سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کی، پھر صبح کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے۔ میں (راوی) نے کہا کہ (سحری اور نماز) دونوں کے درمیان کتنی دیر ہوئی؟ انہوں نے کہا کہ پچاس آیات کے موافق۔ (سحری سے فراغت اور نماز کی تکبیر کے درمیان تقریباً دس منٹ کا فاصلہ تھا)۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں سحری سے بلال (رضی اللہ عنہ) کی اذان اور آسمان کی لمبی سفیدی دھوکا میں نہ ڈال دے جب تک کہ وہ اس طرح چوڑی نہ ہو جائے۔ اور (راوی حدیث) حماد نے اپنے ہاتھوں کو اس طرح (دائیں بائیں) پھیلا کر دکھایا۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری کہ ”کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ سفید دھاگہ سیاہ دھاگے سے ممتاز نہ ہو جائے“ { البقرہ: 178 } تو آدمی جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا تو دو دھاگے اپنے پیر میں باندھ لیتا، ایک سفید اور دوسرا سیاہ اور کھاتا پیتا رہتا یہاں تک کہ اس کو دیکھنے میں کالے اور سفید کا فرق معلوم ہونے لگتا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد ”فجر سے“ کا لفظ اتارا، تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ دھاگوں سے مراد رات اور دن ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے۔ ایک سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو کہ نابینا تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں، پس تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔ راوی نے کہا کہ ان دونوں کی اذان میں کچھ (زیادہ) دیر نہ ہوتی تھی اتنا ہی وقت تھا کہ یہ اترے اور وہ چڑھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر احتلام کے، جماع کی وجہ سے صبح ہو جاتی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور پوچھا اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا دروازے کی اوٹ سے سنتی تھیں۔ غرض اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں، تو کیا میں روزہ رکھوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے بھی نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں، پھر میں روزہ رکھتا ہوں۔ اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ اور ہم برابر نہیں ہیں، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی میں امید رکھتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ ان چیزوں کا جاننے والا ہوں جن سے بچنا ضروری ہے۔ (غرض اس سائل کو یہ گمان ہوا کہ شاید یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حکم مجھے اور تم سب کو برابر ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ کسی حالت میں تکلیف شرعی اور لوازم عبدیت سے باہر نہیں ہو سکتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میں امید رکھتا ہوں“ یہ کمال عبدیت ہے ورنہ حقیقت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ ایسا ہی ہے کہ سارے جہاں سے اعلم و اتقی ہیں)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو روزہ دار بھول کر کھا لے یا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کر لے۔ اس لئے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کھلا پلا دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی روزہ دار کو کھانے کے لئے بلایا جائے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں ہلاک ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے کس چیز نے ہلاک کیا؟ اس نے کہا کہ میں رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دو مہینے کے روزے لگاتار رکھ سکتا ہے؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) پھر وہ بیٹھا رہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا یہ مسکینوں کو صدقہ دیدے۔ اس نے کہا کہ مدینہ کے دونوں کنکریلی کالے پتھروں والی زمینوں کے درمیان میں مجھ سے بڑھ کر کوئی مسکین ہے؟ بلکہ اس علاقہ میں کوئی گھر والا مجھ سے بڑھ کر محتاج نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے (قربانت شوم وفد ایتگرم درگرد سرت گردم) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دانت ظاہر ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کو لے اور اپنے گھر والوں کو کھلا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ میں جل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں؟ اس نے کہا کہ میں رمضان شریف میں دن کے وقت اپنی عورت سے جماع کر بیٹھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صدقہ دے، صدقہ دے۔ اس نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ موجود نہیں ہے۔ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو ٹوکرے (غلہ یا کھجور) کھانے کے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے یہ صدقہ کر دے۔