(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف , حدثنا مالك , عن نافع، ان عبد الله بن عمر رضي الله عنهما , كان إذا سئل عن صلاة الخوف , قال:"يتقدم الإمام وطائفة من الناس، فيصلي بهم الإمام ركعة وتكون طائفة منهم بينهم وبين العدو لم يصلوا، فإذا صلى الذين معه ركعة استاخروا مكان الذين لم يصلوا، ولا يسلمون ويتقدم الذين لم يصلوا فيصلون معه ركعة، ثم ينصرف الإمام وقد صلى ركعتين، فيقوم كل واحد من الطائفتين، فيصلون لانفسهم ركعة بعد ان ينصرف الإمام , فيكون كل واحد من الطائفتين قد صلى ركعتين، فإن كان خوف هو اشد من ذلك صلوا رجالا قياما على اقدامهم او ركبانا مستقبلي القبلة او غير مستقبليها"، قال مالك: قال نافع: لا ارى عبد الله بن عمر ذكر ذلك إلا , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا مَالِكٌ , عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , كَانَ إِذَا سُئِلَ عَنْ صَلَاةِ الْخَوْفِ , قَالَ:"يَتَقَدَّمُ الْإِمَامُ وَطَائِفَةٌ مِنَ النَّاسِ، فَيُصَلِّي بِهِمُ الْإِمَامُ رَكْعَةً وَتَكُونُ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْعَدُوِّ لَمْ يُصَلُّوا، فَإِذَا صَلَّى الَّذِينَ مَعَهُ رَكْعَةً اسْتَأْخَرُوا مَكَانَ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا، وَلَا يُسَلِّمُونَ وَيَتَقَدَّمُ الَّذِينَ لَمْ يُصَلُّوا فَيُصَلُّونَ مَعَهُ رَكْعَةً، ثُمَّ يَنْصَرِفُ الْإِمَامُ وَقَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَيَقُومُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ، فَيُصَلُّونَ لِأَنْفُسِهِمْ رَكْعَةً بَعْدَ أَنْ يَنْصَرِفَ الْإِمَامُ , فَيَكُونُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنَ الطَّائِفَتَيْنِ قَدْ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، فَإِنْ كَانَ خَوْفٌ هُوَ أَشَدَّ مِنْ ذَلِكَ صَلَّوْا رِجَالًا قِيَامًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ أَوْ رُكْبَانًا مُسْتَقْبِلِي الْقِبْلَةِ أَوْ غَيْرَ مُسْتَقْبِلِيهَا"، قَالَ مَالِكٌ: قَالَ نَافِعٌ: لَا أُرَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ذَكَرَ ذَلِكَ إِلَّا , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ جب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے نماز خوف کے متعلق پوچھا جاتا تو وہ فرماتے کہ امام مسلمانوں کی ایک جماعت کو لے کر خود آگے بڑھے اور انہیں ایک رکعت نماز پڑھائے۔ اس دوران میں مسلمانوں کی دوسری جماعت ان کے اور دشمن کے درمیان میں رہے۔ یہ لوگ نماز میں ابھی شریک نہ ہوں، پھر جب امام ان لوگوں کو ایک رکعت پڑھا چکے جو پہلے اس کے ساتھ تھے تو اب یہ لوگ پیچھے ہٹ جائیں اور ان کی جگہ لے لیں، جنہوں نے اب تک نماز نہیں پڑھی ہے، لیکن یہ لوگ سلام نہ پھیریں۔ اب وہ لوگ آگے بڑھیں جنہوں نے نماز نہیں پڑھی ہے اور امام انہیں بھی ایک رکعت نماز پڑھائے، اب امام دو رکعت پڑھ چکنے کے بعد نماز سے فارغ ہو چکا۔ پھر دونوں جماعتیں (جنہوں نے الگ الگ امام کے ساتھ ایک ایک رکعت نماز پڑھی تھی) اپنی باقی ایک ایک رکعت ادا کر لیں۔ جبکہ امام اپنی نماز سے فارغ ہو چکا ہے۔ اس طرح دونوں جماعتوں کی دو دو رکعت پوری ہو جائیں گی۔ لیکن اگر خوف اس سے بھی زیادہ ہے تو ہر شخص تنہا نماز پڑھ لے، پیدل ہو یا سوار، قبلہ کی طرف رخ ہو یا نہ ہو۔ امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے کہ مجھ کو یقین ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ باتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر ہی بیان کی ہیں۔
Narrated Nafi`: Whenever `Abdullah bin `Umar was asked about Salat-al-Khauf (i.e. prayer of fear) he said, "The Imam comes forward with a group of people and leads them in a one rak`a prayer while another group from them who has not prayed yet, stay between the praying group and the enemy. When those who are with the Imam have finished their one rak`a, they retreat and take the positions of those who have not prayed but they will not finish their prayers with Taslim. Those who have not prayed, come forward to offer a rak`a with the Imam (while the first group covers them from the enemy). Then the Imam, having offered two rak`at, finishes his prayer. Then each member of the two groups offer the second rak`a alone after the Imam has finished his prayer. Thus each one of the two groups will have offered two rak`at. But if the fear is too great, they can pray standing on their feet or riding on their mounts, facing the Qibla or not." Nafi` added: I do not think that `Abdullah bin `Umar narrated this except from Allah's Messenger (See Hadith No. 451, Vol 5 to know exactly "The Fear Prayer.")
