مختصر صحيح مسلم
صدقہ فطر کا بیان
کس کے لئے سوال کرنا حلال ہے۔
حدیث نمبر: 568
سیدنا قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک بڑی رقم کا قرضدار ہو گیا (یعنی دو قبیلوں کی اصلاح وغیرہ کے لئے یا کسی اور امر خیر کے واسطے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ سے سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ٹھہرو کہ ہمارے پاس صدقات کا مال آئے گا تو ہم اس میں سے تمہیں کچھ دینے کا حکم دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے قبیصہ سوال حلال نہیں مگر تین شخصوں کو۔ ایک تو وہ جو قرضدار ہو جائے (کسی امر خیر میں) تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو اتنا مال مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے، پھر سوال سے باز رہے۔ دوسرے وہ شخص کہ اس کے مال میں آفت پہنچی ہو کہ اس کا مال ضائع ہو گیا ہو تو اس کو سوال حلال ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو اتنی رقم مل جائے کہ اس کی گزران درست ہو جائے۔ (یا لفظ ”سدادًا“ فرمایا) تیسرا وہ شخص کہ اس کو فاقہ پہنچا ہو اور اس کی قوم کے تین عقلمند شخص گواہی دیں کہ بیشک اس کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کو بھی سوال جائز ہے جب تک کہ اپنی گزران درست ہونے کے موافق نہ پائے۔ اور سوا ان لوگوں کے اے قبیصہ! سوال حرام ہے (اور ان کے سوا جو سوال کرنے والا ہے) وہ حرام کھاتا ہے۔