حدثنا عبد الله بن صالح قال: حدثني الليث قال: حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، عن عوف بن الحارث بن الطفيل، وهو ابن اخي عائشة لامها، ان عائشة رضي الله عنها حدثت، ان عبد الله بن الزبير قال في بيع، او عطاء، اعطته عائشة: والله لتنتهين عائشة او لاحجرن عليها، فقالت: اهو قال هذا؟ قالوا: نعم، قالت عائشة: فهو لله نذر ان لا اكلم ابن الزبير كلمة ابدا، فاستشفع ابن الزبير بالمهاجرين حين طالت هجرتها إياه، فقالت: والله، لا اشفع فيه احدا ابدا، ولا احنث نذري الذي نذرت ابدا. فلما طال على ابن الزبير كلم المسور بن مخرمة وعبد الرحمن بن الاسود بن يغوث، وهما من بني زهرة، فقال لهما: انشدكما بالله إلا ادخلتماني على عائشة، فإنها لا يحل لها ان تنذر قطيعتي، فاقبل به المسور وعبد الرحمن مشتملين عليه بارديتهما، حتى استاذنا على عائشة فقالا: السلام عليك ورحمة الله وبركاته، اندخل؟ فقالت عائشة: ادخلوا، قالا: كلنا يا ام المؤمنين؟ قالت: نعم، ادخلوا كلكم. ولا تعلم عائشة ان معهما ابن الزبير، فلما دخلوا دخل ابن الزبير في الحجاب، واعتنق عائشة وطفق يناشدها يبكي، وطفق المسور وعبد الرحمن يناشدان عائشة إلا كلمته وقبلت منه، ويقولان: قد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عما قد علمت من الهجرة، وانه لا يحل للرجل ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال. قال: فلما اكثروا التذكير والتحريج طفقت تذكرهم وتبكي وتقول: إني قد نذرت والنذر شديد، فلم يزالوا بها حتى كلمت ابن الزبير، ثم اعتقت بنذرها اربعين رقبة، ثم كانت تذكر بعد ما اعتقت اربعين رقبة فتبكي حتى تبل دموعها خمارها.حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَوْفِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ الطُّفَيْلِ، وَهُوَ ابْنُ أَخِي عَائِشَةَ لِأُمِّهَا، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا حُدِّثَتْ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ الزُّبَيْرِ قَالَ فِي بَيْعٍ، أَوْ عَطَاءٍ، أَعْطَتْهُ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ لَتَنْتَهِيَنَّ عَائِشَةُ أَوْ لَأَحْجُرَنَّ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَهُوَ قَالَ هَذَا؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَهُوَ لِلَّهِ نَذْرٌ أَنْ لاَ أُكَلِّمَ ابْنَ الزُّبَيْرِ كَلِمَةً أَبَدًا، فَاسْتَشْفَعَ ابْنُ الزُّبَيْرِ بِالْمُهَاجِرِينَ حِينَ طَالَتْ هِجْرَتُهَا إِيَّاهُ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ، لاَ أُشَفِّعُ فِيهِ أَحَدًا أَبَدًا، وَلاَ أُحَنِّثُ نَذْرِي الَّذِي نَذَرْتُ أَبَدًا. فَلَمَّا طَالَ عَلَى ابْنِ الزُّبَيْرِ كَلَّمَ الْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ وَعَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الأَسْوَدِ بْنِ يَغُوثَ، وَهُمَا مِنْ بَنِي زُهْرَةَ، فَقَالَ لَهُمَا: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ إِلاَّ أَدْخَلْتُمَانِي عَلَى عَائِشَةَ، فَإِنَّهَا لاَ يَحِلُّ لَهَا أَنْ تَنْذِرَ قَطِيعَتِي، فَأَقْبَلَ بِهِ الْمِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ مُشْتَمِلَيْنِ عَلَيْهِ بِأَرْدِيَتِهِمَا، حَتَّى اسْتَأْذَنَا عَلَى عَائِشَةَ فَقَالاَ: السَّلاَمُ عَلَيْكِ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ، أَنَدْخُلُ؟ فَقَالَتْ عَائِشَةُ: ادْخُلُوا، قَالاَ: كُلُّنَا يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، ادْخُلُوا كُلُّكُمْ. وَلاَ تَعْلَمُ عَائِشَةُ أَنَّ مَعَهُمَا ابْنَ الزُّبَيْرِ، فَلَمَّا دَخَلُوا دَخَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ فِي الْحِجَابِ، وَاعْتَنَقَ عَائِشَةَ وَطَفِقَ يُنَاشِدُهَا يَبْكِي، وَطَفِقَ الْمِسْوَرُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ يُنَاشِدَانِ عَائِشَةَ إِلاَّ كَلَّمَتْهُ وَقَبِلَتْ مِنْهُ، وَيَقُولاَنِ: قَدْ عَلِمْتِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَمَّا قَدْ عَلِمْتِ مِنَ الْهِجْرَةِ، وَأَنَّهُ لاَ يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ. قَالَ: فَلَمَّا أَكْثَرُوا التَّذْكِيرَ وَالتَّحْرِيجَ طَفِقَتْ تُذَكِّرُهُمْ وَتَبْكِي وَتَقُولُ: إِنِّي قَدْ نَذَرْتُ وَالنَّذْرُ شَدِيدٌ، فَلَمْ يَزَالُوا بِهَا حَتَّى كَلَّمَتِ ابْنَ الزُّبَيْرِ، ثُمَّ أَعْتَقَتْ بِنَذْرِهَا أَرْبَعِينَ رَقَبَةً، ثُمَّ كَانَتْ تَذْكُرُ بَعْدَ مَا أَعْتَقَتْ أَرْبَعِينَ رَقَبَةً فَتَبْكِي حَتَّى تَبُلَّ دُمُوعُهَا خِمَارَهَا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اخیافی بھتیجے عوف بن حارث بن طفیل سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بتایا گیا کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے ان کی خرید و فروخت یا عطیے کے بارے میں کہا ہے: اللہ کی قسم! