْدَ الْأَوَّلِ: وَكَانَ وَاللَّهِ مِنْ الْفُقَهَاءِ ذَوِي الْأَلْبَابِ: يَعْنِي أَبَا قِلَابَةَ.
ابوقلابہ نے کہا کہ خواہشات کی پیروی کرنے والے گمراہ ہیں، میری رائے میں ان کا ٹھکانہ جہنم کے سوا کچھ نہیں، تجربے کے طور پر دیکھ لو جس نے بھی کوئی (نیا) قول یا بات اپنائی اس کا معاملہ قتل تک پہنچا ہے۔ بیشک نفاق کی بہت سی صورتیں ہیں، پھر انہوں نے یہ آیات تلاوت کیں: ”ان میں سے وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر وہ ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم صدقہ وخیرات کریں گے اور نیکو کاروں میں سے ہو جائیں گے۔“(توبۃ 75/9) ”اور ان میں سے وہ بھی ہیں جو خیرات کے مال کی تقسیم میں آپ پر عیب جوئی کرتے ہیں اگر انہیں اس میں سے کچھ مل جائے تو خوش اور نہ ملے تو فورا ہی ناراض ہوجاتے ہیں۔“(توبۃ 58/9) ”اور ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو پیغمبر کو ایذا پہنچاتے ہیں اور کہتے ہیں وہ ہلکے کان کا ہے آپ کہہ دیجئے کہ وہ کان تمہارے بھلے کے لئے ہے۔“(توبۃ: 61/9) سو ان کی بات میں اختلاف ہو گیا اور شک و تکذیب پر انہوں نے اجتماع کر لیا، ان کا قول مختلف ہے اور یہ قتل کے مستحق ہیں، مجھے ان کا ٹھکانہ جہنم کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔ حماد نے کہا: پھر ایوب نے اس حدیث کو ذکر کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم وہ (یعنی ابوقلابہ) بڑے ہوشیار سمجھدار فقہاء میں سے تھے۔
تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 101]» اس روایت کی سند صحیح ہے۔ محدثین میں سے صرف امام دارمی نے اسے ذکر کیا لیکن ابن سعد نے [طبقات 134/1/7] میں، آجری نے [الشريعة ص: 67] میں ذکر کیا ہے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عمرو بن عون، عن خالد بن عبد الله، عن عطاء، عن عامر، عن ابن مسعود، وحذيفة رضي الله عنهما، انهما كانا جالسين فجاء رجل فسالهما عن شيء، فقال ابن مسعود لحذيفة: "لاي شيء ترى يسالوني عن هذا؟، قال: يعلمونه ثم يتركونه، فاقبل إليه ابن مسعود، فقال: ما سالتمونا عن شيء من كتاب الله تعالى نعلمه، اخبرناكم به، او سنة من نبي الله صلى الله عليه وسلم اخبرناكم به، ولا طاقة لنا بما احدثتم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَحُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُمَا كَانَا جَالِسَيْنِ فَجَاءَ رَجُلٌ فَسَأَلَهُمَا عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ لِحُذَيْفَةَ: "لِأَيِّ شَيْءٍ تَرَى يَسْأَلُونِي عَنْ هَذَا؟، قَالَ: يَعْلَمُونَهُ ثُمَّ يَتْرُكُونَهُ، فَأَقْبَلَ إِلَيْهِ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: مَا سَأَلْتُمُونَا عَنْ شَيْءٍ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى نَعْلَمُهُ، أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ، أَوْ سُنَّةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرْنَاكُمْ بِهِ، وَلَا طَاقَةَ لَنَا بِمَا أَحْدَثْتُمْ".
سیدنا عبدالله بن مسعود اور سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ وہ دونوں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور ان سے کسی چیز کے بارے میں سوال کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہا: جانتے ہو یہ لوگ اس چیز کے بارے میں مجھ سے کیوں سوال کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معلوم کر کے چھوڑ دیتے ہوں گے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: جس چیز کے بارے میں تم نے سوال کیا اور اللہ کی کتاب میں سے ہمیں اس کا علم ہوا تو ہم نے تمہیں اس کی اطلاع دے دی یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں جو چیز ہمیں ملی تمہیں بتا دی اور جو تم نے نئی باتیں ایجاد کر لیں ان کا فتوی دینے کی ہم میں طاقت نہیں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء وطريق ابن مسعود منقطعة لأن الشعبي لم يسمع منه، [مكتبه الشامله نمبر: 102]» اس اثر کو صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں کئی علتیں ہونے کے سبب ضعیف ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 99 سے 102) گرچہ یہ اثرِ سند ثابت نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ: دین کے ماخذ صرف دو ہیں: کتاب اللہ و سنت رسول اللہ۔ جو چیز قرآن اور حدیث میں نہ ملے اس کا فتویٰ دینے میں احتیاط کرنی چاہیے۔ ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، اور علمی برتری جتانا نہیں چاہیے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف خالد بن عبد الله متأخر السماع من عطاء وطريق ابن مسعود منقطعة لأن الشعبي لم يسمع منه
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا المسعودي، عن عبد الملك بن ميسرة، عن النزال بن سبرة، قال: "ما خطب عبد الله خطبة بالكوفة إلا شهدتها، فسمعته يوما، وسئل عن رجل يطلق امراته ثمانية واشباه ذلك، قال: هو كما، قال، ثم قال: إن الله انزل كتابه وبين بيانه، فمن اتى الامر من قبل وجهه فقد بين له، ومن خالف فوالله ما نطيق خلافكم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ النَّزَّالِ بْنِ سَبْرَةَ، قَالَ: "مَا خَطَبَ عَبْدُ اللَّهِ خُطْبَةً بِالْكُوفَةِ إِلَّا شَهِدْتُهَا، فَسَمِعْتُهُ يَوْمًا، وَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ ثَمَانِيَةً وَأَشْبَاهِ ذَلِكَ، قَالَ: هُوَ كَمَا، قَالَ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ أَنْزَلَ كِتَابَهُ وَبَيَّنَ بَيَانَهُ، فَمَنْ أَتَى الْأَمْرَ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ فَقَدْ بُيِّنَ لَهُ، وَمَنْ خَالَفَ فَوَاللَّهِ مَا نُطِيقُ خِلَافَكُمْ".
