سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اگر کوئی صبح کو جا کر لکڑی کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لادے اور اس سے صدقہ دے اور اپنا کام بھی نکالے کہ لوگوں کا محتاج نہ ہو، یہ اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں سے مانگتا پھرے کہ وہ دیں یا نہ دیں اور بلاشبہ اوپر کا (دینے والا) ہاتھ نیچے (لینے) والے ہاتھ سے بہتر ہے اور پہلے صدقہ اس کو دے جس کا خرچ تیرے ذمہ ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (اس وقت) منبر پر صدقہ کا اور کسی سے سوال نہ کرنے کا ذکر کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اوپر کا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے اور اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والا ہے۔
سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مال مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دیا، پھر فرمایا کہ یہ مال سرسبز اور میٹھا ہے۔ پس جس نے اس کو بغیر مانگے لیا یا دینے والے کی خوشی سے لیا (نہ کہ آپ زبردستی تقاضا کر کے لیا) تو اس میں برکت ہوتی ہے اور جس نے اپنے نفس کو ذلیل کر کے (یعنی سوال کر کے یا چمٹ کر) لیا تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کا مال ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص کھاتا تو ہے لیکن سیر نہیں ہوتا اور اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے عمدہ ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسکین وہ نہیں ہے جو گھومتا رہتا ہے اور ایک دو لقمہ یا ایک دو کھجور لے کر لوٹ جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر مسکین کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کو اتنا خرچ نہیں ملتا جو اس کی ضرورت بشری کی کفایت کرتا ہو اور نہ لوگ اسے مسکین جانتے ہیں کہ اس کو صدقہ دیں اور نہ وہ لوگوں سے کچھ مانگتا ہے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن آدم (انسان) تو بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس میں دو چیزیں جوان ہوتی رہتی ہیں۔ ایک (مال کی) حرص اور دوسری (لمبی) عمر کی حرص۔
سیدنا ابوالاسود نے کہا کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو وہ سب تین سو قاری ان کے پاس آئے جو قرآن پڑھ چکے تھے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ تم بصرہ کے سب لوگوں سے بہتر ہو اور وہاں کے قاری ہو، پس قرآن پڑھتے رہو اور بہت مدت گزر جانے سے سست نہ ہو جاؤ کہ تمہارے دل سخت ہو جائیں جیسے تم سے پہلوں کے دل سخت ہو گئے اور ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جو طول میں اور سخت وعیدوں میں ”برات“ کے برابر تھی۔ پھر میں اسے بھلا دیا گیا مگر اتنی بات یاد رہی کہ اگر آدمی کے لئے مال کے دو میدان ہوتے ہیں تب بھی تیسرا ڈھونڈتا رہتا ہے اور آدمی کا پیٹ نہیں بھرتا مگر مٹی سے۔ اور ہم ایک سورت اور پڑھتے تھے اور اس کو مسبحات میں سے ایک سورت کے برابر جانتے تھے میں وہ بھی بھول گیا مگر اس میں سے یہ آیت یاد ہے کہ ”اے ایمان والو! وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں“(جو ایسی بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے تو) وہ تمہاری گردنوں میں لکھ دی جاتی ہے گواہی کے طور پر کہ اس کا تم سے قیامت کے دن سوال ہو گا۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لوگوں میں وعظ کیا اور فرمایا کہ اے لوگو! اللہ کی قسم، میں تمہارے لئے کسی اور چیز سے نہیں ڈرتا ہوں مگر اس سے جو اللہ تعالیٰ تمہارے لئے دینا کی زینت نکالتا ہے۔ تو ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ (یعنی دنیا کی دولت اور حکومت کا ہونا اور اسلام کی ترقی ہونا تو خیر ہے، اس کا نتیجہ برا کیونکر ہو گا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑی دیر چپ ہو رہے۔ پھر فرمایا کہ تم نے کیا کہا؟ (پھر اس کے سوال کو پوچھ لیا کہ کہیں بھول نہ گیا ہو تو مطابقت جواب کی سوال کے ساتھ اس کی سمجھ میں نہ آئے) اس نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر کا نتیجہ شر بھی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں خیر کا نتیجہ تو خیر ہی ہوتا ہے۔ کیا یہ خیر ہے؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود یہ تھا کہ یہ تو امتحان اور آزمائش ہے اور امتحان اور آزمائش میں خیر کہاں ہوتی ہے۔ پھر مثال دے کر سمجھایا کہ موسم بہار میں جو سبزہ اگتا ہے، وہ سبزہ جانور کو ہلاک کر دیتا ہے سوا ان جانوروں کے جو صرف سبزہ (ضرورت کے مطابق) کھاتے ہیں۔ وہ اس قدر کھا لیتے ہیں یہاں تک کہ ان کی کوکھیں پھول جاتی ہیں۔ پھر دھوپ میں آ کر لید یا پیشاب کرتے ہیں، جگالی کرتے ہیں اور پھر جا کر چرنا شروع کر دیتے ہیں۔ پس جو شخص تو مال حق کے ساتھ لیتا ہے، تو اس میں اس کے لئے برکت ڈال دی جاتی ہے۔ اور جو شخص ناحق لے گا، اس کی مثال اس جانور کی مثال ہے جو کھاتا ہے اور سیر نہیں ہوتا (اور اپنی ہلاکت کا ساماں پیدا کر لیتا ہے)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو کچھ مال دیا کرتے تھے تو جناب عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے تھے کہ یا رسول اللہ! مجھ سے زیادہ احتیاج رکھنے والے کو عنایت کیجئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مال لے لو اور خواہ اپنے پاس رکھو، خواہ صدقہ دے دو۔ اور جو اس قسم کے مال سے تمہارے پاس آئے اور تم نے اس کی خواہش نہیں کی اور نہ سوال کیا ہو تو اس کو لے لیا کرو اور جو اس طرح نہ ہو، اس کے پیچھے اپنے نفس کو مت لگاؤ۔ سالم نے کہا کہ اسی وجہ سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کسی سے کچھ نہ مانگتے تھے اور اگر کوئی دیتا تھا تو رد نہ کرتے تھے۔
سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بڑی رقم کا قرضدار ہو گیا (یعنی دو قبیلوں کی اصلاح وغیرہ کے لئے یا کسی اور امر خیر کے واسطے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ٹھہرو کہ ہمارے پاس صدقات کا مال آئے گا تو ہم اس میں سے تمہیں کچھ دینے کا حکم دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے قبیصہ سوال حلال نہیں مگر تین شخصوں کو۔ ایک تو وہ جو قرضدار ہو جائے (کسی امر خیر میں) تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو اتنا مال مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے، پھر سوال سے باز رہے۔ دوسرے وہ شخص کہ اس کے مال میں آفت پہنچی ہو کہ اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو اتنی رقم مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے۔ (یا لفظ ”سدادًا“ فرمایا) تیسرا وہ شخص کہ اس کو فاقہ پہنچا ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند شخص گواہی دیں کہ بیشک اس کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کو بھی سوال جائز ہے جب تک کہ اپنی گزران درست ہونے کے موافق نہ پائے۔ اور سوا ان لوگوں کے اے قبیصہ! سوال حرام ہے (اور ان کے سوا جو سوال کرنے والا ہے) وہ حرام کھاتا ہے۔