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس سے باز آ جائیں ورنہ میں ان پر پابندی عائد کر دوں گا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا اس نے یہ بات کی ہے؟ لوگوں نے کہا: ہاں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اللہ کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ ابن زبیر سے کبھی کلام نہیں کروں گی۔ جب ناراضگی کا سلسلہ طویل ہو گیا تو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے مہاجرین سے سفارش کرائی تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں اس کے بارے کبھی کسی کی سفارش قبول نہیں کروں گی اور اپنی نذرنہیں توڑوں گی۔ مزید کچھ دن گزرنے کے بعد سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بنوزہرہ کے دو افراد مسور بن مخرمہ اور عبدالرحمٰن بن اسود بن عبد یغوث سے کہا: میں تم دونوں کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ تم کسی طریقے سے مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے جاؤ، ان کے لیے حلال نہیں ہے کہ مجھ سے قطع تعلق کی نذر مانیں۔ چنانچہ مسور اور عبدالرحمٰن سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو اپنی چادروں میں چھپائے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے آئے اور اجازت طلب کی اور کہا: آپ پر سلامتی اور اللہ کی طرف سے رحمت و برکت ہو! کیا ہم اندر آ سکتے ہیں؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے کہا: ام المومنین! سب آ جائیں؟ فرمایا: ہاں، سب آ جاؤ، اور انہیں پتہ نہ چلا کہ ان کے ساتھ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما بھی ہیں۔ جب وہ اندر آئے تو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما حجاب میں چلے گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گلے لگ کر اللہ کا واسطہ دینے لگے اور رونے لگے۔ ادھر پردے سے باہر مسور اور عبدالرحمٰن بھی اللہ کا واسطہ دینے لگے کہ صلح کر لیں، مگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے کوئی بات نہ کی اور نہ ان کی معذرت ہی قبول کی۔ وہ دونوں کہنے لگے کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قطع تعلقی سے منع کیا ہے جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے۔ راوی کہتے ہیں کہ جب انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بہت زیادہ نصیحت کی اور اسلام کی اس بارے میں سختی کا بتایا تو وہ ان دونوں کو بتاتے ہوئے رو پڑیں اور فرمایا: بے شک میں نے (بات نہ کرنے کی) نذر مان رکھی ہے اور نذر کا معاملہ بڑا سخت ہے۔ وہ دونوں مسلسل اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ انہوں نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہما سے بات کی اور اپنی نذر (کے کفارے) میں چالیس غلام آزاد کیے۔ وہ اس کے بعد جب بھی اپنی نذر کا ذکر کرتیں تو اس قدر روتیں کہ آنسوؤں سے ان کا دوپٹہ تر ہو جاتا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب، باب الهجرة وقول النبى صلى الله عليه وسلم: 6073، 6075»
حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا تباغضوا، ولا تحاسدوا، ولا تدابروا، وكونوا عباد الله إخوانا، ولا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَا تَبَاغَضُوا، وَلاَ تَحَاسَدُوا، وَلَا تَدَابَرُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا، وَلَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ.“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، باہم حسد نہ کرو، اور نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرو۔ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ، اور کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین راتوں سے زیادہ ناراض رہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6076 و مسلم: 2559 و أبوداؤد: 4910 و الترمذي: 1935 - انظر غاية المرام: 404»
حدثنا عبد الله بن صالح قال: حدثني الليث قال: حدثني يونس، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي ثم الجندعي، ان ابا ايوب صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبره ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يحل لاحد ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا، وخيرهما الذي يبدا بالسلام.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ صَالِحٍ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ ثُمَّ الْجُنْدَعِيِّ، أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ صَاحِبَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لاَ يَحِلُّ لأَحَدٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيَصُدُّ هَذَا وَيَصُدُّ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلامِ.“
