حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثنا عيينة بن عبد الرحمن قال: سمعت ابي يحدث، عن ابي بكرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما من ذنب احرى ان يعجل الله لصاحبه العقوبة في الدنيا، مع ما يدخر له في الآخرة، من قطيعة الرحم والبغي.“حَدَّثَنَا آدَمُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَا مِنْ ذَنْبٍ أَحْرَى أَنْ يُعَجِّلَ اللَّهُ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةَ فِي الدُّنْيَا، مَعَ مَا يَدَّخِرُ لَهُ فِي الْآخِرَةِ، مِنْ قَطِيعَةِ الرَّحِمِ وَالْبَغْيِ.“
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قطع رحمی اور سرکشی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں کہ اللہ اس کے مرتکب کو دنیا میں بھی جلدی سزا دے اور اس کے ساتھ آخرت میں بھی اس کی سزا برقرار رکھے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب فى النهي عن البغي: 4902 و الترمذي: 2511 و ابن ماجه: 4211، الصحيحة: 918، 978»
حدثنا محمد بن كثير، قال: اخبرنا سفيان، عن الاعمش، والحسن بن عمرو، وفطر، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو قال سفيان لم يرفعه الاعمش إلى النبي صلى الله عليه وسلم، ورفعه الحسن وفطر عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”ليس الواصل بالمكافئ، ولكن الواصل الذي إذا قطعت رحمه وصلها.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الأَعْمَشِ، وَالْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، وَفِطْرٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سُفْيَانُ لَمْ يَرْفَعْهُ الأَعْمَشُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَفَعَهُ الْحَسَنُ وَفِطْرٌ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ، وَلَكِنَّ الْوَاصِلَ الَّذِي إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهُ وَصَلَهَا.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں جو برابر سرابر معاملہ کرتا ہے، صلہ رحمی کرنے والا تو درحقیقت وہ ہے کہ جس سے تعلق توڑا جائے تو وہ پھر بھی صلہ رحمی کرے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب ليس الواصل بالمكافئ: 5991 و أبوداؤد: 1697 و الترمذي: 1908»
حدثنا مالك بن إسماعيل، قال: حدثنا عيسى بن عبد الرحمن، عن طلحة، عن عبد الرحمن بن عوسجة، عن البراء قال: جاء اعرابي فقال: يا نبي الله، علمني عملا يدخلني الجنة، قال: ”لئن كنت اقصرت الخطبة لقد اعرضت المسالة، اعتق النسمة، وفك الرقبة“، قال: او ليستا واحدا؟ قال: ”لا، عتق النسمة ان تعتق النسمة، وفك الرقبة ان تعين على الرقبة، والمنيحة الرغوب، والفيء على ذي الرحم، فإن لم تطق ذلك، فامر بالمعروف، وانه عن المنكر، فإن لم تطق ذلك، فكف لسانك إلا من خير.“حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْسَجَةَ، عَنِ الْبَرَاءِ قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللهِ، عَلِّمْنِي عَمَلاً يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ، قَالَ: ”لَئِنْ كُنْتَ أَقَصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ، أَعْتِقِ النَّسَمَةَ، وَفُكَّ الرَّقَبَةَ“، قَالَ: أَوَ لَيْسَتَا وَاحِدًا؟ قَالَ: ”لاَ، عِتْقُ النَّسَمَةِ أَنْ تَعْتِقَ النَّسَمَةَ، وَفَكُّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِينَ عَلَى الرَّقَبَةِ، وَالْمَنِيحَةُ الرَّغُوبُ، وَالْفَيْءُ عَلَى ذِي الرَّحِمِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ، فَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ، وَانْهَ عَنِ الْمُنْكَرِ، فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ، فَكُفَّ لِسَانَكَ إِلاَّ مِنْ خَيْرٍ.“
