سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کے مال میں سے دو حصے گھوڑے کو دلائے اور پیدل آدمی کو ایک حصہ دلایا۔
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ (حروری خارجیوں کے سردار) نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پانچ باتیں پوچھیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر علم کے چھپانے کی بات نہ ہوتی، تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (کیونکہ وہ مردود خارجی بدعتی لوگوں کا سردار تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شان میں فرمایا کہ وہ دین میں سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے)۔ نجدہ نے لکھا تھا کہ بعد حمد و صلوٰۃ۔ 1۔ بتاؤ کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے؟۔ 2۔ کیا ان کو (مال غنیمت میں سے) حصہ دیتے تھے؟۔ 3۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو بھی قتل کرتے تھے؟۔ 4۔ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟۔ 5۔ خمس کس کا حق ہے؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب لکھا کہ تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے؟ تو بیشک ساتھ رکھتے تھے اور وہ زخمیوں کی دوا کرتی تھیں اور ان کو کچھ انعام ملتا تھا، ان کا حصہ نہیں لگایا گیا۔ (ابوحنیفہ، ثوری، لیث، شافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن اوزاعی کے نزدیک عورت اگر لڑے یا زخمیوں کا علاج کرے تو اس کا حصہ لگایا جائے گا۔ اور مالک کے نزدیک اس کو انعام بھی نہ ملے گا اور یہ دونوں مذہب اس صحیح حدیث سے مردود ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کافروں کے) بچوں کو نہیں مارتے تھے۔ تو بھی بچوں کو مت مارنا (اسی طرح عورتوں کو لیکن اگر بچے اور عورتیں لڑیں تو ان کا مارنا جائز ہے) اور تو نے مجھ سے پوچھا کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے، تو قسم میری عمر (دینے والے) کی کہ بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی داڑھی نکل آتی ہے، پر وہ نہ لینے کا شعور رکھتا ہے اور نہ دینے کا (وہ یتیم ہے یعنی اس کا حکم یتیموں کا سا ہے)۔ پھر جب اپنے فائدے کے لئے وہ اچھی باتیں کرنے لگے جیسے کہ لوگ کرتے ہیں، تو اس کی یتیمی جاتی رہتی ہے اور تو نے مجھ سے خمس کا پوچھا کہ کس کا حق ہے؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمارے لئے ہے لیکن ہماری قوم نے نہ مانا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف کچھ سوار روانہ فرمائے، تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو پکڑ لائے جو اہل یمامہ کا سردار تھا۔ پھر اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پاس جا کر کہا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟ (کہ میں تیرے ساتھ کیا کروں گا) وہ بولا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میرا خیال بہتر ہے، اگر آپ مجھے مار ڈالیں گے، تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خون والا ہے (یعنی اس میں کوئی بھی قباحت نہیں کیونکہ میرا خون ضائع نہیں جائے گا بلکہ میرا بدلہ لینے والے موجود ہیں)۔ اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کر کے مجھے چھوڑ دیں گے، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکرگزار ہوں گا اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت چاہتے ہوں تو وہ بھی حاضر ہے، جتنا آپ چاہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے گئے۔ دوسرے دن پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اے ثمامہ! تیرا کیا خیال ہے؟ وہ بولا کہ میرا خیال وہی ہے جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کر کے چھوڑ دیں گے، تو میں شکرگزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو، جو چاہو گے دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ویسا ہی بندھا رہنے دیا۔ پھر تیسرے دن پوچھا اے ثمامہ! تیرا کیا گمان ہے؟ وہ بولا کہ وہی جو میں عرض کر چکا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم احسان کر کے چھوڑ دیں گے، تو میں شکرگزار ہوں گا اور اگر قتل کرو گے تو ایسے شخص کو قتل کرو گے جس کا بدلہ لیا جائے گا اور اگر مال چاہتے ہو تو مانگو، جو چاہو گے دیا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ لوگوں نے تعمیل حکم کر کے چھوڑ دیا۔ ثمامہ مسجد کے قریب ہی ایک نخلستان کی طرف گیا اور غسل کر کے مسجد میں آیا اور کہنے لگا کہ ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم مجھے تمام روئے زمین پر کسی کا منہ دیکھ کر اتنا غصہ نہیں آتا تھا جتنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا منہ دیکھ کر آتا تھا، اب آج کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ سب سے زیادہ مجھ کو پسند ہے، اور اللہ کی قسم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے زیادہ کوئی دین مجھے برا معلوم نہ ہوتا تھا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین مجھے سب سے بھلا معلوم ہوتا ہے اور اللہ کی قسم! میرے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر سے برا کوئی شہر نہ تھا اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا شہر میرے نزدیک سب شہروں سے بہتر ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں نے مجھے گرفتار کیا، جب کہ میں عمرہ کے ارادہ سے جا رہا تھا، اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مبارکباد دی اور عمرہ کرنے کی اجازت دی۔ جب وہ مکہ میں آئے تو کسی نے اس سے کہا کہ کیا تم بےدین ہو گئے ہو؟ وہ بولے نہیں اللہ کی قسم بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانبردار ہو گیا ہوں اور اللہ کی قسم تمہارے پاس یمامہ سے اس وقت گندم کا ایک دانہ بھی نہ آنے پائے گا، جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف تشریف لائے اور فرمایا کہ یہودیوں کے پاس چلو۔ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور ان کو پکارا اور فرمایا کہ اے یہود کے لوگو! مسلمان ہو جاؤ محفوظ ہو جاؤ گے۔ انہوں نے کہا کہ اے ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نے (اللہ تعالیٰ کا) پیغام پہنچا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہی چاہتا ہوں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے یہود مسلمان ہو جاؤ محفوظ ہو جاؤ گے۔ وہ کہنے لگے کہ اے ابوالقاسم ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ نے (اللہ کا پیغام) پہنچا دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہی چاہتا ہوں (کہ تم اللہ تعالیٰ کے پیغام کے پہنچ جانے کا اقرار کرو) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار یہی کہا اور فرمایا کہ جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کو اس ملک سے باہر نکال دوں، تو جو شخص اپنے مال کو بیچ سکے، وہ بیچ ڈالے اور نہیں تو یہ سمجھ لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ البتہ میں یہود اور نصاریٰ کو جزیرۃ العرب سے نکال دوں گا یہاں تک کہ مسلمانوں کے علاوہ کسی کو نہیں رہنے دوں گا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو خندق (غزوہ خندق) کے دن ایک جو قریش کے ایک شخص ابن العرفہ (اس کی ماں کا نام ہے) نے ایک تیر مارا جو ان کی اکحل (ایک رگ) میں لگا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا (اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا اور بیمار کا رہنا درست ہے) تاکہ نزدیک سے ان کو پوچھ لیا کریں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے لوٹے اور ہتھیار رکھ کر غسل کیا تو پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنا سر غبار سے جھاڑتے ہوئے آئے اور کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھیار اتار ڈالے؟ اور ہم نے تو اللہ کی قسم ہتھیار نہیں رکھے۔ چلو ان کی طرف۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کدھر؟ انہوں نے بنی قریظہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے لڑے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو کر قلعہ سے نیچے اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا فیصلہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ پر رکھا (کیونکہ وہ سیدنا سعد کے حلیف تھے)۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں یہ حکم کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے ہیں وہ تو مار دئیے جائیں اور بچے اور عورتیں قیدی بنائے جائیں اور ان کے مال تقسیم کر لئے جائیں۔ ہشام نے اپنے والد (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تو نے بنی قریظہ کے بارے میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے اللہ کے حکم پر فیصلہ کیا اور ایک دفعہ یوں فرمایا کہ بادشاہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