حدثنا عبد الله بن يزيد، قال: حدثنا حيوة قال: حدثني ابو عثمان الوليد بن ابي الوليد، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن ابر البر ان يصل الرجل اهل ود ابيه.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَيْوَةُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ.“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے بڑا حسن سلوک یہ ہے کہ باپ کے دوستوں سے حسن سلوک کیا جائے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه مسلم، البر والصلة والأدب: 2552 و أبوداؤد: 5143 و الترمذي: 1903، الصحيحة: 1432، 3063»
اخبرنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا عبد الله بن لاحق قال: اخبرني سعد بن عبادة الزرقي، ان اباه قال: كنت جالسا في مسجد المدينة مع عمرو بن عثمان، فمر بنا عبد الله بن سلام متكئا على ابن اخيه، فنفذ عن المجلس، ثم عطف عليه، فرجع عليهم فقال: ما شئت عمرو بن عثمان؟ مرتين او ثلاثا، فوالذي بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، إنه لفي كتاب الله عز وجل، مرتين: لا تقطع من كان يصل اباك فيطفا بذلك نورك.أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ لاَحِقٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ الزُّرَقِيُّ، أَنَّ أَبَاهُ قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ مَعَ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ، فَمَرَّ بِنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ سَلاَّمٍ مُتَّكِئًا عَلَى ابْنِ أَخِيهِ، فَنَفَذَ عَنِ الْمَجْلِسِ، ثُمَّ عَطَفَ عَلَيْهِ، فَرَجَعَ عَلَيْهِمْ فَقَالَ: مَا شِئْتَ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ؟ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلاَثًا، فَوَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، إِنَّهُ لَفِي كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ، مَرَّتَيْنِ: لاَ تَقْطَعْ مَنْ كَانَ يَصِلُ أَبَاكَ فَيُطْفَأَ بِذَلِكَ نُورُكَ.
عبادہ زرقی کہتے ہیں کہ میں عمرو بن عثمان کے ساتھ مدینہ منورہ کی مسجد میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ہمارے پاس سیدنا عبداللہ بن سلام اپنے بھتیجے کا سہارا لیے ہوئے گزرے اور (ہماری) مجلس سے صرف نظر کرتے ہوئے آگے چلے گئے، پھر ان کے دل میں شفقت کے جذبات پیدا ہوئے تو ہمارے پاس واپس آئے اور کہا: اے عمرو بن عثان! تم جو مرضی ہے کر لو، انہوں نے دو تین مرتبہ یہ بات دہرائی، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا، اللہ کی کتاب میں یقیناً یہ بات ہے، انہوں نے دو مرتبہ بات دہرائی کہ ”تو اس شخص سے قطع تعلقی نہ کر جو تیرے باپ کا تعلق دار تھا، ورنہ (اس بے اعتنائی کی سزا کے طور پر) اللہ تیرا نور ختم کر دے گا۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المروزي فى البر والصلة: 87 و المزي فى تهذيب الكمال: 282/10، الضعيفة: 2089»
حدثنا بشر بن محمد، قال: اخبرنا عبد الله، قال: اخبرنا محمد بن عبد الرحمن، عن محمد بن فلان بن طلحة، عن ابي بكر بن حزم، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم قال: كفيتك ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إن الود يتوارث.“حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ فُلاَنِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: كَفَيْتُكَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”إِنَّ الْوُدَّ يُتَوَارَثُ.“
ابوبکر بن حزم کسی صحابی رسول سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے کسی سے کہا: میرا آپ کو بتانا کافی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”محبت وراثت میں منتقل ہوتی ہے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه المروزي فى البر والصلة: 94 و ابن أبى عاصم فى الآحاد: 2748 و الطبراني فى الكبير: 507 و الحاكم: 194/4 و البيهقي فى الشعب: 7591، الضعيفة: 3161»
حدثنا ابو الربيع، عن إسماعيل بن زكريا، قال: حدثنا هشام بن عروة، عن ابيه , او غيره ان ابا هريرة ابصر رجلين، فقال لاحدهما: ما هذا منك؟ فقال: ابي، فقال: لا تسمه باسمه، ولا تمش امامه، ولا تجلس قبله.حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ زَكَرِيَّا، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ , أَوْ غَيْرِهِ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ أَبْصَرَ رَجُلَيْنِ، فَقَالَ لأَحَدِهِمَا: مَا هَذَا مِنْكَ؟ فَقَالَ: أَبِي، فَقَالَ: لاَ تُسَمِّهِ بِاسْمِهِ، وَلاَ تَمْشِ أَمَامَهُ، وَلا تَجْلِسْ قَبْلَهُ.
حضرت عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے دو آدمی کو (اکٹھا) دیکھا تو ایک سے دریافت کیا: اس دوسرے شخص سے تمہارا کیا رشتہ ہے؟ اس نے کہا: یہ میرے والد ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: انہیں نام لے کر مت بلاؤ، اور نہ ان کے آگے چلو، اور نہ ان کے بیٹھنے سے پہلے (مجلس میں) بیٹھو۔
حدثنا عبد الرحمن بن شيبة قال: اخبرني يونس بن يحيى بن نباتة، عن عبيد الله بن موهب، عن شهر بن حوشب قال: خرجنا مع ابن عمر، فقال له سالم: الصلاة يا ابا عبد الرحمن.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ شَيْبَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَحْيَى بْنِ نُبَاتَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ مَوْهَبٍ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ، فَقَال لَهُ سَالِمٌ: الصَّلاَةَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ.
شہر بن حوشب سے مروی ہے، ہم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جا رہے تھے تو ان سے (ان کے بیٹے) سالم نے کہا: ابوعبدالرحمٰن! نماز کا وقت ہو گیا۔
قال ابو عبد الله يعني: البخاري: حدثنا اصحابنا، عن وكيع، عن سفيان، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر قال: لكن ابو حفص عمر قضى.قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ يَعْنِي: الْبُخَارِيَّ: حَدَّثَنَا أَصْحَابُنَا، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: لَكِنْ أَبُو حَفْصٍ عُمَرُ قَضَى.
حضرت عبداللہ بن دینار سے روایت ہے، وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے (ایک بار) فرمایا: لیکن ابوحفص (سیدنا عمر رضی اللہ عنہ) نے (یہ) فیصلہ کیا۔