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 59
(موقوف) حدثني عبد الله بن ابي الاسود , حدثنا حميد بن الاسود , ويزيد بن زريع , قالا: حدثنا حبيب بن الشهيد , عن ابن ابي مليكة , قال: قال ابن الزبير , قلت: لعثمان هذه الآية التي في البقرة والذين يتوفون منكم ويذرون ازواجا إلى قوله غير إخراج سورة البقرة آية 234 - 240 قد نسختها الاخرى فلم تكتبها، قال:" تدعها يا ابن اخي لا اغير شيئا منه من مكانه" , قال حميد: او نحو هذا.(موقوف) حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ , حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ , وَيَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , قَالَ: قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ , قُلْتُ: لِعُثْمَانَ هَذِهِ الْآيَةُ الَّتِي فِي الْبَقَرَةِ وَالَّذِينَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَيَذَرُونَ أَزْوَاجًا إِلَى قَوْلِهِ غَيْرَ إِخْرَاجٍ سورة البقرة آية 234 - 240 قَدْ نَسَخَتْهَا الْأُخْرَى فَلِمَ تَكْتُبُهَا، قَالَ:" تَدَعُهَا يَا ابْنَ أَخِي لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْهُ مِنْ مَكَانِهِ" , قَالَ حُمَيْدٌ: أَوْ نَحْوَ هَذَا.
مجھ سے عبداللہ بن ابی اسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حمید بن اسود اور یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب بن شہید نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ سورۃ البقرہ کی آیت «والذين يتوفون منكم ويذرون أزواجا» یعنی ”جو لوگ تم میں سے وفات پا جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں۔“ اللہ تعالیٰ کے فرمان «غير إخراج» تک کو دوسری آیت نے منسوخ کر دیا ہے۔ اس کو آپ نے مصحف میں کیوں لکھوایا، چھوڑ کیوں نہیں دیا؟ انہوں نے کہا: میرے بھتیجے! میں کسی آیت کو اس کے ٹھکانے سے بدلنے والا نہیں۔ یہ حمید نے کہا یا کچھ ایسا ہی جواب دیا۔
Narrated Ibn Az-Zubair: I said to `Uthman, "This Verse which is in Surat-al-Baqara: "Those of you who die and leave widows behind...without turning them out." has been abrogated by another Verse. Why then do you write it (in the Qur'an)?" `Uthman said. "Leave it (where it is), O the son of my brother, for I will not shift anything of it (i.e. the Qur'an) from its original position."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 60
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح , حدثنا ابن وهب , اخبرني يونس , عن ابن شهاب , عن ابي سلمةوسعيد، عن ابي هريرة رضي الله عنه , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نحن احق بالشك من إبراهيم إذ قال: رب ارني كيف تحيي الموتى قال اولم تؤمن قال بلى ولكن ليطمئن قلبي سورة البقرة آية 260.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ , حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ , أَخْبَرَنِي يُونُسُ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَوَسَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ: رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي سورة البقرة آية 260.
