ہم سے سعید بن نضر نے بیان کیا، کہا ہم کو ہشیم نے خبر دی، کہا مجھ کو ابوبشر جعفر بن ایاس نے خبر دی، ان سے مجاہد نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «لتركبن طبقا عن طبق» یعنی ”تم کو ضرور ایک حالت کے بعد دوسرے حالت پر پہنچنا ہے۔“ بیان کیا کہ یہاں مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ آپ کو کامیابی رفتہ رفتہ حاصل ہو گی۔
Narrated Ibn `Abbas: (as regards the Verse):--'You shall surely travel from stage to stage (in this life and in the Hereafter).' (It means) from one state to another. That concerns your Prophet.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 464
وقال مجاهد: ذات الرجع: سحاب يرجع بالمطر، ذات الصدع: تتصدع بالنبات.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: ذَاتِ الرَّجْعِ: سَحَابٌ يَرْجِعُ بِالْمَطَرِ، ذَاتِ الصَّدْعِ: تَتَصَدَّعُ بِالنَّبَاتِ.
مجاہد نے کہا «ذات الرجع»، «ابر» کی صفت ہے (تو «سماء» سے «ابر» مراد ہے) یعنی باربار برسنے والا۔ «ذات الصدع» باربار اگانے والی، پھوٹنے والی، یہ زمین کی صفت ہے۔
(مرفوع) حدثنا عبدان، قال: اخبرني ابي، عن شعبة، عن ابي إسحاق، عن البراء رضي الله عنه، قال:" اول من قدم علينا من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مصعب بن عمير وابن ام مكتوم، فجعلا يقرئاننا القرآن، ثم جاء عمار وبلال وسعد، ثم جاء عمر بن الخطاب في عشرين، ثم جاء النبي صلى الله عليه وسلم، فما رايت اهل المدينة، فرحوا بشيء فرحهم به حتى رايت الولائد والصبيان، يقولون: هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جاء، فما جاء حتى قرات سبح اسم ربك الاعلى سورة الاعلى آية 1 في سور مثلها".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَجَعَلَا يُقْرِئَانِنَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ جَاءَ عَمَّارٌ وَبِلَالٌ وَسَعْدٌ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَيْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَرِحُوا بِشَيْءٍ فَرَحَهُمْ بِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْوَلَائِدَ وَالصِّبْيَانَ، يَقُولُونَ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ، فَمَا جَاءَ حَتَّى قَرَأْتُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى آية 1 فِي سُوَرٍ مِثْلِهَا".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مہاجر) صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما تھے۔ مدینہ پہنچ کر ان بزرگوں نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا۔ پھر عمار، بلال اور سعد رضی اللہ عنہم آئے۔ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا، جتنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہی «سبح اسم ربك الأعلى» اور اس جیسی اور سورتیں پڑھ لی تھیں۔
Narrated Al-Bara: The first of the companions of the Prophet who came to us (in Medina), were Mus`ab bin `Umar and Ibn Um Maktum, and they started teaching us the Qur'an. Then came `Ammar, Bilal and Sa`d. Afterwards `Umar bin Al-Kkattab came along with a batch of twenty (men): and after that the Prophet came. I never saw the people of Medina so pleased with anything as they were with his arrival, so that even the little boys and girls were saying, "This is Allah's Messenger who has come." He (the Prophet ) did not come (to Medina) till I had learnt Surat Al-Ala and also other similar Suras.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 465
وقال ابن عباس: عاملة ناصبة: النصارى، وقال مجاهد: عين آنية: بلغ إناها وحان شربها، حميم آن: بلغ إناه، لا تسمع فيها لاغية: شتما ويقال الضريع نبت يقال له الشبرق يسميه اهل الحجاز الضريع إذا يبس وهو سم، بمسيطر: بمسلط ويقرا بالصاد والسين، وقال ابن عباس: إيابهم: مرجعهم.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ: النَّصَارَى، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: عَيْنٍ آنِيَةٍ: بَلَغَ إِنَاهَا وَحَانَ شُرْبُهَا، حَمِيمٍ آنٍ: بَلَغَ إِنَاهُ، لَا تَسْمَعُ فِيهَا لَاغِيَةً: شَتْمًا وَيُقَالُ الضَّرِيعُ نَبْتٌ يُقَالُ لَهُ الشِّبْرِقُ يُسَمِّيهِ أَهْلُ الْحِجَازِ الضَّرِيعَ إِذَا يَبِسَ وَهُوَ سُمٌّ، بِمُسَيْطِرٍ: بِمُسَلَّطٍ وَيُقْرَأُ بِالصَّادِ وَالسِّينِ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِيَابَهُمْ: مَرْجِعَهُمْ.
اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «عاملة ناصبة» سے نصاریٰ مراد ہیں۔ مجاہد نے کہ «عين آنية» یعنی گرمی کی حد کو پہنچ گیا اس کے پینے کا وقت آن پہنچا (سورۃ الرحمن میں) «حميم آن» کا بھی یہی معنی ہے یعنی گرمی کی حد کو پہنچ گیا۔ «لا تسمع فيها لاغية» وہاں گالی گلوچ نہیں سنائی دے گی۔ «الضريع» ایک بھاجی ہے جسے «شبرق» کہتے ہیں حجاز والے اس کو «ضريع» کہتے ہیں جب وہ سوکھ جاتی ہے یہ زہر ہے۔ «بمسيطر»(سین سے) مطلقاً کڑوی بعضوں نے صاد سے پڑھا ہے «بمصيطر» ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «إيابهم» ان کا لوٹنا۔ «عاملة ناصبه» سے اہل بیعت مراد ہیں۔
وقال مجاهد: الوتر الله إرم ذات العماد: يعني القديمة والعماد اهل عمود لا يقيمون، سوط عذاب: الذي عذبوا به، اكلا لما: السف، وجما: الكثير، وقال مجاهد: كل شيء خلقه فهو شفع السماء شفع والوتر الله تبارك وتعالى، وقال غيره: سوط عذاب: كلمة تقولها العرب لكل نوع من العذاب يدخل فيه السوط، لبالمرصاد: إليه المصير، تحاضون: تحافظون وتحضون تامرون بإطعامه، المطمئنة: المصدقة بالثواب، وقال الحسن: يا ايتها النفس المطمئنة: إذا اراد الله عز وجل قبضها اطمانت إلى الله واطمان الله إليها ورضيت عن الله ورضي الله عنها، فامر بقبض روحها وادخلها الله الجنة وجعله من عباده الصالحين، وقال غيره: جابوا: نقبوا من جيب القميص قطع له جيب يجوب الفلاة يقطعها، لما: لممته اجمع اتيت على آخره.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: الْوَتْرُ اللَّهُ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ: يَعْنِي الْقَدِيمَةَ وَالْعِمَادُ أَهْلُ عَمُودٍ لَا يُقِيمُونَ، سَوْطَ عَذَابٍ: الَّذِي عُذِّبُوا بِهِ، أَكْلًا لَمًّا: السَّفُّ، وَجَمًّا: الْكَثِيرُ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: كُلُّ شَيْءٍ خَلَقَهُ فَهُوَ شَفْعٌ السَّمَاءُ شَفْعٌ وَالْوَتْرُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَقَالَ غَيْرُهُ: سَوْطَ عَذَابٍ: كَلِمَةٌ تَقُولُهَا الْعَرَبُ لِكُلِّ نَوْعٍ مِنَ الْعَذَابِ يَدْخُلُ فِيهِ السَّوْطُ، لَبِالْمِرْصَادِ: إِلَيْهِ الْمَصِيرُ، تَحَاضُّونَ: تُحَافِظُونَ وَتَحُضُّونَ تَأْمُرُونَ بِإِطْعَامِهِ، الْمُطْمَئِنَّةُ: الْمُصَدِّقَةُ بِالثَّوَابِ، وَقَالَ الْحَسَنُ: يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ: إِذَا أَرَادَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَبْضَهَا اطْمَأَنَّتْ إِلَى اللَّهِ وَاطْمَأَنَّ اللَّهُ إِلَيْهَا وَرَضِيَتْ عَنِ اللَّهِ وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَمَرَ بِقَبْضِ رُوحِهَا وَأَدْخَلَهَا اللَّهُ الْجَنَّةَ وَجَعَلَهُ مِنْ عِبَادِهِ الصَّالِحِينَ، وَقَالَ غَيْرُهُ: جَابُوا: نَقَبُوا مِنْ جِيبَ الْقَمِيصُ قُطِعَ لَهُ جَيْبٌ يَجُوبُ الْفَلَاةَ يَقْطَعُهَا، لَمًّا: لَمَمْتُهُ أَجْمَعَ أَتَيْتُ عَلَى آخِرِهِ.