نزال بن سبرہ نے کہا: سیدنا عبدالله (ابن مسعود) رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں جو بھی خطبہ دیا میں اس میں حاضر رہا، ایک دن میں نے انہیں کہتے سنا، ان سے ایسے آدمی کے بارے میں دریافت کیا گیا جو اپنی بیوی کو آٹھ بار طلاق دیدے۔ انہوں نے جواب دیا جتنی اس نے کہا واقع ہو گئیں، بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس کی وضاحت فرما دی، اب جو آدمی اس کے مطابق عمل کرے تو الله تعالیٰ نے اسے واضح کر دیا، اور جس نے مخالفت کی اللہ کی قسم ہم تو تمہاری (طرح) مخالفت کی طاقت نہیں رکھتے۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي، [مكتبه الشامله نمبر: 103]» اس اثر کی سند عبدالرحمن المسعودی کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن طبرانی میں اس کا شاہد صحیح موجود ہے۔ دیکھئے: [معجم طبراني 9628، 9629] اور یہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے حدیث نہیں۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف عبد الرحمن بن عبد الله بن عتبة المسعودي
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، اخبرني عبد الملك بن ميسرة، قال: سمعت النزال بن سبرة، قال: "شهدت عبد الله واتاه رجل وامراة في تحريم، فقال: إن الله قد بين، فمن اتى الامر من قبل وجهه، فقد بين، ومن خالف، فوالله ما نطيق خلافكم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ، قَالَ: "شَهِدْتُ عَبْدَ اللَّهِ وَأَتَاهُ رَجُلٌ وَامْرَأَةٌ فِي تَحْرِيمٍ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَيَّنَ، فَمَنْ أَتَى الْأَمْرَ مِنْ قِبَلِ وَجْهِهِ، فَقَدْ بُيِّنَ، وَمَنْ خَالَفَ، فَوَاللَّهِ مَا نُطِيقُ خِلَافَكُمْ".
نزال بن سبرہ نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو ایک مرد ایک عورت حرمت کا مسئلہ لے کر ان کے پاس آئے (یعنی طلاق کا)، انہوں نے کہا: بیشک اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے، جو شخص اس وضاحت کے عین مطابق چلا تو (حکم) واضح ہے، اور جو اس کے خلاف چلا تو تمہارے اس خلاف کے مطابق فتویٰ دینے کی ہمیں طاقت نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 104]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعجم الكبير للطبراني 9636]
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا عثام والد علي بن عثام، عن الاعمش، قال: "ما سمعت إبراهيم يقول برايه في شيء قط".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَثَّامٌ وَالِدُ عَلِيِّ بْنِ عَثَّامٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: "مَا سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يَقُولُ بِرَأْيِهِ فِي شَيْءٍ قَطُّ".
