حدثنا خالد بن مخلد، قال: حدثنا سليمان بن بلال، قال: حدثنا سهيل، عن ابيه، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”رغم انفه، رغم انفه، رغم انفه“، قالوا: يا رسول الله من؟ قال: ”من ادرك والديه عند الكبر، او احدهما، فدخل النار.“حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلاَلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُهَيْلٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”رَغِمَ أَنْفُهُ، رَغِمَ أَنْفُهُ، رَغِمَ أَنْفُهُ“، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ مَنْ؟ قَالَ: ”مَنْ أَدْرَكَ وَالِدَيْهِ عِنْدَ الْكِبْرِ، أَوْ أَحَدَهُمَا، فَدَخَلَ النَّارَ.“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ آدمی ذلیل ہو، خوار ہو، رسوا ہو۔“ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا اور پھر (ان کی خدمت نہ کر کے) آگ میں چلا گیا۔“
حدثنا اصبغ بن الفرج قال: اخبرني ابن وهب، عن يحيى بن ايوب، عن زبان بن فائد، عن سهل بن معاذ، عن ابيه قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”من بر والديه طوبى له، زاد الله عز وجل في عمره.“حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الْفَرَجِ قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ بَرَّ وَالِدَيْهِ طُوبَى لَهُ، زَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي عُمْرِهِ.“
سیدنا معاذ (جہنی) رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص نے اپنے والدین سے حسن سلوک کیا اس کے لیے خوشخبری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی عمر بڑھا دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «ضعيف: أخرجه ابن وهب فى الجامع: 111 و الحاكم: 154/4 و أبويعلي: 1494 و الطبراني فى الكبير: 198/2»
حدثنا إسحاق، قال: اخبرنا علي بن حسين قال: حدثني ابي، عن يزيد النحوي، عن عكرمة، عن ابن عباس، في قوله عز وجل: ﴿إما يبلغن عندك الكبر احدهما او كلاهما فلا تقل لهما اف﴾ [الإسراء: 23] إلى قوله: ﴿كما ربياني صغيرا﴾ [الإسراء: 24] ، فنسختها الآية في براءة: ﴿ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين ولو كانوا اولي قربى من بعد ما تبين لهم انهم اصحاب الجحيم﴾ [التوبة: 113].حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلاَهُمَا فَلاَ تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ﴾ [الإسراء: 23] إِلَى قَوْلِهِ: ﴿كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا﴾ [الإسراء: 24] ، فَنَسَخَتْهَا الْآيَةُ فِي بَرَاءَةَ: ﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ﴾ [التوبة: 113].
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت کریمہ: «إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ٭ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا»[الاسراء: 23، 24]”اگر ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تیرے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اُف تک نہ کہہ اور انہیں مت جھڑک، اور ان سے بہت احترام والی (ادب و احترام سے) بات کر۔ اور ان کے سامنے رحم دلی سے عاجزی کے ساتھ اپنا بازو (پہلو) جھکائے رکھ اور کہہ: میرے رب ان دونوں پر رحم فرما جیسے انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔“ کے بارے میں فرمایا کہ اس آیت کو سورۂ براءت والی آیت: «مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ»[التوبة: 113]”نبی اور ایمان والوں کے لائق نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں خواہ وہ ان کے قریبی رشتہ دار ہی ہوں، ان کے متعلق یہ واضح ہو جانے کے بعد کہ وہ بلاشبہ دوزخی ہیں۔“ نے منسوخ کر دیا۔
تخریج الحدیث: «حسن: أخرجه الطبراني فى تفسيره: 421/17»
حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا إسرائيل، قال: حدثنا سماك، عن مصعب بن سعد، عن ابيه سعد بن ابي وقاص قال: نزلت في اربع آيات من كتاب الله تعالى: كانت امي حلفت ان لا تاكل ولا تشرب حتى افارق محمدا صلى الله عليه وسلم، فانزل الله عز وجل: ﴿وإن جاهداك على ان تشرك بي ما ليس لك به علم فلا تطعهما وصاحبهما في الدنيا معروفا﴾ [لقمان: 15]. والثانية: اني كنت اخذت سيفا اعجبني، فقلت: يا رسول الله، هب لي هذا، فنزلت: ﴿يسالونك عن الانفال﴾ [الانفال: 1]. والثالثة: اني مرضت فاتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إني اريد ان اقسم مالي، افاوصي بالنصف؟ فقال: ”لا“، فقلت: الثلث؟ فسكت، فكان الثلث بعده جائزا. والرابعة: إني شربت الخمر مع قوم من الانصار، فضرب رجل منهم انفي بلحي جمل، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فانزل عز وجل تحريم الخمر.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ: نَزَلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ مِنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالَى: كَانَتْ أُمِّي حَلَفَتْ أَنْ لاَ تَأْكُلَ وَلاَ تَشْرَبَ حَتَّى أُفَارِقَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: ﴿وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلاَ تُطُعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ [لقمان: 15]. وَالثَّانِيَةُ: أَنِّي كُنْتُ أَخَذْتُ سَيْفًا أَعْجَبَنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، هَبْ لِي هَذَا، فَنَزَلَتْ: ﴿يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ﴾ [الأنفال: 1]. وَالثَّالِثَةُ: أَنِّي مَرِضْتُ فَأَتَانِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَقْسِمَ مَالِي، أَفَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ فَقَالَ: ”لَا“، فَقُلْتُ: الثُّلُثُ؟ فَسَكَتَ، فَكَانَ الثُّلُثُ بَعْدَهُ جَائِزًا. وَالرَّابِعَةُ: إِنِّي شَرِبْتُ الْخَمْرَ مَعَ قَوْمٍ مِنَ الأَنْصَارِ، فَضَرَبَ رَجُلٌ مِنْهُمْ أَنْفِي بِلَحْيِ جَمَلٍ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ عَزَّ وَجَلَّ تَحْرِيمَ الْخَمْرِ.
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ: قرآن مجید کی چار آیات میرے بارے میں نازل ہوئیں۔ میری والدہ (جس نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) نے یہ قسم اٹھائی کہ میں اس وقت تک کھاؤں گی نہ پیوں گی جب تک میں (سعد) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں چھوڑتا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت نازل کی: «وَإِنْ جَاهَدَاكَ عَلَى أَنْ تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا»[لقمان: 15]”اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے علم نہیں، تو ان کی اطاعت نہ کرنا اور دنیا میں معروف طریقے سے ان دونوں سے اچھا سلوک کر۔“(مال غنیمت سے) مجھے ایک تلوار پسند آئی تو میں نے پکڑ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! یہ مجھے عنایت فرما دیں۔ تو یہ آیت نازل ہوئی: «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْأَنْفَالِ»[الأنفال: 1]”وہ آپ سے غنیمتوں کی بابت سوال کرتے ہیں۔“ میں بیمار پڑ گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس (تیمارداری کے لیے) تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اپنا مال تقسیم کرنا چاہتا ہوں، کیا نصف مال کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں“، میں نے کہا: تیسرے حصے کی وصیت کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس کے بعد تیسرے حصے کی وصیت جائز ہو گئی۔ میں نے انصار کے ایک گروہ کے ساتھ شراب پی تو ان میں سے ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی لے کر میری ناک پر دے ماری۔ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو اللہ تعالیٰ نے شراب کی حرمت نازل فرما دی۔
حدثنا الحميدي، قال: حدثنا ابن عيينة، قال: حدثنا هشام بن عروة قال: اخبرني ابي قال: اخبرتني اسماء بنت ابي بكر قالت: اتتني امي راغبة، في عهد النبي صلى الله عليه وسلم، فسالت النبي صلى الله عليه وسلم: اصلها؟ قال: ”نعم.“ قال ابن عيينة: فانزل الله عز وجل فيها: ﴿لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين﴾ [الممتحنة: 8].حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي قَالَ: أَخْبَرَتْنِي أَسْمَاءُ بِنْتُ أَبِي بَكْرٍ قَالَتْ: أَتَتْنِي أُمِّي رَاغِبَةً، فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَصِلُهَا؟ قَالَ: ”نَعَمْ.“ قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهَا: ﴿لاَ يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ﴾ [الممتحنة: 8].
