مختصر صحيح مسلم
ہجرت اور غزوات بیان میں
فرشتوں کی امداد، قیدیوں کے فدیہ اور مال غنیمت کے حلال ہونے کے متعلق۔
حدیث نمبر: 1159
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غزوہ بدر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا کہ وہ ایک ہزار تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تین سو انیس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کر کے دونوں ہاتھ پھیلائے اور اپنے پروردگار سے پکار پکار کر دعا کرنے لگے (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) یا اللہ! تو نے جو وعدہ مجھ سے کیا اس کو پورا کر، اے اللہ! تو مجھے دیدے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ کیا، اے اللہ اگر تو مسلمانوں کی اس جماعت کو تباہ کر دے گا، تو پھر زمین میں تیری عبادت کوئی نہ کرے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے برابر دعا کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مبارک کندھوں سے اتر گئی۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کندھوں پر ڈال دی پھر پیچھے سے لپٹ گئے اور کہا کہ اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ! بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ اپنا وہ وعدہ پورا کرے گا جو اس نے آپ سے کیا ہے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے تمہاری دعا قبول فرمائی اور فرمایا کہ میں تمہاری مدد ایک ہزار لگاتار فرشتوں سے کروں گا“ (الانفال: 9) پھر اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرشتوں سے کی۔ ابوزمیل (راوی حدیث) نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو کہ اس کے آگے تھا، اتنے میں اوپر سے کوڑے کی آواز سنائی دی وہ کہتا تھا کہ بڑھ اے حیزوم (حیزوم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر اس مسلمان کے سامنے چت گر پڑا۔ مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا منہ پھٹ گیا تھا، جیسا کوئی کوڑا مارتا ہے اور وہ (کوڑے کی وجہ سے) سبز ہو گیا تھا۔ پھر مسلمان انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور قصہ بیان کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو سچ کہتا ہے یہ تیسرے آسمان سے آئی ہوئی مدد تھی۔ آخر مسلمانوں نے اس دن ستر کافروں کو مارا اور ستر کو قید کیا۔ ابوزمیل نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب قیدی گرفتار ہو کر آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ان قیدیوں کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں اور کنبے والے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کچھ مال لے کر چھوڑ دیجئیے جس سے مسلمانوں کو کافروں سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اسلام کی ہدایت کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابن خطاب رضی اللہ عنہ! تمہاری کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں اللہ کی قسم یا رسول اللہ! میری رائے وہ نہیں ہے جو ابوبکر کی رائے ہے۔ میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو ہمارے حوالے کر دیں تاکہ ہم ان کو قتل کریں۔ عقیل کو علی (رضی اللہ عنہ) کے حوالے کیجئے، وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجئیے کہ میں اس کی گردن ماروں، کیونکہ یہ لوگ کفر کے ”امام“ ہیں۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی اور میری رائے پسند نہیں آئی اور جب دوسرا دن ہوا اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (تو دیکھا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! مجھے بھی بتائیے کہ آپ اور آپ کے ساتھی کیوں رو رہے ہیں؟ اگر مجھے بھی رونا آئے گا تو روؤں گاور نہ آپ دونوں کے رونے کی وجہ سے رونے کی صورت بناؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اس وجہ سے روتا ہوں کہ جو تمہارے ساتھیوں کو فدیہ لینے سے میرے سامنے ان کا عذاب لایا گیا اس درخت سے بھی زیادہ نزدیک (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک درخت تھا، اس کی طرف اشارہ کیا) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری کہ ”نبی کو یہ درست نہیں کہ وہ قیدی رکھے جب تک زمین میں کافروں کا زور نہ توڑ دے“ (الانفال: 69..67)۔