حدثنا عمرو بن خالد، قال: حدثنا عتاب بن بشير، عن إسحاق بن راشد، عن الزهري قال: حدثني محمد بن جبير بن مطعم، ان جبير بن مطعم اخبره، انه سمع عمر بن الخطاب رضي الله عنه يقول على المنبر: تعلموا انسابكم، ثم صلوا ارحامكم، والله إنه ليكون بين الرجل وبين اخيه الشيء، ولو يعلم الذي بينه وبينه من داخلة الرحم، لاوزعه ذلك عن انتهاكه.حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ رَاشِدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنَّ جُبَيْرَ بْنَ مُطْعِمٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ عَلَى الْمِنْبَرِ: تَعَلَّمُوا أَنْسَابَكُمْ، ثُمَّ صِلُوا أَرْحَامَكُمْ، وَاللَّهِ إِنَّهُ لِيَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلِ وَبَيْنَ أَخِيهِ الشَّيْءُ، وَلَوْ يَعْلَمُ الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ مِنْ دَاخِلَةِ الرَّحِمِ، لَأَوْزَعَهُ ذَلِكَ عَنِ انْتِهَاكِهِ.
جبیر بن مطعم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو برسر منبر یہ کہتے ہوئے سنا: تم اپنے نسبوں کو سیکھو اور معلوم کرو، پھر اپنی رشتہ داریوں کو ملاؤ۔ اللہ کی قسم! بسا اوقات دو آدمیوں کے درمیان کوئی جھگڑا یا رنجش ہوتی ہے، اگر اسے علم ہو کہ اس کی قرابت داری ہے تو وہ اسے تعلقات بگاڑنے سے روک دے گی۔
تخریج الحدیث: «حسن الإسناد و صح مرفوعًا: الصحيحة: 277 - أخرجه المروزي فى البر و الصلة: 119 و ابن وهب فى الجامع: 15»
الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 72
فوائد ومسائل: (۱)یہ روایت یہاں موقوفاً، یعنی صحابی کے قول کے طور پر بیان ہوئی ہے، تاہم یہ مرفوعاً، یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے طور پر بھی صحیح ہے۔ (دیکھیے:السلسلة الصحیحة للالباني، حدیث:۲۷۷) (۲) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بر سر منبر یہ بات فرمائی۔ اس سے معلوم ہوا کہ جن امور کا تعلق عوام سے براہ راست ہو انہیں عام کرنا چاہیے اور ایسے مسائل کو مجمع عام میں بیان کرنا چاہیے۔ (۳) اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حاکم وقت کو انتظامی امور کے ساتھ ساتھ رعایا کی دینی اور اخلاقی تربیت بھی کرنی چاہیے۔ خلفائے راشدین اس کا خوب اہتمام کرتے تھے۔ (۴) خاندان، برادری ازم اور اس کی بنیاد پر تعصب جو ہمارے معاشرے میں پایا جاتا ہے یہ تعلیمات شریعت کے منافي ہے کیونکہ مسلمان سب آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس بھی ایک رویہ پایا جاتا ہے کہ نئے تعلق داروں سے رابطے اور میل جول رکھا جاتا ہے اور اپنے عزیز و اقارب کی پروا نہیں کی جاتی حتی کہ ان سے واقفیت تک نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی درست نہیں۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس خاندان میں پیدا فرمایا ہے اس خاندان سے تعلق رکھے۔ ان کے دکھ درد میں شریک ہو۔ اسے یہ علم ہو کہ کس کے ساتھ کیا رشتہ داری ہے؟ اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ بات رکھی ہے کہ وہ رشتہ کا پاس ضرور کرتا ہے اس لیے انسان کو اگر علم ہوگا تو وہ باہمی رنجش کے باوجود بھی تعلق برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔ (۵) اہل عرب رشتہ داری کا خوب پاس رکھتے تھے اس کی ایک مثال بنو ہاشم کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شعب ابی طالب میں تین سال تک قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ داری کوئی اتنی معمولی چیز نہیں کہ جسے چھوٹی چھوٹی باتوں کی وجہ سے توڑ دیا جائے۔ لیکن افسوس کہ آج ہمارے معاشرے میں قرابت دار ہی ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں اور رشتہ داری کا ذرہ بھر لحاظ نہیں رکھتے۔ (۶) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قسم اٹھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی فتویٰ یا وعظ کی اہمیت کے پیش نظر اس پر قسم کھانا جائز ہے (شرح صحیح الأدب المفرد، حسین العوده)اور ایسا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔
فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 72