سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے پاس زمین خالی ہو تو وہ اس میں کاشتکاری کرے۔ اگر خود نہ کرے تو اور کسی کو دے (بطور رعایت بلا کرایہ) کہ وہ اس میں کاشتکاری کرے۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں محاقلہ کیا کرتے تھے۔ زمین کو ثلث، ربع پیداوار اور معین اناج پر کرایہ دیتے ایک روز ہمارے پاس میرے چچاؤں میں سے ایک آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کام سے منع کیا جس میں ہمارا فائدہ تھا، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی میں ہمیں زیادہ فائدہ ہے، ہمیں محاقلہ سے یعنی زمین کو ثلث یا ربع پیداوار پر یا معین مقدار پر کرایہ پر چلانے سے منع کیا گیا ہے۔ اور حکم فرمایا ہے کہ زمین کا مالک خود اس میں کھیتی کرے یا دوسرے کو کھیتی کے لئے دیدے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کرایہ پر یا کسی اور طرح پر دینا برا جانا ہے۔
سیدنا حنظلہ بن قیس انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے زمین کو سونے اور چاندی کے بدلے کرایہ پر دینے کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں۔ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں نہر کے کناروں پر اور نالیوں کے سروں پر پیداوار پر زمین کرایہ پر چلاتے تھے تو بعض اوقات ایک چیز تلف ہو جاتی اور دوسری بچ جاتی اور کبھی یہ تلف ہو جاتی اور وہ بچ جاتی، تو لوگوں کو کچھ کرایہ نہ ملتا مگر وہی جو بچ رہتا، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا۔ لیکن اگر کرایہ کے بدلے کوئی معین چیز (جیسے روپیہ اشرفی غلہ وغیرہ) جس کی ذمہ داری ہو سکے تو اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
سیدنا عبداللہ بن سائب کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عبداللہ بن معقل رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے مزارعت (بٹائی) کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزارعت سے منع کیا اور مؤاجرۃ کا (یعنی روپے اشرفی پر کرایہ چلانے کا) حکم فرمایا اور فرمایا کہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
طاؤس سے روایت ہے کہ وہ مخابرہ کرتے تھے تو عمرو (طاؤس سے) کہتے ہیں کہ میں نے ان (طاؤس) سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن! اگر تم مخابرہ کو چھوڑ دو تو بہتر ہے، کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ (زمین کو بٹائی کر دینے) سے منع کیا ہے تو طاؤس نے کہا کہ اے عمرو! مجھ سے اس شخص نے بیان کیا جو صحابہ میں زیادہ جاننے والا تھا یعنی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخابرہ سے منع نہیں کیا بلکہ یوں فرمایا کہ اگر تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو مفت زمین دیدے تو معین اجرت کرایہ لے کر دینے سے بہتر ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو (خیبر والوں کے) حوالے اس شرط پر کیا کہ جو پھل یا اناج پیدا ہو وہ آدھا ہمارا ہے اور آدھا تمہارا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو ہر سال سو وسق دیتے، (جن میں) اسی (80) وسق کھجور کے اور بیس (20) جو کے۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اور اموال خیبر کو تقسیم کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو اختیار دیا کہ یا تو تم بھی زمین اور پانی کا حصہ لے لو یا اپنے وسق لیتی رہو تو وہ مختلف ہو گئیں، بعضوں نے زمین اور پانی لیا اور بعضوں نے وسق لینا منظور کیا۔ ام المؤمنین عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما نے زمین اور پانی لینے والوں میں سے تھیں۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان درخت لگائے پھر اس میں سے کوئی کھائے، تو لگانے والے کو صدقہ کا ثواب ملے گا اور جو چوری ہو جائے گا اس میں بھی صدقہ کا ثواب ملے گا اور جو درندے کھا جائیں، اس میں بھی صدقہ کا ثواب ملے گا اور جو پرندے کھا جائیں، اس میں بھی صدقہ کا ثواب ملے گا اور اس پھل کو کوئی کم نہ کرے گا، مگر صدقہ کا ثواب اس کو ملتا رہے گا۔