سالم، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کو، جس کے پاس وصیت کرنے کے قابل کوئی چیز ہو، لائق نہیں کہ وہ تین راتیں گزارے مگر اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہونا چاہئے۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے جب سے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے مجھ پر ایک رات بھی ایسی نہیں گزری کہ میرے پاس میری وصیت نہ ہو۔
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں میری عیادت کی جس میں میں ایسے درد میں مبتلا تھا کہ موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے جیسا درد ہے آپ جانتے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرا وارث سوا ایک بیٹی کے اور کوئی نہیں ہے، کیا میں دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں“۔ میں نے عرض کیا آدھا مال خیرات کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ ایک تہائی خیرات کر اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں محتاج چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے خرچ کرے گا تو اس کا ثواب تجھے ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے کا بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اپنے اصحاب سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو پیچھے رہے گا (یعنی زندہ رہے گا) اور ایسا عمل کرے گا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشی منظور ہو، تو تیرا درجہ بڑھے گا اور بلند ہو گا اور شاید تو زندہ رہے، یہاں تک کہ تجھ سے بعض لوگوں کو فائدہ ہو اور بعض لوگوں کو نقصان۔ یا اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کر دے اور ان کو ان کی ایڑیوں پر مت پھیر لیکن بیچارہ سعد بن خولہ! راوی نے کہا کہ ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے رنج کا اظہار کیا کہ وہ مکہ میں ہی فوت ہو گئے تھے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ کاش لوگ ایک تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کیا کریں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہائی کی رخصت فرمائی اور فرمایا کہ تہائی بھی بہت (زیادہ) ہے۔
طلحہ بن مصرف کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مال وغیرہ کے بارے میں) وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر میں نے کہا کہ پھر مسلمانوں پر کیوں وصیت فرض ہوئی؟ یا ان کو وصیت کا حکم کیوں ہوا؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کوئی درہم و دینار چھوڑا نہ بکری یا اونٹ اور نہ (کسی مال کے لئے) وصیت کی۔
اسود بن یزید کہتے ہیں کہ لوگوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس ذکر کیا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کب وصی بنایا؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی تھی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں تھے کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے طشت منگوایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں گر پڑے اور مجھے خبر نہیں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں پھر (علی رضی اللہ عنہ کو) کس وقت وصیت کی۔
سیدنا سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جمعرات کا دن، کیا ہے جمعرات کا دن؟ پھر روئے یہاں تک کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہو گئیں۔ میں نے کہا کہ اے ابن عباس! جمعرات کے دن سے کیا غرض ہے؟ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی شدت ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس (دوات اور تختی) لاؤ کہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں تاکہ تم میرے بعد گمراہ نہ ہو جاؤ۔ (یہ سن کر) لوگ (کاغذ قلم کے متعلق) جھگڑنے لگے اور پیغمبر کے پاس جھگڑا نہیں چاہئے تھا۔ کہنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی لغو صادر ہو سکتا ہے؟ پھر سمجھ لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اچھی طرح سے سمجھ لو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ کہ میں جس کام میں مصروف ہوں وہ اس سے بہتر ہے جس میں تم مشغول ہو (جھگڑے اور اختلاف میں) میں تم کو تین باتوں کی وصیت کرتا ہوں ایک تو یہ کہ مشرکوں کو جزیرہ عرب سے نکال دینا۔ دوسری جو سفارتیں آئیں ان کی خاطر اسی طرح کرنا جیسے میں کیا کرتا تھا۔ (تاکہ اور قومیں خوش ہوں اور ان کو اسلام کی طرف رغبت ہو) اور تیسری بات سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نہیں کہی یا سعید نے کہا کہ میں بھول گیا۔
امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک عمدہ گھوڑا اللہ کی راہ میں دیا اور جس کو دیا تھا اس نے اس کو تباہ کر دیا میں سمجھا کہ یہ اس کو اب سستے داموں بیچ ڈالے گا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو مت خرید اور اپنے صدقے کو مت پھیر۔ اس لئے کہ صدقے میں لوٹنے والا اس طرح ہے جیسے کتا جو قے کر کے پھر اس کو کھا جاتا ہے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ہبہ کو لوٹانے والا اس طرح ہے جیسے کتا قے کر کے پھر اپنی قے کو کھا جاتا ہے
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے والد رضی اللہ عنہ نے اپنا کچھ مال مجھے ہبہ کیا۔ میری ماں عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہ بولی کہ میں اس پر اس وقت خوش ہوں گی کہ تو اس (مال کے ہبہ کرنے) پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ کر دے۔ میرے والد بشیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس مال پر گواہ بنانے کے لئے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا تو نے اپنی سب اولاد کو ایسا ہی (مال) دیا ہے؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو۔ پھر میرے والد واپس آئے اور وہ ہبہ واپس لیا۔ (ہبہ کا معنی تحفہ ہے)۔