ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو رات کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحمت کرے، اس نے مجھے فلاں آیت یاد دلا دی جس کو میں فلاں سورۃ سے چھوڑ دیتا تھا۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ سورۃ الفرقان اس طریقہ کے علاوہ پڑھ رہے تھے جس طریقہ پر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھائی پس میں قریب تھا کہ ان کو جلد پکڑ لوں مگر میں نے انہیں مہلت دی، یہاں تک کہ وہ پڑھ چکے۔ پھر میں ان کی چادر ان کے گلے میں ڈال کر کھینچتے ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک لایا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے انہیں سورۃ الفرقان سنی اس طریقے کے خلاف جیسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھائی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ان کو چھوڑ دو اور ان سے کہا کہ پڑھو۔ انہوں نے ویسا ہی پڑھا جیسا میں نے ان سے پہلے سنا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سورۃ ایسے ہی اتری ہے۔ پھر مجھ سے کہا کہ پڑھو۔ میں نے بھی پڑھی (یعنی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پڑھائی تھی)، تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسے ہی اتری ہے اور فرمایا کہ قرآن سات حرفوں پر اترا ہے، اس میں سے جو تمہیں آسان ہو اس طرح پڑھو۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ (اور یہ سب قاریوں کے سردار ہیں) اللہ عزت والے اور بزرگی والے نے مجھے حکم کیا کہ میں تمہارے آگے سورۃ ((لم یکن الّذین کفروا ....)) پڑھوں۔ انہوں نے عرض کیا کہ کیا اللہ جل جلالہ نے میرا نام لیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں (اللہ تعالیٰ نے میرے آگے تمہارا نام لیا ہے) تو سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (خوشی سے) رونے لگے۔
عامر الشعبی کہتے ہیں کہ میں نے علقمہ سے پوچھا کہ کیا لیلۃالجن میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے؟ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے پوچھا تھا کیا لیلۃالجن میں تم میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا؟ (یعنی جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں سے ملاقات فرمائی) انہوں نے کہا کہ نہیں، لیکن ایک روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گم پایا۔ پس ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہاڑ کی وادیوں اور گھاٹیوں میں تلاش کیا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ملے۔ ہم سمجھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جن اڑا لے گئے یا کسی نے چپکے سے مار ڈالا اور رات ہم نے نہایت برے طور سے بسر کی۔ جب صبح ہوئی تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حراء (جبل نور پہاڑ ہے جو مکہ اور منیٰ کے درمیان میں ہے) کی طرف سے آ رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! رات کو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گم پایا اور جب تلاش کے باوجود بھی آپ نہ ملے تو آخر ہم نے (آپ کے بغیر) بہت برے طور سے رات گزاری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جنوں کی طرف سے ایک بلانے والا آیا تو میں اس کے ساتھ چلا گیا اور جنوں کو قرآن سنایا۔ پھر آپ ہمیں اپنے ساتھ لے گئے اور ان کے نشان اور ان کے انگاروں کے نشان بتلائے۔ جنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زادراہ چاہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جانور کی ہر ہڈی جو اللہ کے نام پر کاٹا جائے، وہ تمہاری خوراک ہے۔ تمہارے ہاتھ میں پڑتے ہی وہ گوشت سے پر ہو جائے گی اور ہر ایک اونٹ کی مینگنی تمہارے جانوروں کی خوراک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہڈی اور مینگنی سے استنجاء مت کرو، کیونکہ وہ تمہارے بھائی جنوں (اور ان کے جانوروں) کی خوراک ہے۔
معن کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے مسروق سے پوچھا کہ جس رات جنوں نے آ کر قرآن سنا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر کس نے دی؟ انہوں نے کہا کہ مجھ سے تمہارے باپ (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما) نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنوں کے آنے کی خبر درخت نے دی تھی۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ تم میرے سامنے قرآن پڑھو۔ میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے قرآن پڑھوں؟ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر تو اترا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں اور سے سنوں۔ پھر میں نے سورۃ نساء پڑھی، یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا ((فکیف اذا جئنا))(النساء: 41) تو میں نے سر اٹھایا یا مجھے کسی نے چٹکی لی تو میں نے سر اٹھایا اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنسو بہہ رہے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں حمص میں تھا کہ لوگوں نے مجھ سے قرآن سنانے کو کہا۔ میں نے سورۃ یوسف پڑھی۔ ایک شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم! ایسا نہیں اترا۔ میں نے کہا کہ تیری خرابی ہو، اللہ کی قسم! میں نے تو یہ سورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پڑھی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے خوب پڑھا۔ غرض میں اس سے بات کر ہی رہا تھا کہ میں نے اس سے شراب کی بو پائی۔ میں نے کہا کہ تو شراب پیتا ہے اور اللہ کی کتاب کو جھٹلاتا ہے؟ تو جانے نہ پائے گا جب تک میں تجھے حد نہ مار لوں گا۔ پھر میں نے اسے (شراب کی حد کے) کوڑے مارے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک دن میں صبح سویرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو آدمیوں کی آواز سنی جو ایک آیت کے بارے میں جھگڑ رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصہ معلوم ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے لوگ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں جھگڑا کرنے کی وجہ سے تباہ ہوئے (جو نفسانیت اور فساد کی نیت سے ہو یا لوگوں کو بہکانے کے لئے۔ لیکن مطلب کی تحقیق کے لئے اور دین کے احکام نکالنے کے لئے درست ہے۔ نووی)۔
سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن اس وقت تک پڑھو جب تک تمہارے دل تمہاری زبان سے موافقت کریں اور جب تمہارے دل اور زبان میں اختلاف پڑے، تو اٹھ کھڑے ہو۔