مختصر صحيح مسلم
سیر و سیاحت اور لشکر کشی
مال غنیمت میں عورتوں کا حصہ نہیں ہے یوں کچھ دے دینا چاہیئے اور جہاد میں بچوں کے قتل کرنے کے متعلق۔
حدیث نمبر: 1151
یزید بن ہرمز سے روایت ہے کہ نجدہ (حروری خارجیوں کے سردار) نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پانچ باتیں پوچھیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر علم کے چھپانے کی بات نہ ہوتی، تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (کیونکہ وہ مردود خارجی بدعتی لوگوں کا سردار تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شان میں فرمایا کہ وہ دین میں سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے)۔ نجدہ نے لکھا تھا کہ بعد حمد و صلوٰۃ۔ 1۔ بتاؤ کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے؟۔ 2۔ کیا ان کو (مال غنیمت میں سے) حصہ دیتے تھے؟۔ 3۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو بھی قتل کرتے تھے؟۔ 4۔ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے؟۔ 5۔ خمس کس کا حق ہے؟ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب لکھا کہ تو مجھ سے پوچھتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے؟ تو بیشک ساتھ رکھتے تھے اور وہ زخمیوں کی دوا کرتی تھیں اور ان کو کچھ انعام ملتا تھا، ان کا حصہ نہیں لگایا گیا۔ (ابوحنیفہ، ثوری، لیث، شافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن اوزاعی کے نزدیک عورت اگر لڑے یا زخمیوں کا علاج کرے تو اس کا حصہ لگایا جائے گا۔ اور مالک کے نزدیک اس کو انعام بھی نہ ملے گا اور یہ دونوں مذہب اس صحیح حدیث سے مردود ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کافروں کے) بچوں کو نہیں مارتے تھے۔ تو بھی بچوں کو مت مارنا (اسی طرح عورتوں کو لیکن اگر بچے اور عورتیں لڑیں تو ان کا مارنا جائز ہے) اور تو نے مجھ سے پوچھا کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے، تو قسم میری عمر (دینے والے) کی کہ بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی داڑھی نکل آتی ہے، پر وہ نہ لینے کا شعور رکھتا ہے اور نہ دینے کا (وہ یتیم ہے یعنی اس کا حکم یتیموں کا سا ہے)۔ پھر جب اپنے فائدے کے لئے وہ اچھی باتیں کرنے لگے جیسے کہ لوگ کرتے ہیں، تو اس کی یتیمی جاتی رہتی ہے اور تو نے مجھ سے خمس کا پوچھا کہ کس کا حق ہے؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمارے لئے ہے لیکن ہماری قوم نے نہ مانا۔