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، ان سے ابن وہب نے بیان کیا، انہیں یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں ابوسلمہ اور سعید نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”شک کرنے کا ہمیں ابراہیم علیہ السلام سے زیادہ حق ہے، جب انہوں نے عرض کیا تھا کہ اے میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرے گا، اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا، کیا تجھ کو یقین نہیں ہے؟ عرض کی یقین ضرور ہے، لیکن میں نے یہ درخواست اس لیے کی ہے کہ میرے دل کو اور اطمینان حاصل ہو جائے۔“
Narrated Abu Huraira: Allah's Messenger said, "We have more right to be in doubt than Abraham when he said, 'My Lord! Show me how You give life to the dead.' He said, 'Do you not believe?' He said, 'Yes (I believe) but to be stronger in Faith.' "(2.260)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 61
(موقوف) حدثنا إبراهيم , اخبرنا هشام , عن ابن جريج , سمعت عبد الله بن ابي مليكة يحدث، عن ابن عباس، قال: وسمعت اخاه ابا بكر بن ابي مليكة يحدث , عن عبيد بن عمير , قال: قال عمر رضي الله عنه: يوما لاصحاب النبي صلى الله عليه وسلم:" فيم ترون هذه الآية نزلت ايود احدكم ان تكون له جنة سورة البقرة آية 266؟" قالوا: الله اعلم، فغضب عمر , فقال: قولوا:" نعلم او لا نعلم" , فقال ابن عباس: في نفسي منها شيء يا امير المؤمنين , قال عمر:" يا ابن اخي قل ولا تحقر نفسك" , قال ابن عباس: ضربت مثلا لعمل، قال عمر:" اي عمل"، قال ابن عباس: لعمل , قال عمر: لرجل غني يعمل بطاعة الله عز وجل، ثم بعث الله له الشيطان، فعمل بالمعاصي حتى اغرق اعماله".(موقوف) حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ , أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُ أَخَاهُ أَبَا بَكْرِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ , قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَوْمًا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيمَ تَرَوْنَ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ سورة البقرة آية 266؟" قَالُوا: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَغَضِبَ عُمَرُ , فَقَالَ: قُولُوا:" نَعْلَمُ أَوْ لَا نَعْلَمُ" , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي نَفْسِي مِنْهَا شَيْءٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , قَالَ عُمَرُ:" يَا ابْنَ أَخِي قُلْ وَلَا تَحْقِرْ نَفْسَكَ" , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ضُرِبَتْ مَثَلًا لِعَمَلٍ، قَالَ عُمَرُ:" أَيُّ عَمَلٍ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِعَمَلٍ , قَالَ عُمَرُ: لِرَجُلٍ غَنِيٍّ يَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ بَعَثَ اللَّهُ لَهُ الشَّيْطَانَ، فَعَمِلَ بِالْمَعَاصِي حَتَّى أَغْرَقَ أَعْمَالَهُ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے، ابن جریج نے کہا اور میں نے ابن ابی ملیکہ کے بھائی ابوبکر بن ابی ملیکہ سے بھی سنا، وہ عبید بن عمیر سے روایت کرتے تھے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے «أيود أحدكم أن تكون له جنة»”کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔“ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: امیرالمؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹے! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیسے عمل کی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں۔
Narrated Ubaid bin Umair: Once `Umar (bin Al-Khattab) said to the companions of the Prophet "What do you think about this Verse:--"Does any of you wish that he should have a garden?" They replied, "Allah knows best." `Umar became angry and said, "Either say that you know or say that you do not know!" On that Ibn `Abbas said, "O chief of the believers! I have something in my mind to say about it." `Umar said, "O son of my brother! Say, and do not under estimate yourself." Ibn `Abbas said, "This Verse has been set up as an example for deeds." `Umar said, "What kind of deeds?" Ibn `Abbas said, "For deeds." `Umar said, "This is an example for a rich man who does goods out of obedience of Allah and then Allah sends him Satan whereupon he commits sins till all his good deeds are lost."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 62
يقال الحف علي والح علي واحفاني بالمسالة فيحفكم: يجهدكم.يُقَالُ أَلْحَفَ عَلَيَّ وَأَلَحَّ عَلَيَّ وَأَحْفَانِي بِالْمَسْأَلَةِ فَيُحْفِكُمْ: يُجْهِدْكُمْ.