سیدنا براء (بن عازب) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آیا اور اس نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! مجھے ایسے عمل کی تعلیم دیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ تو نے بات تو مختصر کی ہے لیکن تیرا سوال معنی خیز ہے، یعنی تو نے لمبا چوڑا سوال اس میں سمو دیا ہے۔“(پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:)”جان کو آزاد کرو، گردن کو چھڑاؤ۔“ اس نے کہا: کیا یہ دونوں ایک ہی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، جان آزاد کرنا یہ ہے کہ تو کسی غلام کو آزاد کرے اور گردن چھڑانا یہ ہے کہ تو کسی غلام کی آزادی میں معاونت کرے۔“(پھر فرمایا:)”کسی کو دودھ والا ایسا جانور دو جس میں رغبت کی جاتی ہو، قرابت دار پر مہربانی اور شفقت کرو، اور اگر تم اس کی طاقت نہیں رکھتے تو نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، اور اگر اس کی طاقت نہیں تو زبان کو بھلائی (کی بات کرنے) کے علاوہ روک کر رکھو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أحمد: 18647 و الطيالسي: 739 و ابن حبان: 374 و المروزي فى البر والصلة: 276 و البيهقي فى الأدب: 77 - صحيح الترغيب: 898»
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري قال: اخبرني عروة بن الزبير، ان حكيم بن حزام اخبره، انه قال للنبي صلى الله عليه وسلم: ارايت امورا كنت اتحنث بها في الجاهلية، من صلة، وعتاقة، وصدقة، فهل لي فيها اجر؟ قال حكيم: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”اسلمت على ما سلف من خير.“حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ أُمُورًا كُنْتُ أَتَحَنَّثُ بِهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، مِنْ صِلَةٍ، وَعَتَاقَةٍ، وَصَدَقَةٍ، فَهَلْ لِي فِيهَا أَجْرٌ؟ قَالَ حَكِيمٌ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”أَسْلَمْتَ عَلَى مَا سَلَفَ مِنْ خَيْرٍ.“
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ ان امور کے متعلق کیا ارشاد فرماتے ہیں جو میں زمانہ جاہلیت میں بطور عبادت کرتا تھا، مثلاً صلہ رحمی، غلاموں کو آزاد کرنا اور صدقہ کرنا، کیا مجھے ان کا ثواب ملے گا؟ حکیم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اپنے سابقہ خیر کے کاموں پر اسلام لائے ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب البيوع، باب شراء المملوك من الحربي و هبته و عتقه: 2220 و مسلم: 123 - الصحيحة: 248»
حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا عبدة، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، راى عمر حلة سيراء فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه، فلبستها يوم الجمعة، وللوفود إذا اتوك، فقال: ”يا عمر، إنما يلبس هذه من لا خلاق له“، ثم اهدي للنبي صلى الله عليه وسلم منها حلل، فاهدى إلى عمر منها حلة، فجاء عمر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، بعثت إلي هذه، وقد سمعتك قلت فيها ما قلت، قال: ”إني لم اهدها لك لتلبسها، إنما اهديتها إليك لتبيعها او لتكسوها“، فاهداها عمر لاخ له من امه مشرك.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، رَأَى عُمَرُ حُلَّةً سِيَرَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ، فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَلِلْوُفُودِ إِذَا أَتَوْكَ، فَقَالَ: ”يَا عُمَرُ، إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ“، ثُمَّ أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا حُلَلٌ، فَأَهْدَى إِلَى عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، فَجَاءَ عُمَرُ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، بَعَثْتَ إِلَيَّ هَذِهِ، وَقَدْ سَمِعْتُكَ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ، قَالَ: ”إِنِّي لَمْ أُهْدِهَا لَكَ لِتَلْبَسَهَا، إِنَّمَا أَهْدَيْتُهَا إِلَيْكَ لِتَبِيعَهَا أَوْ لِتَكْسُوَهَا“، فَأَهْدَاهَا عُمَرُ لأَخٍ لَهُ مِنْ أُمِّهِ مُشْرِكٍ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دھاری دار ریشم کے کپڑوں کا جوڑا دیکھا تو (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر آپ یہ خرید لیں اور اسے جمعہ کے دن اور وفود کے استقبال کے