ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورے (دس محرم) کے دن روزہ رکھتے تھے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس (دن) کے روزے کا حکم فرمایا، یہاں تک کہ جب رمضان فرض ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو چاہے اس دن (عاشورہ) کا روزہ رکھے اور جو چاہے افطار کرے۔
حکم بن اعرج سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا اور وہ اپنی چادر پر زمزم کے کنارے تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ پس میں نے کہا کہ مجھے عاشورہ کے روزے کے بارے میں بتائیے تو انہوں نے کہا کہ جب تم محرم کا چاند دیکھو تو تاریخیں گنتے رہو۔ پھر جب نو (9) تاریخ ہو تو اس دن روزہ رکھو۔ میں نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ وہ عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ تم یہ روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ وہ عظیم دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو (فرعون سے) نجات دی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا، اس لئے مو سیٰ علیہ السلام نے شکرانے کا روزہ رکھا اور ہم بھی رکھتے ہیں۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تم سے زیادہ موسیٰ علیہ السلام کے دوست اور قریب ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
عبیداللہ بن ابی یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا۔ ان سے عاشورہ کے دن کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دن کا روزہ رکھا ہو اور دنوں میں سے اس دن کی بزرگی ڈھونڈنے کو، سوا اس دن کے اور کسی مہینے کا سوا رمضان کے مہینے کے (یعنی دنوں میں عاشورہ کا دن اور مہینوں میں رمضان کو بزرگ جانتے ہیں)۔
سیدہ ربیع بنت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کی صبح کو مدینہ کے گرد انصار کی بستیوں میں حکم بھیجا کہ جس نے روزہ رکھا وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے صبح سے افطار کیا ہو وہ باقی دن (روزہ) پورا کرے (یعنی اب کچھ نہ کھائے)۔ پھر اس کے بعد ہم روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے بچوں کو بھی اللہ چاہتا روزہ رکھواتے تھے اور مسجد میں چلے جاتے اور بچوں کے لئے روئی کی گڑیاں بناتے تھے۔ پھر جب کوئی (بچہ) روٹی کے لئے رونے لگتا تھا تو اس کو وہی (گڑیا) کھیلنے کو دیدیتے تھے یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا تھا۔
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے روزے رکھتے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت روزے رکھے اور اتنا افطار کرتے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت افطار کیا۔ اور میں نے ان کو جتنا شعبان میں روزے رکھتے دیکھا، اتنا اور کسی ماہ میں نہیں دیکھا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کا پورا مہینہ روزے رکھتے تھے۔ آپ چند دنوں کے سوا پورے شعبان کے روزے رکھتے تھے۔
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یا کسی دوسرے سے فرمایا کہ کیا تم نے شعبان کے شروع میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا کہ نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم افطار کر لو تو دو دن روزہ رکھو۔ (یعنی جب رمضان کے مہینے سے فارغ ہو جاؤ تو دو روزے رکھنا)
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو رمضان کے روزے رکھے اور اس کے ساتھ شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ سارا سال روزہ رکھنے کی مثل ہے۔
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے روزہ رکھتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے (اس لئے کہ یہ سوال بے موقع تھا اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیسے رکھوں) پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو عرض کیا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے، اسلام کے دین ہونے، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر راضی ہوئے اور ہم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے غصہ سے پناہ مانگتے ہیں۔ غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باربار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ تھم گیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔ پھر کہا کہ جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسی طاقت کس کو ہے۔ پھر پوچھا کہ جو ایک دن روزہ رکھے او رایک دن افطار کرے، وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ روزہ داؤد علیہ السلام کا ہے۔ پھر پوچھا کہ جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو (یعنی یہ بھی خوب ہے اگر طاقت ہو)۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر ماہ تین روزے اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک، یہ ہمیشہ کا روزہ ہے (یعنی ثواب میں)۔ اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں ایک سال پہلے اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورہ کے روزہ سے امید رکھتا ہوں کہ ایک سال پہلے کا کفارہ ہو جائے۔