صحابی رسول سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی کے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی کو تین راتوں سے زیادہ چھوڑے رکھے۔ اس طرح کہ جب دونوں کی ملاقات ہوتی ہے تو یہ بھی (سلام کلام سے) رکتا ہے اور یہ (دوسرا) بھی اس سے اعراض کر لیتا ہے، اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6077 و مسلم: 2560 و أبوداؤد: 4911 و الترمذي: 1932 - انظر الصحيحة: 1246»
حدثنا موسى، قال: حدثنا وهيب، قال: حدثنا سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”لا تباغضوا، ولا تنافسوا، وكونوا عباد الله إخوانا.“حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَا تَبَاغَضُوا، وَلَا تَنَافَسُوا، وَكُونُوا عِبَادَ اللهِ إِخْوَانًا.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آپس میں بغض نہ رکھو، اور نہ حصول دنیا کے لیے مقابلہ بازی کرو، اور آپس میں بھائی بھائی بن کر اللہ کے بندے بن جاؤ۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6064 و مسلم: 2563 - انظر غاية المرام: 404»
حدثنا يحيى بن سليمان قال: حدثني ابن وهب قال: اخبرني عمرو، عن يزيد بن ابي حبيب، عن سنان بن سعد، عن انس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ما تواد اثنان في الله جل وعز او في الإسلام، فيفرق بينهما إلا بذنب يحدثه احدهما.“حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرٌو، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَا تَوَادَّ اثْنَانِ فِي اللهِ جَلَّ وَعَزَّ أَوْ فِي الإِسْلاَمِ، فَيُفَرِّقُ بَيْنَهُمَا إِلاَّ بِذَنْبٍ يُحْدِثُهُ أَحَدُهُمَا.“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو آدمی اللہ تعالیٰ کی خاطر یا اسلام کی وجہ سے باہم محبت کرتے ہیں تو ان میں جدائی اس پہلے گناہ کی وجہ سے ہوتی ہے جس کا ان میں سے ایک ارتکاب کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 5357 و ابن المبارك فى الزهد: 719 و اسحاق بن راهويه فى مسنده: 453 و الطبراني فى مسند الشامين: 316/3 - انظر الصحيحة: 637»
حدثنا ابو معمر، قال: حدثنا عبد الوارث، عن يزيد قال: قالت معاذة: سمعت هشام بن عامر الانصاري، ابن عم انس بن مالك، وكان قتل ابوه يوم احد، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يحل لمسلم ان يصارم مسلما فوق ثلاث، فإنهما ناكبان عن الحق ما داما على صرامهما، وإن اولهما فيئا يكون كفارة عنه سبقه بالفيء، وإن ماتا على صرامهما لم يدخلا الجنة جميعا ابدا، وإن سلم عليه فابى ان يقبل تسليمه وسلامه، رد عليه الملك، ورد على الآخر الشيطان.“حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ قَالَ: قَالَتْ مُعَاذَةَ: سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ عَامِرٍ الأَنْصَارِيَّ، ابْنَ عَمِّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ قُتِلَ أَبُوهُ يَوْمَ أُحُدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لاَ يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُصَارِمَ مُسْلِمًا فَوْقَ ثَلاَثٍ، فَإِنَّهُمَا نَاكِبَانِ عَنِ الْحَقِّ مَا دَامَا عَلَى صِرَامِهِمَا، وَإِنَّ أَوَّلَهُمَا فَيْئًا يَكُونُ كَفَّارَةً عَنْهُ سَبْقُهُ بِالْفَيْءِ، وَإِنْ مَاتَا عَلَى صِرَامِهِمَا لَمْ يَدْخُلاَ الْجَنَّةَ جَمِيعًا أَبَدًا، وَإِنْ سَلَّمَ عَلَيْهِ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَ تَسْلِيمَهُ وَسَلاَمَهُ، رَدَّ عَلَيْهِ الْمَلَكُ، وَرَدَّ عَلَى الْآخَرِ الشَّيْطَانُ.“
حضرت ہشام بن عامر انصاری، جن کے والد احد میں شہید ہو گئے تھے، سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ قطع کلامی کرے۔ جب تک وہ دونوں قطع کلامی رکھتے ہیں دونوں ہی حق سے ہٹے ہوتے ہیں۔ جو ان میں سے حق کی طرف لوٹے، یعنی تعلق جوڑے تو اس کی یہ سبقت اس کی سابقہ قطع تعلقی کا کفارہ بن جائے گی۔ اگر وہ دونوں قطع تعلقی کی حالت میں مر گئے تو دونوں ہی کبھی جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ اگر ان میں سے ایک دوسرے کو سلام کہے اور وہ اس کا تحیہ و سلام قبول کرنے سے انکار کر دے تو اس (سلام کرنے والے) کو فرشتہ جواب دیتا ہے اور دوسرے کو شیطان جواب دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 16257 و الطبراني فى الكبير: 175/22 و البيهقي فى شعب الإيمان: 6620 - انظر الصحيحة: 1246»
