سیدنا عروہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے میرے بھانجے! لوگوں کو حکم ہوا تھا کہ وہ صحابہ کے لئے بخشش مانگیں لیکن انہوں نے ان کو برا کہا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنات کو قرآن نہیں سنایا اور ان کو دیکھا بھی نہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ اس زمانہ میں عکاظ کے بازار گئے جب کہ شیطانوں پر آسمانی دروازے بند ہو گئے تھے اور ان پر آگ کے شعلے برسائے جا رہے تھے۔ چنانچہ شیطانوں کے ایک گروہ نے اپنے لوگوں میں جا کر کہا کہ ہمارا آسمان پر جانا بند ہو گیا اور ہم پر آگ کے شعلے برسنے لگے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کا سبب ضرور کوئی نیا امر ہے، تو مشرق و مغرب کی طرف پھر کر خبر لو اور دیکھو کہ کیا وجہ ہے جو آسمان کی خبریں آنا بند ہو گئیں۔ وہ زمین میں مشرق و مغرب کی طرف پھرنے لگے۔ ان میں سے کچھ لوگ تہامہ (ملک حجاز) کی طرف عکاظ کے بازار کو جانے کے لئے آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت (مقام) نخل میں اپنے اصحاب کو فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ جب انہوں نے قرآن سنا تو ادھر کان لگا دیئے اور کہنے لگے کہ آسمان کی خبریں موقوف ہونے کا یہی سبب ہے۔ پھر وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ کر گئے اور کہنے لگے کہ اے ہماری قوم کے لوگو! ”ہم نے ایک عجب قرآن سنا ہے جو سچی راہ کی طرف لے جاتا ہے، پس ہم اس پر ایمان لائے اور ہم کبھی اللہ کے ساتھ شریک نہ کریں گے“ تب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الجن اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری کہ ”اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دو کہ میری طرف وحی کی گئی کہ جنوں کی ایک جماعت نے قرآن سنا“۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے قول ’ اپنی زبان کو جلدی کے ساتھ یاد کرنے کے لئے نہ ہلائیے“ کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس کا واقعہ یہ ہے کہ نزول قرآن کریم کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تنگی محسوس کرتے تھے، اس لئے اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے۔ سعید نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھ سے کہا کہ میں تمہارے لئے ہونٹ ہلاتا ہوں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونٹ ہلاتے تھے پس سعید نے کہا کہ جس طرح سیدنا ابن عباس اپنے ہونٹ ہلا رہے تھے میں بھی اسی طرح اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں تب اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا کہ ”آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جلدی سے یاد کرنے کے لئے اپنی زبان نہ ہلائیے، بلکہ تحقیق اس کا اکٹھا کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے“ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں جمع کرنا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پڑھیں۔ (یعنی نزول وحی کے وقت) آپ خاموشی اور غور سے سنیں، پھر اسے پڑھانا ہمارے ذمہ ہے۔ اس حکم الٰہی کے بعد جب جبرائیل وحی لاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے الفاظ بہ خاموشی سنتے رہتے اور ان کی روانگی کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہی الفاظ دہرا دیتے جو جبرائیل علیہ السلام کہہ جاتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت ”جس دن لوگ پروردگار عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے“ کی تفسیر میں فرمایا کہ بعض لوگ اپنے پسینے میں ڈوبے کھڑے ہوں گے جو دونوں کانوں کے نصف تک ہو گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص سے قیامت کے دن حساب ہو گا، اس کو عذاب ہو گا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے ”پھر عنقریب حساب کیا جائے گا آسانی سے اور وہ اپنے گھر والوں میں خوش ہو کر لوٹ جائے گا“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حساب و کتاب نہیں ہے، یہ تو صرف اعمال کی پیشی ہے۔ جس سے قیامت کے دن حساب میں تفتیش کی گئی اس کو عذاب ہو گا۔
سیدنا علقمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم شام کو گئے تو سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ ہمارے پاس آئے اور کہا کہ تم میں کوئی سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی قرآت پڑھنے والا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں! میں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ تم اس آیت ((واللیل اذا یغشٰی)) کو کیسے پڑھتے ہو؟ میں نے کہا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اس طرح پڑھتے تھے ((واللیل اذا یغشٰی والذکر والانثٰی)) انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یونہی پڑھتے سنا ہے اور یہاں کے لوگ چاہتے ہیں کہ میں پڑھوں کہ ((وما خلق الذکر والانثٰی)) تو میں ان کی نہیں مانتا۔
اسود بن قیس کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جندب بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو دو تین رات تک نہیں اٹھے پھر ایک عورت (عوراء بنت حرب، ابوسفیان کی بہن ابولہب کی بیوی حمالۃ الحطب) آئی اور کہنے لگی کہ اے محمد! میں سمجھتی ہوں کہ تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے (یہ اس شیطاننی نے ہنسی سے کہا) کیونکہ میں دیکھتی ہوں کہ دو تین رات سے تمہارے پاس نہیں آیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری ”قسم ہے روز روشن کی اور رات کی جب کہ وہ سکون کے ساتھ چھا جائے، تمہارے رب نے نہ تمہیں چھوڑا ہے اور نہ وہ ناراض ہوا ہے“۔
سیدنا عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پڑھ رہے تھے کہ ”ہلاکت میں ڈال دیا تمہیں زیادہ سے زیادہ (مال) حاصل کرنے (کی خواہش) نے“۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی کہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال، اور اے آدمی! تیرا مال کیا ہے؟ تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھایا اور فنا کیا، یا پہنا اور پرانا کیا یا صدقہ دیا اور جاری کیا (قیامت کے لئے روانہ کیا)۔
سیدنا عبیداللہ بن عتبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ تو جانتا ہے کہ قرآن کی یکبارگی مکمل نازل ہونے والی آخری سورت کون سی ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں! وہ یہ سورت ”جب اللہ تعالیٰ کی مدد آ جائے اور فتح آ جائے“ ہے انہوں نے کہا کہ تو نے سچ کہا۔