ابواسحاق کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میرے باپ (عازب) کے مکان پر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا اور بولے کہ تم اپنے بیٹے سے کہو کہ یہ کجاوہ اٹھا کر میرے ساتھ میرے مکان تک لے چلے۔ میرے والد نے مجھ سے کہا کہ کجاوہ اٹھا لے۔ میں نے اٹھا لیا اور میرے والد بھی سیدنا ابوبکر کے ساتھ اس کی قیمت لینے کو نکلے میرے باپ نے کہا کہ اے ابوبکر! تم نے اس رات کو کیا کیا جس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے (یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض سے چلے) سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم ساری رات چلتے رہے یہاں تک کہ دن ہو گیا اور ٹھیک دوپہر کا وقت ہو گیا کہ راہ میں کوئی چلنے والا نہ رہا۔ ہمیں سامنے ایک بڑی چٹان دکھائی دی جس کا سایہ زمین پر تھا اور وہاں دھوپ نہ آئی تھی، ہم اس کے پاس اترے۔ میں پتھر کے پاس گیا اور اپنے ہاتھ سے جگہ برابر کی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سایہ میں آرام فرمائیں، پھر میں نے وہاں کملی (چادر) بچھائی اور اس کے بعد عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ سو جائیے، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد سب طرف دشمن کا کھوج لیتا ہوں (کہ کوئی ہماری تلاش میں تو نہیں آیا)۔ پھر میں نے بکریوں کا ایک چرواہا دیکھا جو اپنی بکریاں لئے ہوئے اسی پتھر کی طرف اس ارادے سے جس ارادے سے ہم آئے تھے (یعنی اس کے سایہ میں ٹھہرنا اور آرام کرنا) آ رہا تھا۔ میں اس سے ملا اور پوچھا کہ اے لڑکے تو کس کا غلام ہے؟ وہ بولا کہ میں مدینہ (شہر یعنی مکہ) والوں میں سے ایک شخص کا غلام ہوں۔ میں نے کہا کہ تیری بکریاں دودھ ولی ہیں؟ وہ بولا ہاں۔ میں نے کہا کہ تو ہمیں دودھ دے گا؟ وہ بولا ہاں۔ پھر وہ ایک بکری کو لایا تو میں نے کہا کہ اس تھن بالوں، مٹی اور گرد و غبار سے صاف کر لے تاکہ یہ چیزیں دودھ میں نہ پڑیں۔ (راوی نے کہا کہ) میں نے براء بن عازب کو دیکھا کہ وہ ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتے اور جھاڑتے تھے۔ خیر اس لڑکے نے لکڑی کے ایک پیالہ میں تھوڑا سا دودھ دھوہا اور میرے ساتھ ایک ڈول تھا، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پینے اور وضو کے لئے پانی تھا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیند سے جگانا برا معلوم ہوا، لیکن میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خودبخود جاگ اٹھے تھے۔ میں نے دودھ پر پانی ڈالا یہاں تک کہ وہ ٹھنڈا ہو گیا، پھر میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ دودھ پیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا یہاں تک کہ میں خوش ہو گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوچ کا وقت نہیں آیا؟ میں نے کہا کہ آ گیا۔ پھر ہم زوال آفتاب کے بعد چلے اور سراقہ بن مالک نے ہمارا پیچھا کیا (اور وہ اس وقت کافر تھا) اور ہم سخت زمین پر تھے۔ کہا کہ یا رسول اللہ! ہم کو تو کافروں نے پا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مت فکر کر اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سراقہ پر بددعا کی تو اس کا گھوڑا پیٹ تک زمین میں دھنس گیا (حالانکہ وہاں کی زمین سخت تھی) وہ بولا کہ میں جانتا ہوں کہ تم دونوں نے میرے لئے بددعا کی ہے، اب میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں تم دونوں کی تلاش میں جو آئے گا اس کو پھیر دوں گا تم میرے لئے دعا کرو (کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس عذاب سے چھڑا دے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی، تو وہ چھٹ گیا اور لوٹ گیا۔ جو کوئی کافر اس کو ملتا وہ کہہ دیتا کہ ادھر میں سب دیکھ آیا ہوں غرض جو کوئی ملتا تو سراقہ اس کو پھیر دیتا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سراقہ نے اپنی بات پوری کی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قافلہ ابوسفیان کے آنے کی خبر پہنچی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہ دیا پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مخاطب نہ ہوئے۔ آخر سیدنا سعد بن عبادہ (انصار کے رئیس) اٹھے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ ہم (یعنی انصار) سے پوچھتے ہیں؟ تو قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر آپ ہم کو حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں، تو ہم ضرور ڈال دیں گے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو برک غماد تک بھگا دیں، (جو کہ مکہ سے بہت دور ایک مقام ہے) تو البتہ ہم ضرور بھگا دیں گے (یعنی ہم ہر طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع ہیں گو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد نہ کیا ہو۔ آفرین ہے انصار کی جانثاری پر) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور وہ چلے یہاں تک کہ بدر میں اترے۔ وہاں قریش کے پانی پلانے والے ملے۔ ان میں بنی حجاج کا ایک کالا غلام بھی تھا، صحابہ نے اس کو پکڑا اور اس سے ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوچھنے لگے۔ وہ کہتا تھا کہ مجھے ابوسفیان کا تو علم نہیں، البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو یہ موجود ہیں۔ جب وہ یہ کہتا، تو اس کو مارتے اور جب وہ یہ کہتا کہ اچھا اچھا میں ابوسفیان کا حال بتاتا ہوں، تو اس کو چھوڑ دیتے۔ پھر اس سے پوچھتے تو وہ یہی کہتا کہ میں ابوسفیان کا حال نہیں جانتا البتہ ابوجہل، عتبہ، شیبہ اور امیہ بن خلف تو لوگوں میں موجود ہیں۔ پھر اس کو مارتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اس کو مارتے ہو اور جب وہ جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو (یہ ایک معجزہ ہوا)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے اور ہاتھ زمین پر رکھ کر نشاندہی کی۔ اور یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے۔ راوی نے کہا کہ پھر جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھا تھا، اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر کافر اسی جگہ گرا (یہ دوسرا معجزہ ہوا)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسیسہ (ایک شخص کا نام ہے) کو جاسوس بنا کر بھیجا کہ وہ ابوسفیان کے قافلہ کی خبر لائے وہ لوٹ کر آیا اور اس وقت میرے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی نہ تھا۔ راوی نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ آپ کی کس زوجہ کا انس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا پھر حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور فرمایا کہ ہمیں کام ہے، تو جس کی سواری موجود ہو وہ ہمارے ساتھ سوار ہو۔ یہ سن کر چند آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سواریوں کی طرف جانے کی اجازت مانگنے لگے جو مدینہ منورہ کی بلندی میں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں صرف وہ لوگ جائیں جن کی سواریاں موجود ہوں۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب کے ساتھ چلے، یہاں تک کہ مشرکین سے پہلے بدر میں پہنچے اور مشرک بھی آ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی کسی چیز کی طرف نہ بڑھے جب تک میں اس کے آگے نہ ہوں۔ پھر مشرک قریب پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جنت میں جانے کے لئے اٹھو جس کی چوڑائی تمام آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن حمام انصاری نے کہا کہ یا رسول اللہ! جنت کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اس نے کہا واہ سبحان اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا کیوں کہتا ہے؟ وہ بولا کچھ نہیں یا رسول اللہ! میں نے اس امید پر کہا کہ میں بھی اہل جنت سے ہو جاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو جنتی ہے۔ یہ سن کر چند کھجوریں اپنے ترکش سے نکال کر کھانے لگا پھر بولا کہ اگر میں اپنی کھجوریں کھانے تک جیوں تو بڑی لمبی زندگی ہو گی اور جتنی کھجوریں باقی تھیں وہ پھینک دیں اور کافروں سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تین سو انیس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے پروردگار سے پکار پکار کر دعا کرنے لگے (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) یا اللہ! تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا اس کو پورا کر، اے اللہ! تو مجھے دیدے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا، اے اللہ اگر تو مسلمانوں کی اس جماعت کو تباہ کر دے گا، تو پھر زمین میں تیری عبادت کوئی نہ کرے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کندھوں سے اتر گئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کندھوں پر ڈال دی پھر پیچھے سے لپٹ گئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ اپنا وہ وعدہ پورا کرے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا“(الانفال: 9) پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرشتوں سے کی۔ ابوزمیل (راوی حدیث) نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو کہ اس کے آگے تھا، اتنے میں اوپر سے کوڑے کی آواز سنائی دی وہ کہتا تھا کہ بڑھ اے حیزوم (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر اس مسلمان کے سامنے چت گر پڑا۔ مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا منہ پھٹ گیا تھا، جیسا کوئی کوڑا مارتا ہے اور وہ (کوڑے کی وجہ سے) سبز ہو گیا تھا۔ پھر مسلمان انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور قصہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو سچ کہتا ہے یہ تیسرے آسمان سے آئی ہوئی مدد تھی۔ آخر مسلمانوں نے اس دن ستر کافروں کو مارا اور ستر کو قید کیا۔ ابوزمیل نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب قیدی گرفتار ہو کر آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں اور کنبے والے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دیجئیے جس سے مسلمانوں کو کافروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی ہدایت کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میری رائے وہ نہیں ہے جو ابوبکر کی رائے ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم ان کو قتل کریں۔ عقیل کو علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کیجئے، وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجئیے کہ میں اس کی گردن ماروں، کیونکہ یہ لوگ کفر کے ”امام“ ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی اور میری رائے پسند نہیں آئی اور جب دوسرا دن ہوا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (تو دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی بتائیے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونا آئے گا تو روؤں گاور نہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بناؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ جو تمہارے ساتھیوں کو فدیہ لینے سے میرے سامنے ان کا عذاب لایا گیا اس درخت سے بھی زیادہ نزدیک (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک درخت تھا، اس کی طرف اشارہ کیا) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”نبی کو یہ درست نہیں کہ وہ قیدی رکھے جب تک زمین میں کافروں کا زور نہ توڑ دے“(الانفال: 69..67)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے مقتولین کو تین روز تک یوں ہی پڑا رہنے دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کو آواز دیتے ہوئے فرمایا کہ اے ابوجہل بن ہشام، اے امیہ بن خلف، اے عتبہ بن ربیعہ اور اے شیبہ بن ربیعہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا وعدہ سچا پا لیا؟ کیونکہ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ سچا پا لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانا سنا، تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا سنتے ہیں اور کب جواب دیتے ہیں؟ یہ تو مردار ہو کر سڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں جو کہہ رہا ہوں اس کو تم لوگ ان سے زیادہ نہیں سنتے ہو۔ البتہ یہ بات ہے کہ وہ جواب نہیں دے سکتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے انہیں کھینچ کر بدر کے کنوئیں میں ڈال دیا گیا۔ (یعنی وہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سن رہے تھے)۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن (جب کافروں کا غلبہ ہوا اور مسلمان مغلوب ہو گئے) اکیلے رہ گئے سات آدمی انصار کے اور دو قریش کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے تھے اور کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان کو کون پھیرتا ہے؟ اس کو جنت ملے گی یا جنت میں میری رفاقت ملے گی۔ ایک انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ (کفار نے) پھر ہجوم کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کون ان کو لوٹاتا ہے؟ اس کو جنت ملے گی یا وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا۔ ایک اور انصاری آگے بڑھا اور لڑتا ہوا شہید ہو گیا۔ پھر یہی حال رہا یہاں تک کہ ساتوں انصاری شہید ہو گئے۔ (سبحان اللہ انصار کی جانثاری اور وفاداری کیسی تھی یہاں سے اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ اور مرتبہ سمجھ لینا چاہئے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے اپنے اصحاب کے ساتھ انصاف نہ کیا (یا ہمارے اصحاب نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا)(پہلی صورت میں یہ مطلب ہو گا کہ انصاف نہ کیا یعنی قریش بیٹھے رہے اور انصار شہید ہو گئے قریش کو بھی نکلنا تھا دوسری صورت میں یہ معنی ہوں گے ہمارے اصحاب جو جان بچا کر بھاگ گئے انہوں نے انصاف نہ کیا کہ ان کے بھائی شہید ہوئے اور وہ اپنے آپ کو بچانے کی فکر میں رہے)۔
سیدنا ابوحازم سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ سے سنا، جب ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احد کے دن زخمی ہونے کے بارے میں پوچھا گیا، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دانت ٹوٹ گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود ٹوٹا (تو سر کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا خون دھوتی تھیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس پر سے پانی ڈالتے تھے۔ جب سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی سے خون اور زیادہ نکلتا ہے تو انہوں نے بورئیے کا ایک ٹکڑا جلا کر راکھ زخم پر بھر دی تب خون بند ہوا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت احد کے دن ٹوٹا اور سر پر زخم لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کو صاف کرتے جاتے اور فرماتے تھے کہ اس قوم کی فلاح کیسے ہو گی جس نے اپنے پیغمبر کو زخمی کیا اور اس کا دانت توڑا حالانکہ وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا تھا۔ اس وقت یہ آیت اتری کہ ”تمہارا کچھ اختیار نہیں اللہ تعالیٰ چاہے ان کو معاف کرے اور چاہے عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں“(آل عمران: 128)۔
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں اور بائیں طرف دو آدمیوں کو دیکھا، جو سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے (اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خوب لڑ رہے تھے) اس سے پہلے اور اس کے بعد میں نے ان کو نہیں دیکھا وہ جبرائیل اور میکائیل علیہما السلام تھے (اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان فرشتوں کے ساتھ عزت دی اور اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا صرف بدر میں لڑنا خاص نہ تھا)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا غصہ ان لوگوں پر بہت زیادہ ہوتا ہے جنہوں نے ایسا کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دانت کی طرف اشارہ کرتے تھے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا غصہ اس شخص پر (بھی) بہت زیادہ ہوتا ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی راہ میں قتل کریں (یعنی جہاد میں جس کو ماریں کیونکہ اس مردود نے پیغمبر کو مارنے کا قصد کیا ہو گا اور اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حد یا قصاص میں ماریں)