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مشرکین مکہ سے) معاہدے کے دوران میں میری ماں (اپنے مشرکانہ عقائد پر قائم) میرے پاس (صلہ رحمی کی) خواہش مند ہو کر آئی، تو میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“، ابن عیینہ کہتے ہیں: اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «لَا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ»[الممتحنه: 8]”اللہ تمہیں ان لوگوں کی بابت نہیں روکتا جو تم سے دین پر نہیں لڑے ......۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الوالد المشرك: 5978، 2620 و مسلم: 1003 و أبوداؤد: 1668»
حدثنا موسى، قال: حدثنا عبد العزيز بن مسلم، عن عبد الله بن دينار قال: سمعت ابن عمر يقول: راى عمر رضي الله عنه حلة سيراء تباع فقال: يا رسول الله، ابتع هذه، فالبسها يوم الجمعة، وإذا جاءك الوفود، قال: ”إنما يلبس هذه من لا خلاق له“، فاتي النبي صلى الله عليه وسلم منها بحلل، فارسل إلى عمر بحلة، فقال: كيف البسها وقد قلت فيها ما قلت؟ قال: ”إني لم اعطكها لتلبسها، ولكن تبيعها او تكسوها“، فارسل بها عمر إلى اخ له من اهل مكة قبل ان يسلم.حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ دِينَارٍ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقُولُ: رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حُلَّةً سِيَرَاءَ تُبَاعُ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْتَعْ هَذِهِ، فَالْبَسْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَإِذَا جَاءَكَ الْوُفُودُ، قَالَ: ”إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لاَ خَلاَقَ لَهُ“، فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا بِحُلَلٍ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ، فَقَالَ: كَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ؟ قَالَ: ”إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهَا لِتَلْبَسَهَا، وَلَكِنْ تَبِيعَهَا أَوْ تَكْسُوَهَا“، فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلَى أَخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ریشمی جوڑا جسے سیراء کہا جاتا تھا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! آپ یہ جوڑا خرید لیں اور جمعہ کے روز زیب تن کر لیا کریں، اور جب آپ کے پاس (دوسرے علاقوں سے) وفود آتے ہیں تو بھی پہن لیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایسا (جوڑا) تو صرف وہی پہنتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی طرح کے جوڑے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک ریشمی جوڑا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں یہ (ریشمی جوڑا) کیسے پہنوں حالانکہ آپ اس سے قبل اس بارے میں یہ فرما چکے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلاشبہ یہ جوڑا میں نے تمہیں اس لیے نہیں دیا کہ تم اسے پہنو، بلکہ (اس لیے دیا ہے کہ) تم اسے فروخت کر لو یا پھر کسی کو پہنا دو۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہ (جوڑا) اپنے ایک بھائی کو، جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا، مکہ بھیج دیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب صلة الأخ المشرك: 5981 و مسلم: 2068، صحيح أبى داؤد: 987»
حدثنا محمد بن كثير، قال: اخبرنا سفيان قال: حدثني سعد بن إبراهيم، عن حميد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ”من الكبائر ان يشتم الرجل والديه“، فقالوا: كيف يشتم؟ قال: ”يشتم الرجل، فيشتم اباه وامه.“حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ قَالَ: حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مِنَ الْكَبَائِرِ أَنْ يَشْتِمَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ“، فَقَالُوا: كَيْفَ يَشْتِمُ؟ قَالَ: ”يَشْتِمُ الرَّجُلَ، فَيَشْتُمُ أَبَاهُ وَأُمَّهُ.“
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین کو گالی دے۔“ حاضرین نے عرض کیا: کوئی (اپنے ماں باپ کو) کس طرح گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(اس کی صورت یہ ہے کہ) وہ کسی آدمی کو گالی دیتا ہے اور وہ (جواباً) اس کے باپ اور ماں کو گالی دیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، الأدب، باب لا يسب الرجل والديه: 5973 و مسلم، الإيمان: 90 و أبوداؤد: 5141 و الترمذي: 1902»
حدثنا محمد بن سلام، قال: اخبرنا مخلد، قال: اخبرنا ابن جريج قال: سمعت محمد بن الحارث بن سفيان يزعم، ان عروة بن عياض اخبره، انه سمع عبد الله بن عمرو بن العاص يقول: من الكبائر عند الله تعالى ان يستسب الرجل لوالده.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَخْلَدٌ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ الْحَارِثِ بْنِ سُفْيَانَ يَزْعُمُ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ عِيَاضٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ يَقُولُ: مِنَ الْكَبَائِرِ عِنْدَ اللهِ تَعَالَى أَنْ يَسْتَسِبَّ الرَّجُلُ لِوَالِدِهِ.