حدثنا محمد بن سلام، قال: حدثنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إني لاعرف غضبك ورضاك“، قالت: قلت: وكيف تعرف ذلك يا رسول الله؟ قال: ”إنك إذا كنت راضية قلت: بلى، ورب محمد، وإذا كنت ساخطة قلت: لا، ورب إبراهيم“، قالت: قلت: اجل، لست اهاجر إلا اسمك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”إِنِّي لَأَعْرِفُ غَضَبَكِ وَرِضَاكِ“، قَالَتْ: قُلْتُ: وَكَيْفَ تَعْرِفُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: ”إِنَّكِ إِذَا كُنْتِ رَاضِيَةً قُلْتِ: بَلَى، وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ سَاخِطَةً قُلْتِ: لاَ، وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ“، قَالَتْ: قُلْتُ: أَجَلْ، لَسْتُ أُهَاجِرُ إِلا اسْمَكَ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے غصے کو اور تمہاری رضا مندی کو پہچانتا ہوں۔“ وہ فرماتی ہیں: میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آپ کو کیسے پتہ چلتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو: کیوں نہیں! رب محمد کی قسم۔ اور جب تم ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو: نہیں! رب ابراہیم کی قسم؟“ وہ کہتی ہیں: میں نے عرض کیا: اسی طرح ہے لیکن میں صرف آپ کا نام ہی ترک کرتی ہوں۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6078 و مسلم: 2439 - انظر الصحيحة: 3302»
حدثنا عبد الله بن يزيد، قال: حدثنا حيوة قال: حدثني ابو عثمان الوليد بن ابي الوليد المدني، ان عمران بن ابي انس حدثه، عن ابي خراش السلمي، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: ”من هجر اخاه سنة، فهو كسفك دمه.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ أَبِي أَنَسٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي خِرَاشٍ السُّلَمِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ”مَنْ هَجَرَ أَخَاهُ سَنَةً، فَهُوَ كَسَفْكِ دَمِهِ.“
سیدنا ابوخراش سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جس نے اپنے بھائی سے ایک سال تک قطع تعلق کیا تو یہ (عمل) اس کا خون کرنے کی طرح ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، كتاب الأدب، باب فى هجرة الرجل أخاه: 4915 - انظر الصحيحة: 928»
حدثنا ابن ابي مريم، قال: اخبرنا يحيى بن ايوب قال: حدثني الوليد بن ابي الوليد المدني، ان عمران بن ابي انس حدثه، ان رجلا من اسلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم حدثه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”هجرة المسلم سنة كدمه“، وفي المجلس محمد بن المنكدر، وعبد الله بن ابي عتاب، فقالا: قد سمعنا هذا عنه.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ قَالَ: حَدَّثَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ الْمَدَنِيُّ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ أَبِي أَنَسٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَجُلاً مِنْ أَسْلَمَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”هِجْرَةُ الْمُسْلِمِ سَنَةً كَدَمِهِ“، وَفِي الْمَجْلِسِ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، وَعَبْدُ اللهِ بْنُ أَبِي عَتَّابٍ، فَقَالاَ: قَدْ سَمِعْنَا هَذَا عَنْهُ.
اسلم قبیلے کے ایک صحابی رسول (سیدنا ابوخراش رضی اللہ عنہ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مومن کو ایک سال تک چھوڑنا اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔“ مجلس میں محمد بن منکدر اور عبداللہ بن ابی عتاب بھی تھے، ان دونوں نے کہا کہ ہم نے بھی ان سے اسی طرح سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه المزي فى تهذيب الكمال: 488/5 - انظر الحديث السابق»
حدثنا إسماعيل قال: حدثني مالك، عن ابن شهاب، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي ايوب الانصاري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاثة ايام، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذي يبدا بالسلام.“حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيُعْرِضُ هَذَا وَيُعْرِضُ هَذَا، وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلامِ.“
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔ اس طرح کہ جب دونوں ملیں تو یہ منہ ادھر کرے اور یہ (دوسرا) ادھر کرے۔ اور ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الأدب: 6077، 6237 و مسلم: 2560 و أبوداؤد: 4911 و الترمذي: 1932 - انظر الإرواء: 2029»