اعمش نے کہا: میں نے ابراہیم کو کسی بارے میں اپنی رائے سے کبھی کچھ کہتے نہیں سنا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 106]» اس اثر کی سند صحیح ہے۔ ابوخیثمہ نے (العلم 38) میں دوسری سند سے بھی اسے ذکر کیا ہے۔
عبدالعزیز بن رفیع سے مروی ہے کہ عطاء رحمہ اللہ سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے «لا أدري»”میں نہیں جانتا“ کہا۔ ان سے کہا گیا اپنی رائے سے بھی کچھ نہ کہیں گے؟ فرمایا: مجھے اللہ عز وجل سے شرم آتی ہے کہ روئے زمین پر میرے قول کی پیروی کی جائے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 108]» اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الإبانة لابن بطة 347]
وضاحت: (تشریح احادیث 102 سے 108) یہ تمام آثار سلف صالحین اور کبار علماء کے ہیں، محمد بن سیرین، ابراہیم النخعی، قتادہ بن دعامہ اور عطاء وغیرہ بڑے عظیم فقہا اور محدثین میں شمار ہوتے ہیں، لیکن ان کی تواضع اور احتیاط دیکھئے علم کے سمندر ہونے کے باوجود وہی کہتے تھے جو کتاب و سنّت اور صحابہ و تابعین سے منقول ہے، ورنہ لاعلمی ظاہر کر دیتے۔
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا إسماعيل بن ابان، اخبرني حاتم هو ابن إسماعيل، عن عيسى، عن الشعبي، قال: جاءه رجل يساله عن شيء، فقال: "كان ابن مسعود يقول فيه كذا وكذا، قال: اخبرني انت برايك، فقال: الا تعجبون من هذا؟ اخبرته عن ابن مسعود، ويسالني عن رايي، وديني عندي آثر من ذلك، والله لان اتغنى اغنية احب إلي من ان اخبرك برايي".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، أَخْبَرَنِي حَاتِمٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عِيسَى، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: جَاءَهُ رَجُلٌ يَسْأَلُهُ عَنْ شَيْءٍ، فَقَالَ: "كَانَ ابْنُ مَسْعُودٍ يَقُولُ فِيهِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: أَخْبِرْنِي أَنْتَ بِرَأْيِكَ، فَقَالَ: أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا؟ أَخْبَرْتُهُ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَيَسْأَلُنِي عَنْ رَأْيِي، وَدِينِي عِنْدِي آثَرُ مِنْ ذَلِكَ، وَاللَّهِ لَأَنْ أَتَغَنَّى أُغْنِيَّةً أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُخْبِرَكَ بِرَأْيِي".
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: ایک شخص نے آ کر کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا، میں نے کہا سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ (اس بارے میں) ایسا یا اس طرح کہتے ہیں۔ اس نے کہا: آپ کی کیا رائے ہے؟ شعبی رحمہ اللہ نے کہا: تمہیں اس آدمی پرتعجب نہیں ہوتا؟ میں نے اسے کہا کہ سیدنا عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں اور یہ کہتا ہے مجھے اپنی رائے بتایئے، حالانکہ میرا مسلک (یعنی دوسروں کی رائے نقل کرنا) میرے نزدیک زیادہ راجح ہے۔ اللہ کی قسم اپنی رائے کے اظہار سے زیادہ مجھے یہ پسند ہے کہ میں گانے گاتا پھروں۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وعيسى هو: الحناط متروك الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 109]» عیسیٰ الحناط کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ اس کو خطیب نے [الفقيه والمتفقه 492] میں ذکر کیا ہے۔
وضاحت: (تشریح حدیث 108) اس روایت سے بشرطِ صحت ثابت ہوتا ہے کہ اپنی رائے سے فتویٰ دینے سے گانے گانا بہتر ہے۔ حالانکہ گانے گانا فعلِ قبیح ہے، لیکن ان کے نزدیک فتویٰ سازی سے بہتر ہے، اس سے امام شعبی کی فضیلت اور دوسروں کی رائے کا احترام ثابت ہوتا ہے۔
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وعيسى هو: الحناط متروك الحديث
(حديث مقطوع) اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا حاتم هو ابن إسماعيل، عن عيسى، عن الشعبي، قال: "إياكم والمقايسة، والذي نفسي بيده لئن اخذتم بالمقايسة لتحلن الحرام ولتحرمن الحلال، ولكن ما بلغكم عمن حفظ من اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فاعملوا به".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ هُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ عِيسَى، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "إِيَّاكُمْ وَالْمُقَايَسَةَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ أَخَذْتُمْ بِالْمُقَايَسَةِ لَتُحِلُّنَّ الْحَرَامَ وَلَتُحَرِّمُنَّ الْحَلَالَ، وَلَكِنْ مَا بَلَغَكُمْ عَمَّنْ حَفِظَ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْمَلُوا بِهِ".
امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: قیاس آرائی سے بچو، قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم نے قیاس آرائی کی تو یقیناً حرام کو حلال اور حلال کو حرام کر ڈالو گے، اس لئے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے محفوظات سے تم تک جو پہنچا ہے اسی پر عمل کرو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 110]» اس روایت کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ عیسیٰ ضعیف ہیں اور خطیب نے [الفقيه 497] میں ضرار بن صرد کے طریق سے اسے بیان کیا ہے، لیکن ضرار بھی ضعیف راوی ہیں۔ واللہ اعلم
وضاحت: (تشریح حدیث 109) اس روایت کے شعبی کی طرف منسوب ہونے میں کلام ہے، لیکن «عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين» جیسی احادیث کے پیشِ نظر بات صحیح ہے۔ نیز علماءِ اصول نے قیاس کو ادلہ شرعیہ میں شمار کیا ہے۔ لیکن یہ اس وقت صحیح ہے جب اس کی مثال اقوالِ صحابہ میں موجود ہو۔ واللہ اعلم۔