سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آدمی لوٹ کے لئے لڑتا ہے اور آدمی نام کے لئے لڑتا ہے اور آدمی اپنا مرتبہ دکھانے کو لڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنا کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو اس لئے لڑے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو، وہ اللہ کی راہ میں لڑتا ہے۔
سیدنا سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ لوگ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے جدا ہوئے تو ناتل، جو کہ اہل شام میں سے تھا (ناتل بن قیس خرامی یہ فلسطین کا رہنے والا تھا اور تابعی ہے اس کا باپ صحابی تھا) نے کہا کہ اے شیخ! مجھ سے ایسی حدیث بیان کرو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ قیامت میں پہلے جس کا فیصلہ ہو گا وہ ایک شخص ہو گا جو شہید ہو گیا تھا۔ جب اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اپنی نعمت اس کو بتلائے گا اور وہ پہچانے گا۔ اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے اس کے لئے کیا عمل کیا ہے؟ وہ بولے گا کہ میں تیری راہ میں لڑتا رہا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو نے جھوٹ کہا۔ تو اس لئے لڑا تھا کہ لوگ تجھے بہادر کہیں۔ اور تجھے بہادر کہا گیا۔ پھر حکم ہو گا اور اس کو اوندھے منہ گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور ایک شخص ہو گا جس نے دین کا علم سیکھا اور سکھلایا اور قرآن پڑھا اس کو اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا، وہ شخص پہچان لے گا تب کہا جائے گا کہ تو نے اس کے لئے کیا عمل کیا ہے؟ وہ کہے گا کہ میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹ بولتا ہے تو نے اس لئے علم پڑھا تھا کہ لوگ تجھے عالم کہیں اور قرآن تو نے اس لئے پڑھا تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، دنیا میں تجھ کو عالم اور قاری کہا گیا۔ پھر حکم ہو گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ اور ایک شخص ہو گا جس کو اللہ تعالیٰ نے ہر طرح کا مال دیا تھا، وہ اللہ تعالیٰ کے پاس لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں دکھلائے گا اور وہ پہچان لے گا، تو اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تو نے اس کے لئے کیا عمل کئے؟ وہ کہے گا کہ میں نے تیرے لئے مال خرچ کرنے کی کوئی راہ ایسی نہیں چھوڑی جس میں تو خرچ کرنا پسند کرتا تھا مگر میں نے اس میں خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو جھوٹا ہے، تو نے اس لئے خرچ کیا کہ لوگ تجھے سخی کہیں، تو لوگوں نے تجھے دنیا میں سخی کہہ دیا پھر حکم ہو گا اور اسے منہ کے بل کھینچ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بنی نبیت (جو انصار کا ایک قبیلہ ہے) کا ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے پیغام پہنچانے والے ہیں۔ پھر آگے بڑھا اور لڑتا رہا، یہاں تک کہ مارا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے عمل تھوڑا کیا اور ثواب بہت پایا۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی لشکر یا فوج کا ٹکڑا جہاد کرے، پھر غنیمت حاصل کرے اور سلامت رہے، تو اس کو آخرت کے ثواب میں سے دو تہائی دنیا میں مل گیا اور جو لشکر یا فوج کا ٹکڑا خالی ہاتھ آئے اور نقصان اٹھائے (یعنی زخمی ہو جائے یا مارا جائے)، تو اس کو آخرت میں پورا ثواب ملے گا۔
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غازی کا اللہ کی راہ میں سامان کر دیا، اس نے جہاد کیا اور جس نے غازی کے گھربار کی خبر رکھی، اس نے بھی جہاد کیا (یعنی اس نے جہاد کا ثواب کمایا)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ اسلم کے ایک جوان نے کہا کہ یا رسول اللہ! میں جہاد کا ارادہ رکھتا ہوں اور میرے پاس سامان نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فلاں کے پاس جاؤ اس نے جہاد کا سامان کیا تھا مگر وہ شخص بیمار ہو گیا۔ وہ اس شخص کے پاس گیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھے سلام کہا ہے اور فرمایا ہے کہ وہ سامان مجھے دیدے۔ اس نے (اپنی بیوی یا لونڈی سے کہا کہ) اے فلانی! وہ سب سامان اس کو دیدے اور کوئی چیز مت رکھ اللہ کی قسم کوئی چیز نہ رکھ کیونکہ تیرے لئے اس میں برکت ہو گی۔
سیدنا سلیمان بن بریدہ اپنے والد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجاہدین کی عورتوں کی حرمت گھر میں رہنے والوں پر ایسی ہے جیسے ان کی ماؤں کی حرمت اور جو شخص گھر میں رہ کر کسی مجاہد کے گھربار کی خبرگیری کرے، پھر اس میں خیانت کرے، تو وہ قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد سے کہا جائے کا کہ اس کے عمل میں سے جو چاہے لے لے۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تمہارا کیا خیال ہے؟
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا، کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے (یعنی غالب اور حق پر ہوں گے)۔
سیدنا عبدالرحمن بن شماسہ مہری کہتے ہیں کہ میں مسلمہ بن مخلد کے پاس بیٹھا تھا اور ان کے پاس سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قیامت قائم نہ ہو گی مگر بدترین مخلوق پر اور وہ بدتر ہوں گے جاہلیت والوں سے۔ اللہ تعالیٰ سے جس بات کی دعا کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو دیدے گا۔ وہ اسی حال میں تھے کہ سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ آئے تو مسلمہ نے ان سے کہا کہ اے عقبہ! تم نے سنا کہ عبداللہ کیا کہتے ہیں؟ عقبہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، لیکن میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ میری امت کا ایک گروہ یا ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر لڑتی رہے گی، اور اپنے دشمن پر غالب رہے گی جو کوئی ان کی مخالفت کرے گا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حال میں ہوں گے۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا) پھر اللہ تعالیٰ ایک ہوا بھیجے گا جس میں مشک کی سی بو ہو گی اور ریشم کی طرح بدن پر لگے گی، وہ کسی شخص کو نہ چھوڑے گی جس کے دل میں ایک دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا مگر اس کو موت آ جائے گی۔ اس کے بعد سب برے (کافر) لوگ رہ جائیں گے، انہی پر قیامت قائم ہو گی۔
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمیشہ مغرب والے (یعنی عرب یا شام والے) حق پر غالب رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت قائم ہو گی۔