عرب لوگ «ألحف» اور «ألح» اور «أحفاني بالمسألة» جب کہتے ہیں کہ کوئی گڑگڑا کر پیچھے لگ کر سوال کرے۔ «فيحفكم» کے معنی تمہیں مشقت میں ڈال دے، نہ تھکا دے۔
ہم سے سعید ابن ابی مریم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے شریک بن ابی نمر نے بیان کیا، ان سے عطاء بن یسار اور عبدالرحمٰن بن ابی عمرہ انصاری نے بیان کیا اور انہوں نے کہا ہم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک یا دو کھجور، ایک یا دو لقمے در بدر لیے پھریں، بلکہ مسکین وہ ہے جو مانگنے سے بچتا رہے اور اگر تم دلیل چاہو تو (قرآن سے) اس آیت کو پڑھ لو «لا يسألون الناس إلحافا» کہ ”وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے۔“
Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "The poor person is not the one for whom a date or two or a morsel or two (of food is sufficient but the poor person is he who does not (beg or) ask the people (for something) or show his poverty at all. Recite if you wish, (Allah's Statement): "They do not beg of people at all." (2.273)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 63
(مرفوع) حدثنا عمر بن حفص بن غياث , حدثنا ابي , حدثنا الاعمش، حدثنا مسلم , عن مسروق , عن عائشة رضي الله عنها , قالت:" لما نزلت الآيات من آخر سورة البقرة في الربا قراها رسول الله صلى الله عليه وسلم على الناس، ثم حرم التجارة في الخمر".(مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , قَالَتْ:" لَمَّا نَزَلَتِ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ فِي الرِّبَا قَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النَّاسِ، ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہمارے والد نے بیان کیا، ہم سے اعمش نے بیان کیا، ہم سے مسلم نے بیان کیا، ان سے مسروق نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سود کے سلسلے میں سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پڑھ کر لوگوں کو سنایا اور اس کے بعد شراب کی تجارت بھی حرام قرار پائی۔
Narrated `Aisha: When the Verses of Surat-al-Baqara regarding usury (i.e. Riba) were revealed, Allah's Messenger recited them before the people and then he prohibited the trade of alcoholic liquors.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 64
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں سلیمان اعمش نے، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالضحیٰ سے سنا، وہ مسروق سے روایت کرتے تھے کہ ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور مسجد میں انہیں پڑھ کر سنایا اس کے بعد شراب کی تجارت حرام ہو گئی۔
Narrated `Aisha: When the last Verses of Surat-al-Baqara were revealed. Allah's Messenger went out and recited them in the Mosque and prohibited the trade of alcoholic liquors.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 65
(مرفوع) حدثني محمد بن بشار , حدثنا غندر , حدثنا شعبة , عن منصور , عن ابي الضحى، عن مسروق , عن عائشة، قالت:" لما انزلت الآيات من آخر سورة البقرة قراهن النبي صلى الله عليه وسلم عليهم في المسجد وحرم التجارة في الخمر".(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" لَمَّا أُنْزِلَتِ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ قَرَأَهُنَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ فِي الْمَسْجِدِ وَحَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیتیں نازل ہوئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں پڑھ کر سنایا اور شراب کی تجارت حرام قرار دی گئی۔
Narrated `Aisha: When the last Verses of Surat-al-Baqara were revealed, the Prophet read them in the Mosque and prohibited the trade of alcoholic liquors. "If the debtor is in difficulty, grant him time till it is easy for him to repay.." (2.280) Narrated `Aisha: When the last Verses of Surat-al-Baqara were revealed, Allah's Messenger stood up and recited them before us and then prohibited the trade of alcoholic liquors.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 66
52. باب: آیت کی تفسیر ”اگر مقروض تنگ دست ہے تو اس کے لیے آسانی مہیا ہونے تک مہلت دینا بہتر ہے اور اگر تم اس کا قرض معاف ہی کر دو تو تمہارے حق میں یہ اور بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہو“۔
(52) Chapter. “And if the debtor is in a hard time (has no money), then grant him time till it is easy for him to repay..." (V.2:280)
(مرفوع) وقال لنا محمد بن يوسف، عن سفيان , عن منصور، والاعمش , عن ابي الضحى , عن مسروق , عن عائشة , قالت:" لما انزلت الآيات من آخر سورة البقرة قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فقراهن علينا، ثم حرم التجارة في الخمر".(مرفوع) وقَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ , عَنْ مَنْصُورٍ، وَالْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي الضُّحَى , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ:" لَمَّا أُنْزِلَتِ الْآيَاتُ مِنْ آخِرِ سُورَةِ الْبَقَرَةِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَرَأَهُنَّ عَلَيْنَا، ثُمَّ حَرَّمَ التِّجَارَةَ فِي الْخَمْرِ".
اور ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے منصور اور اعمش نے، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب سورۃ البقرہ کی آخری آیات نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور ہمیں پڑھ کر سنایا پھر شراب کی تجارت حرام کر دی۔