سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ اسے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم فرمایا اور فرمایا کہ سانپوں کو اور کتوں کو مار ڈالو۔ اور دودھاری سانپ کو اور دم کٹے کو بھی مار ڈالو، کیونکہ یہ دونوں بینائی کھو دیتے ہیں اور حمل والیوں کا حمل گرا دیتے ہیں۔ زہری نے کہا کہ کہ شاید ان کے زہر میں یہ تاثیر ہو گی۔ سالم نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں جو سانپ دیکھتا ہوں اس کو فوراً مار ڈالتا ہوں۔ ایک بار میں گھر کے سانپوں میں سے ایک سانپ کا پیچھا کر رہا تھا کہ زید بن خطاب یا ابولبابہ رضی اللہ عنہ میرے سامنے سے گزرے اور میں اس کا پیچھا کر رہا تھا، انہوں نے کہا کہ اے عبداللہ ٹھہرو! میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سانپوں کے مار ڈالنے کا حکم کیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے سانپ مارنے سے منع کیا ہے۔ (یعنی جن سانپوں میں زہر نہیں ہوتا اور وہ گھروں میں رہتے ہیں یا بعض اوقات شیاطین کی شکل میں رہتے ہیں، ان کے قتل سے دوسرے شیاطین نقصان پہنچاتے ہیں جس کا ذکر اگلی حدیث میں وضاحت سے ہے)۔
ابوسائب مولیٰ ہشام بن زہرہ سے روایت ہے کہ وہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گئے۔ ابوسائب نے کہا کہ میں نے ان کو نماز میں پایا تو بیٹھ گیا۔ میں نماز پڑھ چکنے کا منتظر تھا کہ اتنے میں ان لکڑیوں میں کچھ حرکت کی آواز آئی جو گھر کے کونے میں رکھی تھیں۔ میں نے ادھر دیکھا تو ایک سانپ تھا۔ میں اس کے مارنے کو دوڑا تو سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اشارہ کیا کہ بیٹھ جا۔ میں بیٹھ گیا جب نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے ایک کوٹھری دکھاتے ہوئے پوچھا کہ یہ کوٹھڑی دیکھتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہاں، انہوں نے کہا کہ اس میں ہم لوگوں میں سے ایک جوان رہتا تھا، جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق کی طرف نکلے۔ وہ جوان دوپہر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے کر گھر آیا کرتا تھا۔ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہتھیار لے کر جا کیونکہ مجھے بنی قریظہ کا ڈر ہے (جنہوں نے دغابازی کی تھی اور موقع دیکھ کر مشرکوں کی طرف ہو گئے تھے)۔ اس شخص نے اپنے ہتھیار لے لئے۔ جب اپنے گھر پر پہنچا تو اس نے اپنی بیوی کو دیکھا کہ دروازے کے دونوں پٹوں کے درمیان کھڑی ہے۔ اس نے غیرت سے اپنا نیزہ اسے مارنے کو اٹھایا تو عورت نے کہا کہ اپنا نیزہ سنبھال اور اندر جا کر دیکھ تو معلوم ہو گا کہ میں کیوں نکلی ہوں۔ وہ جوان اندر گیا تو دیکھا کہ ایک بڑا سانپ کنڈلی مارے ہوئے بچھونے پر بیٹھا ہے۔ جوان نے اس پر نیزہ اٹھایا اور اسے نیزہ میں پرو لیا، پھر نکلا اور نیزہ گھر میں گاڑ دیا۔ وہ سانپ اس پر لوٹا اس کے بعد ہم نہیں جانتے کہ سانپ پہلے مرا یا جوان پہلے شہید ہوا۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سارا قصہ بیان کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ اس جوان کو پھر جلا دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے ساتھی کے لئے بخشش کی دعا کرو۔ پھر فرمایا کہ مدینہ میں جن رہتے ہیں جو مسلمان ہو گئے ہیں، پھر اگر تم سانپوں کو دیکھو تو تین دن تک ان کو خبردار کرو، اگر تین دن کے بعد بھی نہ نکلیں تو ان کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہیں (یعنی کافر جن ہیں یا شریر سانپ ہیں)۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غار میں تھے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سورۃ ”والمرسلات عرفًا“ اتری تھی۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے تازی تازی یہ سورت سن رہے تھے کہ اتنے میں ایک سانپ نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو مار ڈالو۔ ہم اس کے مارنے کو لپکے تو وہ ہم سے سبقت لے گیا (یعنی چھپ گیا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارے ہاتھ سے بچایا جیسا کہ تمہیں اس کے شر سے بچایا۔
