Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
47. بَابُ قَوْلِهِ: {أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ} إِلَى قَوْلِهِ: {تَتَفَكَّرُونَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو“ آخر آیت «تتفكرون» تک۔
حدیث نمبر: 4538
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ , أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ , سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَسَمِعْتُ أَخَاهُ أَبَا بَكْرِ بْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ , قَالَ: قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَوْمًا لِأَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فِيمَ تَرَوْنَ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ أَيَوَدُّ أَحَدُكُمْ أَنْ تَكُونَ لَهُ جَنَّةٌ سورة البقرة آية 266؟" قَالُوا: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَغَضِبَ عُمَرُ , فَقَالَ: قُولُوا:" نَعْلَمُ أَوْ لَا نَعْلَمُ" , فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فِي نَفْسِي مِنْهَا شَيْءٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ , قَالَ عُمَرُ:" يَا ابْنَ أَخِي قُلْ وَلَا تَحْقِرْ نَفْسَكَ" , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ضُرِبَتْ مَثَلًا لِعَمَلٍ، قَالَ عُمَرُ:" أَيُّ عَمَلٍ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لِعَمَلٍ , قَالَ عُمَرُ: لِرَجُلٍ غَنِيٍّ يَعْمَلُ بِطَاعَةِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ بَعَثَ اللَّهُ لَهُ الشَّيْطَانَ، فَعَمِلَ بِالْمَعَاصِي حَتَّى أَغْرَقَ أَعْمَالَهُ".
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشام نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہوں نے عبداللہ بن ابی ملیکہ سے سنا، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے تھے، ابن جریج نے کہا اور میں نے ابن ابی ملیکہ کے بھائی ابوبکر بن ابی ملیکہ سے بھی سنا، وہ عبید بن عمیر سے روایت کرتے تھے کہ ایک دن عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے دریافت کیا کہ آپ لوگ جانتے ہو یہ آیت کس سلسلے میں نازل ہوئی ہے «أيود أحدكم أن تكون له جنة‏» کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اس کا ایک باغ ہو۔ سب نے کہا کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ بہت خفا ہو گئے اور کہا، صاف جواب دیں کہ آپ لوگوں کو اس سلسلے میں کچھ معلوم ہے یا نہیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: امیرالمؤمنین! میرے دل میں ایک بات آتی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بیٹے! تمہیں کہو اور اپنے کو حقیر نہ سمجھو۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ اس میں عمل کی مثال بیان کی گئی ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، کیسے عمل کی؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا کہ عمل کی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ ایک مالدار شخص کی مثال ہے جو اللہ کی اطاعت میں نیک عمل کرتا رہتا ہے۔ پھر اللہ شیطان کو اس پر غالب کر دیتا ہے، وہ گناہوں میں مصروف ہو جاتا ہے اور اس کے اگلے نیک اعمال سب غارت ہو جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4538 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4538  
حدیث حاشیہ:
دوسری روایت میں یوں ہے کہ ساری عمر تو نیک عمل کرتا رہتا ہے جب آخر عمر ہوتی ہے اور نیک عملوں کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، اس وقت برے کام کرنے لگتا ہے اور اس کی ساری اگلی نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔
(فتح الباری)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4538   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4538  
حدیث حاشیہ:

اس شخص کی حالت یہ ہوتی ہے کہ اسے برھاپے میں باغ اور اس کی پیداوار کی انتہائی ضرورت ہوتی ہےاور از سر نو باغ لگانے کا موقع بھی نہیں ہوتا اور اس کے بچے کمزور ہونے کی وجہ سے اس کی مدد نہیں کر سکتے وہ تو خود اس سے بھی زیادہ محتاج ہوتے ہیں لہٰذا کوئی نیک عمل مثلاً:
خیرات کرنے کے بعد اس کی پوری حفاظت کرنا بھی ضروری ہوتی ہے ایسا نہیں ہو نا چاہیے کہ احسان جتلانے بیگار لینے یا شرک کر بیٹھنے سے اپنا باغ جلا بیٹھے کہ آخرت میں اسے اعمال میں سے کوئی چیز بھی ہاتھ نہ آئے جبکہ وہاں اسے اعمال کی شدید ضرورت ہو۔

اس حدیث میں شیطان کے غالب آنے سے مراد یہ ہے کہ انسان حصول مال میں اس قدر مگن ہو جائے کہ اللہ کی اطاعت سے بے پروا ہو جائے یا ایسی نا فرمانیوں مثلاً شرک و بدعت میں مبتلا ہو جائے جن سے اس کے تمام نیک اعمال ضائع ہو جائیں۔
مطلب یہ ہے کہ صدقہ و خیرات پھل دار باغ کی طرح ہے کہ اس کا میوہ آخرت میں کام آئے جب نیت بری ہے ہے تو وہ باغ جل گیا پھر اس کا میوہ جو ثواب ہے کیونکر نصیب ہو سکتا ہے۔
واللہ اعلم۔

حضرت عمرؓ نے عمل کے ساتھ مال دار کی قید لگا دی جو مثل لہ سے ماخوذ ہے۔
حافظ ابن حجرؒ نے اس مثال کی مزید وضاحت کے لیے ابن جریر طبری ؒ کے حوالے سے ایک روایت نقل فرمائی ہے۔
اس سے مرادعمل ہے آدمی کو باغ کی زیادہ ضرورت اس وقت ہوتی ہے جب اس کی عمر ڈھل جائے اور اہل و عیال بڑھ جائیں اور بندے کو عمل کی زیادہ ضرورت اس وقت ہوگی جب قیامت کے دن اسے اٹھا یا جائے گا۔
(فتح الباري: 254/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4538