مجاہد نے کہا «وتر» سے مراد اللہ تعالیٰ ہے۔ «إرم ذات العماد» سے پرانی قوم عاد مراد ہے۔ «عماد» کے معنی خیمہ کے ہیں، یہ لوگ خانہ بدوش تھے۔ جہاں پانی چارہ پاتے وہیں خیمہ لگا کر رہ جاتے۔ «سوط عذاب» کا معنی یہ کہ ان کو عذاب دیا گیا۔ «أكلا لما» سب چیز سمیٹ کر کھا جانا۔ «حبا جما» بہت محبت رکھنا۔ مجاہد نے کہا اللہ نے جس چیز کو پیدا کیا وہ ( «شفع») جوڑا ہے آسمان بھی زمین کا جوڑا ہے اور «وتر» صرف اللہ پاک ہی ہے۔ اوروں نے کہا «سوط عذاب» یہ عرب کا ایک محاورہ ہے جو ہر ایک قسم کے عذاب کو کہتے ہیں من جملہ ان کے ایک کوڑے کا بھی عذاب ہے۔ «لبالمرصاد» یعنی اللہ کی طرف سب کو پھر جانا ہے۔ «لا تحاضون»(الف کے ساتھ جیسے مشہور قرآت ہے) محافظت نہیں کرتے ہو بعضوں نے «متحضون» پڑھا ہے یعنی حکم نہیں دیتے ہو، «المطمئنة» وہ نفس جو اللہ کے ثواب پر یقین رکھنے والا ہو، مومن، کامل الایمان۔ امام حسن بصری نے کہا «نفس المطمئنة» وہ نفس کہ جب اللہ اس کو بلانا چاہے (موت آئے) تو اللہ کے پاس چین نصیب ہو، اللہ اس سے خوش ہو، وہ اللہ سے خوش ہو۔ پھر اللہ اس کی روح قبض کرنے کا حکم دے اور اس کو بہشت میں لے جائے، اپنے نیک بندوں میں شامل فرما دے۔ اوروں نے کہا «جابوا» کا معنی کریدکرید کر مکان بنانا یہ «جيب» سے نکلا ہے جب اس میں «جيب» لگائی جائے، اسی طرح عرب لوگ کہتے ہیں «فلان يجوب الفلاة» وہ جنگل قطع کرتا ہے «لما» عرب لوگ کہتے ہیں «لممته» جمع میں اس کے اخیر تک پہنچ گیا۔
وقال مجاهد: وانت حل بهذا البلد: بمكة ليس عليك ما على الناس فيه من الإثم، ووالد: آدم، وما ولد، لبدا: كثيرا، والنجدين: الخير والشر، مسغبة، مجاعة: متربة، الساقط في التراب يقال: فلا اقتحم العقبة، فلم يقتحم العقبة في الدنيا، ثم فسر العقبة، فقال: وما ادراك ما العقبة، فك رقبة، او إطعام في يوم ذي مسغبة.وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ: بِمَكَّةَ لَيْسَ عَلَيْكَ مَا عَلَى النَّاسِ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ، وَوَالِدٍ: آدَمَ، وَمَا وَلَدَ، لُبَدًا: كَثِيرًا، وَالنَّجْدَيْنِ: الْخَيْرُ وَالشَّرُّ، مَسْغَبَةٍ، مَجَاعَةٍ: مَتْرَبَةٍ، السَّاقِطُ فِي التُّرَابِ يُقَالُ: فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ، فَلَمْ يَقْتَحِمْ الْعَقَبَةَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ فَسَّرَ الْعَقَبَةَ، فَقَالَ: وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ، فَكُّ رَقَبَةٍ، أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ.
