مختصر صحيح مسلم
وصیت ، صدقہ اور ہبہ وغیرہ کے متعلق
ایک تہائی سے زیادہ وصیت نہ کی جائے۔
حدیث نمبر: 982
فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں میری عیادت کی جس میں میں ایسے درد میں مبتلا تھا کہ موت کے قریب ہو گیا تھا۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے جیسا درد ہے آپ جانتے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور میرا وارث سوا ایک بیٹی کے اور کوئی نہیں ہے، کیا میں دو تہائی مال خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”نہیں“۔ میں نے عرض کیا آدھا مال خیرات کر دوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ ایک تہائی خیرات کر اور ایک تہائی بھی بہت ہے۔ اگر تو اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ جائے تو اس سے بہتر ہے کہ تو انہیں محتاج چھوڑ کر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ اور تو جو کچھ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے خرچ کرے گا تو اس کا ثواب تجھے ملے گا یہاں تک کہ اس لقمے کا بھی جو تو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالے۔ میں نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا میں اپنے اصحاب سے پیچھے رہ جاؤں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تو پیچھے رہے گا (یعنی زندہ رہے گا) اور ایسا عمل کرے گا جس سے اللہ تعالیٰ کی خوشی منظور ہو، تو تیرا درجہ بڑھے گا اور بلند ہو گا اور شاید تو زندہ رہے، یہاں تک کہ تجھ سے بعض لوگوں کو فائدہ ہو اور بعض لوگوں کو نقصان۔ یا اللہ! میرے اصحاب کی ہجرت پوری کر دے اور ان کو ان کی ایڑیوں پر مت پھیر لیکن بیچارہ سعد بن خولہ! راوی نے کہا کہ ان کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے رنج کا اظہار کیا کہ وہ مکہ میں ہی فوت ہو گئے تھے۔