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے ہاں کبیرہ گناہوں میں سے یہ بھی ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دلوانے کا سبب بنے۔
حدثنا عبد الله بن يزيد، قال: حدثنا عيينة بن عبد الرحمن، عن ابيه، عن ابي بكرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: ”ما من ذنب اجدر ان يعجل لصاحبه العقوبة مع ما يدخر له، من البغي وقطيعة الرحم.“حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ”مَا مِنْ ذَنْبٍ أَجْدَرُ أَنْ يُعَجَّلَ لِصَاحِبِهِ الْعُقُوبَةُ مَعَ مَا يُدَّخَرُ لَهُ، مِنَ الْبَغِيِّ وَقَطِيعَةِ الرَّحِمِ.“
سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ظلم اور قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں ہے جو اس بات کا زیادہ لائق ہو کہ کرنے والے کو دنیا میں بھی جلد سزا ملے اور آخرت میں بھی عذاب ہو۔“
تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه أبوداؤد، الأدب، باب النهي عن البغي: 4902 و الترمذي: 2511 و ابن ماجه: 4211، الصحيحة: 918، 978»
حدثنا الحسن بن بشر، قال: حدثنا الحكم بن عبد الملك، عن قتادة، عن الحسن، عن عمران بن حصين قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما تقولون في الزنا، وشرب الخمر، والسرقة؟“ قلنا: الله ورسوله اعلم، قال: ”هن الفواحش، وفيهن العقوبة، الا انبئكم باكبر الكبائر؟ الشرك بالله عز وجل، وعقوق الوالدين“، وكان متكئا فاحتفز قال: ”والزور.“حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَا تَقُولُونَ فِي الزِّنَا، وَشُرْبِ الْخَمْرِ، وَالسَّرِقَةِ؟“ قُلْنَا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ”هُنَّ الْفَوَاحِشُ، وَفِيهِنَّ الْعُقُوبَةُ، أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِأَكْبَرِ الْكَبَائِرِ؟ الشِّرْكُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ“، وَكَانَ مُتَّكِئًا فَاحْتَفَزَ قَالَ: ”وَالزُّورُ.“
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم زنا، شراب پینے اور چوری کے متعلق کیا کہتے ہو؟“ ہم نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نہایت ہی برے اور گھٹیا کام ہیں، اور ان میں سزائیں بھی ہیں۔ “(اور)”کیا میں تمہیں بڑے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟“(فرمایا وہ یہ ہیں:)”اللہ عزوجل کے ساتھ شرک کرنا، اور والدین کی نافرمانی کرنا۔“ آپ تکیہ لگا کر بیٹھے تھے، پھر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے، فرمایا: ”اور جھوٹ (بھی بہت بڑا گناہ ہے۔)“
تخریج الحدیث: «ضعيف: رواه المروزي فى البر والصلة: 105 و الطبراني فى الكبير: 140/18 و البيهقي فى الكبرىٰ: 209/8، غاية المرام: 277»