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور اس کا نام فویسق رکھا (یعنی چھوٹا فاسق)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص گرگٹ کو پہلی مار میں مارے، اس کو اتنا ثواب ہے اور جو دوسری مار میں مارے، اس کو اتنا ثواب ہے لیکن پہلی بار سے کم اور جو تیسری مار میں مارے، اس کو اتنا ثواب ہے لیکن دوسری بار سے کم۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص گرگٹ کو پہلی مار میں مارے اس کی سو نیکیاں لکھی جائیں گی اور جو دوسری مار میں مارے، اس کو اس سے کم اور جو تیسری مار میں مارے، اس کو اس سے کم۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر ایک درخت کے نیچے اترے، ان کو ایک چیونٹی نے کاٹا تو ان کے حکم سے چیونٹیوں کا چھتہ نکالا گیا پھر انہوں نے حکم دیا تو وہ جلا دیا گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان کو وحی بھیجی کہ ایک چیونٹی کو (جس نے کاٹا تھا) تو نے سزا دی ہوتی (دوسری چیونٹیوں کا کیا قصور تھا)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا۔ اس نے بلی کو پکڑے رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی، پھر اسی بلی کی وجہ سے وہ جہنم میں گئی۔ جب اس نے بلی کو قید میں رکھا تو نہ کھانا دیا، نہ پانی اور نہ اس کو چھوڑا کہ وہ زمین کے جانور کھاتی (اس نے بلی کو تڑپا تڑپا کر مارا تھا اس لئے جہنم میں گئی)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل کا ایک گروہ گم ہو گیا تھا، معلوم نہ ہوا کہ وہ کہاں گیا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گروہ چوہے ہیں (مسخ ہو کر)۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جب چوہوں کے لئے اونٹ کا دودھ رکھا جائے تو وہ نہیں پیتے اور جب بکری کا دودھ رکھو تو پی لیتے ہیں (گویا قرینہ یہ ہے کہ چوہے وہ بنی اسرائیل کے لوگ ہوں جو مسخ ہوئے تھے اگرچہ وہ زندہ نہ رہے ہوں اس لئے کہ بنی اسرائیل کی شریعت میں اونٹ کا گوشت اور اونٹ کا دودھ حرام تھا) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے یہ حدیث سیدنا کعب سے بیان کی تو انہوں نے کہا کہ تم نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ پھر انہوں نے کئی بار پوچھا، تو میں نے کہا کہ کیا میں تورات پڑھتا ہوں؟ (جو اس میں دیکھ کر یہ روایت میں نے حاصل کی ہو میرا تو سارا علم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے) ایک دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ کیا مجھ پر تورات نازل ہوتی ہے (جس سے پڑھ کر میں تمہیں بتاتا ہوں)؟
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص راہ میں بہت پیاس کی حالت میں جا رہا تھا کہ اسے ایک کنواں ملا۔ وہ اس میں اترا اور پانی پی لیا۔ پھر نکلا تو ایک کتے کو دیکھا کہ اس نے (پیاس کی وجہ سے) اپنی زبان نکالی ہوئی ہے اور ہانپ رہا ہے اور گیلی مٹی چاٹ رہا ہے۔ وہ شخص بولا کہ اس کتے کا یہ حال پیاس کے مارے ویسا ہی ہے جیسا میرا حال تھا۔ پھر وہ کنوئیں میں اترا اور اپنے موزے میں پانی بھرا، اور موزہ منہ میں لے کر اوپر چڑھا اور وہ پانی کتے کو پلایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ نیکی قبول کی اور اس کو بخش دیا۔ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمیں ان جانوروں کو کھلانے اور پلانے میں بھی ثواب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر تازے جگر والے میں ثواب ہے (یہ اس لئے کہا کہ مرے ہوئے حیوان کا جسم اور جگر خشک ہو جاتا ہے)