لیے زیب تن کر لیا کریں (تو کتنا اچھا لگے گا)، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عمر! یہ تو وہ شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو“، پھر اسی طرح کے جوڑے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بطور ہدیہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بطور تحفہ بھیجا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے یہ میری طرف بھیج دیا حالانکہ میں نے آپ سے اس کے بارے وہ کچھ کہتے سنا ہے جو آپ نے فرمایا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں نے یہ تمہاری طرف اس لیے نہیں بھیجا کہ تم اسے پہنو، میرا تحفہ دینے کا مقصد یہ تھا کہ تم اسے بیچ دو (اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھاؤ)، یا کسی کو دے دو۔“ تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے اخیافی (ماں جائے) مشرک بھائی کو بطور تحفہ دے دیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الجمعة، باب يلبس أحسن ما يجد: 886 و مسلم: 2068 و أبوداؤد: 1076 و النسائي: 1382»
حدثنا عمرو بن خالد، قال: حدثنا عتاب بن بشير، عن إسحاق بن راشد، عن الزهري قال: حدثني محمد بن جبير بن مطعم، ان جبير بن مطعم اخبره، انه سمع عمر بن الخطاب رضي الله عنه يقول على المنبر: تعلموا انسابكم، ثم صلوا ارحامكم، والله إنه ليكون بين الرجل وبين اخيه الشيء، ولو يعلم الذي بينه وبينه من داخلة الرحم، لاوزعه ذلك عن انتهاكه.حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: تَعَلَّمُوا أَنْسَابَكُمْ، ثُمَّ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لِيَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ أَخِيهِ الشَّيْءُ، وَلَوْ يَعْلَمُ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ مِنْ دَاخِلَةِ الرَّحِمِ، لَأَوْزَعَهُ ذَلِكَ عَنِ انْتِهَاكِهِ.
جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو برسر منبر یہ کہتے ہوئے سنا: تم اپنے نسبوں کو سیکھو اور معلوم کرو، پھر اپنی رشتہ داریوں کو ملاؤ۔ اللہ کی قسم! بسا اوقات دو آدمیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا رنجش ہوتی ہے، اگر اسے علم ہو کہ اس کی قرابت داری ہے تو وہ اسے تعلقات بگاڑنے سے روک دے گی۔
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و صح مرفوعًا: الصحيحة: 277 - أخرجه المروزي فى البر و الصلة: 119 و ابن وهب فى الجامع: 15»
حدثنا احمد بن يعقوب، قال: اخبرنا إسحاق بن سعيد بن عمرو، انه سمع اباه يحدث، عن ابن عباس، انه قال: احفظوا انسابكم، تصلوا ارحامكم، فإنه لا بعد بالرحم إذا قربت، وإن كانت بعيدة، ولا قرب بها إذا بعدت، وإن كانت قريبة، وكل رحم آتية يوم القيامة امام صاحبها، تشهد له بصلة إن كان وصلها، وعليه بقطيعة إن كان قطعها.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يَعْقُوبَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: احْفَظُوا أَنْسَابَكُمْ، تَصَلُوا أَرْحَامَكُمْ، فَإِنَّهُ لاَ بُعْدَ بِالرَّحِمِ إِذَا قَرُبَتْ، وَإِنْ كَانَتْ بَعِيدَةً، وَلاَ قُرْبَ بِهَا إِذَا بَعُدَتْ، وَإِنْ كَانَتْ قَرِيبَةً، وَكُلُّ رَحِمٍ آتِيَةٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَمَامَ صَاحِبِهَا، تَشْهَدُ لَهُ بِصِلَةٍ إِنْ كَانَ وَصَلَهَا، وَعَلَيْهِ بِقَطِيعَةٍ إِنْ كَانَ قَطَعَهَا.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اپنے نسبوں کی حفاظت کرو تاکہ تم رشتہ داری کر سکو، کیونکہ کوئی بھی رشتہ داری خواہ دور ہی کی ہو صلہ رحمی سے دور کی نہیں رہتی۔ اور کوئی بھی تعلق داری خواہ کتنی قریب کی ہو، اگر اسے جوڑا نہ جائے تو وہ دور ہو جاتی ہے، اور ہر رحم قیامت کے دن آگے آگے آئے گا اور صلہ رحمی کرنے والے کی صلہ رحمی کی گواہی دے گا، اور جس نے قطع رحمی کی ہو گی اس کے خلاف قطع رحمی کی گواہی دے گا۔
تخریج الحدیث: «صحيح الإسناد و صح مرفوعًا: أخرجه الطيالسي: 2757 و الحاكم: 178/4 و البيهقي فى الشعب: 7570، عن ابن عباس مرفوعًا الصحيحة: 277»