سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے سونے کی حالت میں دیکھا کہ لوگ میرے سامنے لائے جاتے ہیں اور وہ کرتے پہنے ہوئے ہیں۔ بعض کے کرتے چھاتی تک ہیں اور بعض کے اس کے نیچے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نکلے تو وہ اتنا نیچا کرتہ پہنے ہوئے تھے جو کہ زمین پر گھسٹتا جاتا تھا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دین۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور سوتے میں ایک پیالہ میرے سامنے لایا گیا جس میں دودھ تھا۔ میں نے اس میں سے پیا یہاں تک کہ تازگی اور سیرابی میرے ناخنوں سے نکلنے لگی۔ پھر جو بچا وہ میں نے عمر بن خطاب کو دیدیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس کی تعبیر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو ایک کنوئیں پر دیکھا کہ اس پر ڈول پڑا ہوا ہے۔ پس میں نے اس ڈول سے پانی کھینچا جتنا کہ اللہ نے چاہا۔ پھر اس کو ابوقحافہ کے بیٹے یعنی صدیق اکبر نے لیا اور ایک یا دو ڈول نکالے اور ان کے کھینچنے میں کمزوری تھی اللہ تعالیٰ ان کو بخشے۔ پھر وہ ڈول پل یعنی بڑا ڈول ہو گیا اور اس کو عمر بن خطاب نے لیا، تو میں نے لوگوں میں ایسا سردار شہ زور نہیں دیکھا جو عمر کی طرح پانی کھینچتا ہو۔ انہوں نے اس کثرت سے پانی نکالا کہ لوگ اپنے اپنے اونٹوں کو سیراب کر کے آرام کی جگہ لے گئے۔ (علماء نے بیان کیا ہے کہ اس خواب میں آپ کے بعد ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کی تمثیل و بشارت اور حالات کی پیشن گوئی ہے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں سو رہا تھا اور میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا۔ وہاں ایک عورت ایک محل کے کونے میں وضو کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ (فرشتے) بولے کہ عمر بن خطاب کا۔ یہ سن کر مجھے اس کی غیرت کا خیال آیا اور میں پیٹھ موڑ کر لوٹ آیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب یہ سنا تو رو دیئے اور ہم سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجلس میں تھے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں یا رسول اللہ! کیا میں آپ پر غیرت کروں گا؟
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت مانگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت قریش کی عورتیں بیٹھی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کر رہی تھیں اور بہت باتیں کر رہی تھیں اور ان کی آوازیں بلند تھیں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آواز دی تو اٹھ کر چھپنے کے لئے دوڑیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہنستا رکھے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ان عورتوں پر تعجب ہوا جو میرے پاس بیٹھی تھیں، تمہاری آواز سنتے ہی پردے میں بھاگ گئیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ڈرنا چاہئے پھر ان عورتوں سے کہا کہ اے اپنی جان کی دشمنو! تم مجھ سے ڈرتی ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہ نسبت سخت ہو اور غصیلے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ شیطان جب تمہیں کسی راہ میں چلتا ہوا ملتا ہے تو اس راہ کو جس میں تم چلتے ہو چھوڑ کر دوسری راہ میں چلا جاتا ہے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے اگلی امتوں میں ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جو ”محدث“(جن کی رائے ٹھیک ہوتی، گمان صحیح ہوتا یا فرشتے ان کو الہام کرتے) میری امت میں اگر ایسا کوئی ہو تو عمر بن الخطاب ہوں گے۔ ابن وہب نے کہا کہ محدثون کا معنی ”الہام والے“ ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تین باتوں میں اپنے رب کے موافق ہوا۔ ایک مقام ابراہیم میں نماز پڑھنے میں (جب میں نے رائے دی کہ یا رسول اللہ! آپ اس جگہ کو جائے نماز بنائیے تو ویسا ہی قرآن میں اترا) اور دوسرے عورتوں کے پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول مشہور منافق مرا تو اس کا بیٹا عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن ابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کرتہ میرے باپ کے کفن کے لئے دے دیجئیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیدیا۔ پھر اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز جنازہ پڑھا دیجئیے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھنے کو کھڑے ہوئے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا تھاما اور فرمایا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختیار دیا ہے کہ ”تو ان کے لئے دعا کرے یا نہ کرے، اگر ستر بار بھی دعا کرے گا تو بھی اللہ تعالیٰ ان کو نہیں بخشے گا“(التوبہ: 80) تو میں ستر بار سے زیادہ دعا کروں گا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک وہ منافق تھا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی۔ تب یہ آیت اتری کہ ”مت نماز پڑھ کسی منافق پر جو مر جائے اور مت کھڑا ہو اس کی قبر پر“(التوبہ: 84)۔ (تو اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں لیٹے ہوئے تھے، رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے کہ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو انہیں بھی اسی حالت میں اجازت دے دی اور باتیں کرتے رہے۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور کپڑے برابر کر لئے۔ پھر وہ آئے اور باتیں کیں۔ (راوی محمد کہتا ہے کہ میں نہیں کہتا کہ تینوں کا آنا ایک ہی دن ہوا) جب وہ چلے گئے تو ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ خیال نہ کیا، پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کر لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں اس شخص سے شرم نہ کروں جس سے فرشتے شرم کرتے ہیں؟
سعید بن مسیب کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر باہر نکلے۔ سیدنا ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آج میں دن بھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ چھوڑوں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہوں گا۔ کہتے ہیں کہ پھر مسجد میں آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا۔ لوگوں نے کہا کہ باہر اس طرف تشریف لے گئے ہیں۔ میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے نشان پر چلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لوگوں سے پوچھتا جاتا تھا۔ چلتے چلتے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام اریس پر باغ میں گئے ہیں۔ میں دروازے کے قریب بیٹھ گیا جو کھجور کی ڈالیوں کا بنا ہوا تھا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حاجت سے فارغ ہوئے اور وضو کر چکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف چل دیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اریس کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھے ہیں اور دونوں پنڈلیاں کھول کر کنوئیں میں لٹکا دی ہیں۔ پس میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا اور پھر لوٹ کر دروازے کے قریب بیٹھ گیا۔ میں نے (دل میں) کہا کہ میں آج نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دربان / چوکیدار رہوں گا۔ اتنے میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور دروازے کو دھکیلا۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابوبکر ہوں، میں نے کہا ذرا ٹھہرو۔ پھر میں گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ! ابوبکر اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو آنے دو اور جنت کی خوشخبری دو۔ میں آیا اور سیدنا ابوبکر سے کہا کہ اندر داخل ہو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس سیدنا ابوبکر داخل ہوئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی داہنی طرف اسی منڈیر پر دونوں پاؤں لٹکا کر پنڈلیاں کھول کر جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے تھے، بیٹھ گئے۔ میں لوٹ آیا اور پھر بیٹھ گیا اور میں اپنے بھائی (عامر) کو گھر میں وضو کرتے چھوڑ آیا تھا، میں نے کہا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو فلاں (یعنی) میرے بھائی کی بھلائی منظور ہے تو اس کو یہاں لے آئے گا۔ اتنے میں (کیا دیکھتا ہوں کہ) کوئی دروازہ ہلانے لگا ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ جواب آیا کہ عمر بن خطاب۔ میں نے کہا ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، سلام کیا اور کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب اندر آنے کی اجازت چاہتے ہیں؟ فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری بھی دو۔ پس میں گیا اور کہا کہ اندر داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف اسی منڈیر پر بیٹھ گئے اور دونوں پاؤں کنوئیں میں لٹکا دئیے۔ پھر میں لوٹ آیا اور (دروازے پر) بیٹھ گیا۔ میں نے کہا کہ اگر اللہ کو فلاں آدمی (عامر) کی بھلائی منظور ہے تو اس کو بھی لے آئے گا۔ اتنے میں ایک اور آدمی نے دروازہ ہلایا۔ میں نے کہا کہ کون ہے؟ جواب دیا کہ عثمان بن عفان۔ میں نے کہا کہ ٹھہر جا۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں اجازت دو اور جنت کی خوشخبری دو مگر وہ ایک مصیبت میں مبتلا ہوں گے۔ میں آیا اور ان سے کہا کہ داخل ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے جنت کی خوشخبری دی ہے مگر ایک بلا کے ساتھ جو تم پر آئے گی۔ پس وہ بھی داخل ہوئے اور دیکھا کہ منڈیر کا ایک حصہ بھر گیا ہے، پس وہ دوسرے کنارے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئے۔ شریک نے کہا کہ سعید بن مسیب نے کہا کہ میں نے اس حدیث سے یہ نکالا کہ ان کی قبریں بھی اسی طرح ہوں گی۔ (ویسا ہی ہوا کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو اس حجرہ میں جگہ نہ ملی، تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بقیع میں دفن ہوئے)۔