سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس دن جہنم لائی جائے گی، اس کی ستر ہزار باگیں ہوں گی، اور ایک باگ کو ستر ہزار فرشتے ہوں گے جو اس کو کھینچ رہے ہوں گے (تو کل فرشتے جو جہنم کو کھینچ کر لائیں گے چار ارب نوے کروڑ ہوئے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہاری آگ جس کو آدمی روشن کرتا ہے، جہنم کی آگ کے ستر حصوں میں سے ایک حصہ ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! یہی آگ (جلانے کو) کافی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ تو اس سے انہتر حصے زیادہ گرم ہے اور ہر حصہ میں اتنی ہی گرمی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے ایک دھماکے کی آواز آئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ یہ کیا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم خوب جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایک پتھر ہے، جو جہنم میں ستر برس پہلے پھینکا گیا تھا۔ وہ جا رہا تھا، اب اس کی تہہ میں پہنچا ہے (معاذاللہ جہنم اتنی گہری ہے کہ اس کی چوٹی سے تہہ تک ستر برس کی راہ ہے اور وہ بھی اس تیز حرکت سے جیسے پتھر اوپر سے نیچے کو گرتا ہے)۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے ہلکا عذاب اس کو ہو گا (جس سے) جو دو جوتیاں اور دو تسمے آگ کے پہنے ہو گا اس کا بھیجا اس طرح ابلے گا جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے۔ وہ سمجھے گا کہ اس سے زیادہ سخت عذاب کسی کو نہیں ہوا حالانکہ اس کو سب سے ہلکا عذاب ہو گا۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بعض کو جہنم کی آگ ٹخنوں تک پکڑے گی اور بعض کو گھٹنوں تک اور بعض کو کمربند تک اور بعض کو گردن کے نچلے حصے تک۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت اور دوزخ نے بحث کی۔ دوزخ نے کہا کہ مجھ میں وہ لوگ آئیں گے جو متکبر اور زور والے ہیں اور جنت نے کہا کہ مجھے کیا ہوا کہ مجھ میں وہی لوگ آئیں گے جو لوگوں میں ناتواں ہیں اور ان میں (دنیا کے لحاظ) سے گرے پڑے ہیں اور عاجز ہیں (یعنی اکثر یہی لوگ ہوں گے)، تب اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا کہ تو میری رحمت ہے، میں تیرے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہوں گا رحمت کروں گا اور دوزخ سے فرمایا کہ تو میرا عذاب ہے، میں تیرے ساتھ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہوں گا عذاب کروں گا اور تم دونوں بھری جاؤ گی۔ پس دوزخ اس وقت نہ بھرے گی (اور سیر نہ ہو گی) جب تک اللہ تعالیٰ اس میں اپنا پاؤں رکھ دے گا۔ وہ کہے گی کہ بس بس، تب بھر جائے گی اور بعض حصے بعض سے سمٹ جائیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ اپنی مخلوقات میں سے کسی پر ظلم نہ کرے گا اور جنت کے لئے دوسری مخلوق پیدا کرے گا۔
ابن شہاب کہتے ہیں کہ میں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ کہتے تھے کہ بحیرہ وہ جانور ہے جس کا دودھ دوہنا بتوں کے لئے موقوف کیا جاتا کہ کوئی آدمی اس جانور کا دودھ نہ دوھ سکتا تھا، اور سائبہ وہ ہے جس کو اپنے معبودوں کے نام پر چھوڑ دیتے تھے کہ اس پر کوئی بوجھ نہ لادتے تھے۔ اور ابن مسیب نے کہا کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے عمرو بن عامر خزاعی کو دیکھا کہ وہ اپنی آنتیں جہنم میں کھینچ رہا تھا اور سب سے پہلے سائبہ اسی نے نکالا تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر کا دانت یا اس کی کچلی احد پہاڑ کے برابر ہو گی اور اس کی کھال کی موٹائی تین دن کی مسافت ہو گی (یعنی تین دن تک چلنے کی مسافت پر اس کی کھال کی بدبو پہنچے یا اس کی موٹائی اتنی ہو گی جتنا تین دن میں سفر کیا جائے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کافر کے دونوں کندھوں کے بیچ میں تیز رو سوار کے تین دن کی مسافت ہو گی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوزخیوں کی دو قسمیں ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا۔ ایک تو وہ لوگ جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کے کوڑے ہیں، وہ لوگوں کو اس سے مارتے ہیں دوسرے وہ عورتیں جو پہنتی ہیں مگر ننگی ہیں (یعنی ستر کے لائق لباس نہیں ہیں)، سیدھی راہ سے بہکانے والی، خود بہکنے والی اور ان کے سر بختی (اونٹ کی ایک قسم ہے) اونٹ کی کوہان کی طرح ایک طرف جھکے ہوئے وہ جنت میں نہ جائیں گی بلکہ اس کی خوشبو بھی ان کو نہ ملے گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی دور سے آ رہی ہو گی۔