مجاہد نے کہا «بهذا البلد» سے مکہ مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خاص تیرے لیے یہ شہر حلال ہوا اوروں کو وہاں لڑنا گناہ ہے۔ «والد» سے آدم، «وما ولد» سے ان کی اولاد مراد ہے۔ «لبدا» بہت سارا۔ «النجدين» دو رستے بھلے اور برے۔ «مسغبة» بھوک۔ «متربة» مٹی میں پڑا رہنا مراد ہے۔ «فلا اقتحم العقبة» یعنی اس نے دنیا میں گھاٹی نہیں پھاندی پھر گھاٹی پھاندنے کو آگے بیان کیا۔ «برده» غلام آزاد کرنا بھوک اور تکلیف کے دن بھوکوں کو کھانا کھلانا۔
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا هشام، عن ابيه، انه اخبره عبد الله بن زمعة، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يخطب وذكر الناقة والذي عقر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إذ انبعث اشقاها سورة الشمس آية 12" انبعث لها رجل عزيز عارم منيع في رهطه مثل ابي زمعة، وذكر النساء، فقال:" يعمد احدكم فيجلد امراته جلد العبد، فلعله يضاجعها من آخر يومه، ثم وعظهم في ضحكهم من الضرطة، وقال: لم يضحك احدكم مما يفعل"، وقال ابو معاوية: حدثنا هشام، عن ابيه، عن عبد الله بن زمعة، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" مثل ابي زمعة عم الزبير بن العوام".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَمْعَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ وَذَكَرَ النَّاقَةَ وَالَّذِي عَقَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذِ انْبَعَثَ أَشْقَاهَا سورة الشمس آية 12" انْبَعَثَ لَهَا رَجُلٌ عَزِيزٌ عَارِمٌ مَنِيعٌ فِي رَهْطِهِ مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ، وَذَكَرَ النِّسَاءَ، فَقَالَ:" يَعْمِدُ أَحَدُكُمْ فَيَجْلِدُ امْرَأَتَهُ جَلْدَ الْعَبْدِ، فَلَعَلَّهُ يُضَاجِعُهَا مِنْ آخِرِ يَوْمِهِ، ثُمَّ وَعَظَهُمْ فِي ضَحِكِهِمْ مِنَ الضَّرْطَةِ، وَقَالَ: لِمَ يَضْحَكُ أَحَدُكُمْ مِمَّا يَفْعَلُ"، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَمْعَةَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِثْلُ أَبِي زَمْعَةَ عَمِّ الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور انہیں عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں صالح علیہ السلام کی اونٹنی کا ذکر فرمایا اور اس شخص کا بھی ذکر فرمایا جس نے اس کی کونچیں کاٹ ڈالی تھیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا «إذ انبعث أشقاها» یعنی اس اونٹنی کو مار ڈالنے کے لیے ایک مفسد بدبخت (قدار نامی) کو اپنی قوم میں ابوزمعہ کی طرح غالب اور طاقتور تھا اٹھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کے حقوق کا بھی ذکر فرمایا کہ تم میں بعض اپنی بیوی کو غلام کی طرح کوڑے مارتے ہیں حالانکہ اسی دن کے ختم ہونے پر وہ اس سے ہمبستری بھی کرتے ہیں۔ پھر آپ نے انہیں ریاح خارج ہونے پر ہنسنے سے منع فرمایا اور فرمایا کہ ایک کام جو تم میں ہر شخص کرتا ہے اسی پر تم دوسروں پر کس طرح ہنستے ہو۔ ابومعاویہ نے بیان کیا کہ ہم سے ہشام بن عروہ بن زبیر نے، ان سے عبداللہ بن زمعہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس حدیث میں) یوں فرمایا ابوزمعہ کی طرح جو زبیر بن عوام کا چچا تھا۔
Narrated `Abdullah bin Zama: That he heard the Prophet delivering a sermon, and he mentioned the shecamel and the one who hamstrung it. Allah's Messenger recited:-- 'When, the most wicked man among them went forth (to hamstrung the she-camel).' (91.12.) Then he said, "A tough man whose equal was rare and who enjoyed the protection of his people, like Abi Zama went forth to (hamstrung) it." The Prophet then mentioned about the women (in his sermon). "It is not wise for anyone of you to lash his wife like a slave, for he might sleep with her the same evening." Then he advised them not to laugh when somebody breaks wind and said, "Why should anybody laugh at what he himself does?"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 466
وقال ابن عباس: وكذب بالحسنى: بالخلف، وقال مجاهد: تردى: مات، وتلظى: توهج وقرا عبيد بن عمير تتلظى.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى: بِالْخَلَفِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: تَرَدَّى: مَاتَ، وَتَلَظَّى: تَوَهَّجُ وَقَرَأَ عُبَيْدُ بْنُ عُمَيْرٍ تَتَلَظَّى.
ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا «وكذب بالحسنى» سے یہ مراد ہے کہ اس کو یہ یقین نہیں کہ اللہ کی راہ میں جو خرچ کرے گا اس کا بدلہ اللہ اس کو دے گا اور مجاہد نے کہا «اذا تردى» جب مر جائے۔ «تلظى» وہ دوزخ کی آگ بھڑکتی شعلہ مارتی ہے۔ اور عبید بن عمیر نے «تتلظى» دو (تاء) کے ساتھ پڑھا ہے۔