صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
87. سورة {سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى} :
باب: سورۃ الاعلی کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 4941
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبي، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَوَّلُ مَنْ قَدِمَ عَلَيْنَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصْعَبُ بْنُ عُمَيْرٍ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ، فَجَعَلَا يُقْرِئَانِنَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ جَاءَ عَمَّارٌ وَبِلَالٌ وَسَعْدٌ، ثُمَّ جَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عِشْرِينَ، ثُمَّ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا رَأَيْتُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ، فَرِحُوا بِشَيْءٍ فَرَحَهُمْ بِهِ حَتَّى رَأَيْتُ الْوَلَائِدَ وَالصِّبْيَانَ، يَقُولُونَ: هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَ، فَمَا جَاءَ حَتَّى قَرَأْتُ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى سورة الأعلى آية 1 فِي سُوَرٍ مِثْلِهَا".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے والد نے خبر دی، انہیں شعبہ نے، انہیں ابواسحاق نے اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (مہاجر) صحابہ میں سب سے پہلے ہمارے پاس مدینہ تشریف لانے والے مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما تھے۔ مدینہ پہنچ کر ان بزرگوں نے ہمیں قرآن مجید پڑھانا شروع کر دیا۔ پھر عمار، بلال اور سعد رضی اللہ عنہم آئے۔ اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیس صحابہ کو ساتھ لے کر آئے اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے میں نے کبھی مدینہ والوں کو اتنا خوش ہونے والا نہیں دیکھا تھا، جتنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہوئے تھے۔ بچیاں اور بچے بھی کہنے لگے تھے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، ہمارے یہاں تشریف لائے ہیں۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے ہی «سبح اسم ربك الأعلى» اور اس جیسی اور سورتیں پڑھ لی تھیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4941 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4941
حدیث حاشیہ:
1۔
اس سورت کی پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے تسبیح کا حکم ہے۔
اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ذات ہر قسم کے عیب و نقص سے پاک ہے۔
بلا شرکت غیرے مختار کل ہے کائنات کی تمام اشیاء پر اسے پورا پورا کنٹرول حاصل ہے، تسبیح کرنے سے مراد اللہ تعالیٰ کو مذکورہ صفات کے ساتھ یاد کرنا ہے۔
2۔
جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”اس آیت کے مطابق تم سجدے میں (سبحان ربي الأعلی)
اور سورہ واقعہ کی آخری آیت کے مطابق رکوع میں (سبحان ربي العظيم)
پڑھا کرو۔
“ (مسند أحمد: 155/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4941
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3925
3925. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہمارے پاس حضرت مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم ؓ تشریف لائے۔ وہ دونوں لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے۔ پھر حضرت بلالؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عمار بن یاسر ؓ آئے۔ اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب ؓ نبی ﷺ کے بیس صحابہ کرام ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ میں آئے۔ پھر نبی ﷺ (مدینہ طیبہ) تشریف لائے، میں نے اہل مدینہ کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا وہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے خوش ہوئے تھے۔ لونڈیاں بھی خوشی سے کہنے لگیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے۔ آپ ﷺ کی جب مدینہ طیبہ میں آمد ہوئی تو میں مفصل کی دوسری کئی سورتوں کے ساتھ ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ بھی سیکھ چکا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3925]
حدیث حاشیہ:
حاکم کی روایت میں انس ؓ سے یوں ہے جب آپ مدینہ کے قریب پہنچے تو بنی نجار کی لڑکیاں دف گاتی بجاتی نکلیں وہ کہہ رہی تھیں۔
نحن جوار من بني نجار۔
یا حبذا محمد من جار۔
دوسری روایت میں یوں ہے کہ انصار کی لڑکیاں گاتی بجاتی آپ کی تشریف آوری کی خوشی میں نکلیں۔
وہ یہ کہہ رہی تھیں:
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع وجب الشکرعلینا ما دعا للہ داع آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
إن اللہ یحبکن یعنی تم جان لو کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرتا ہے۔
قسطلانی نے ان بیس صحابہ کے اسماء گرامی بھی پیش کئے ہیں جو آنحضرت ﷺ سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ پہنچ چکے تھے۔
مفصلات کی سورتیں وہ ہیں جو سورۃ حجرات سے شروع ہوتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3925
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3925
3925. حضرت براء بن عازب ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہمارے پاس حضرت مصعب بن عمیر اور ابن ام مکتوم ؓ تشریف لائے۔ وہ دونوں لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے۔ پھر حضرت بلالؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ اور حضرت عمار بن یاسر ؓ آئے۔ اس کے بعد حضرت عمر بن خطاب ؓ نبی ﷺ کے بیس صحابہ کرام ؓ کو ساتھ لے کر مدینہ میں آئے۔ پھر نبی ﷺ (مدینہ طیبہ) تشریف لائے، میں نے اہل مدینہ کو کبھی اتنا خوش نہیں دیکھا جتنا وہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری سے خوش ہوئے تھے۔ لونڈیاں بھی خوشی سے کہنے لگیں کہ رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے۔ آپ ﷺ کی جب مدینہ طیبہ میں آمد ہوئی تو میں مفصل کی دوسری کئی سورتوں کے ساتھ ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى﴾ بھی سیکھ چکا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3925]
حدیث حاشیہ:
1۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو ہجرت کرنے کا حکم دیا تھا اور مدینہ طیبہ میں معلم اور مبلغ کا منصب ان کے حوالے کیا تھا۔
رسول اللہ ﷺ جب تشریف لائے تو حضرت کلثوم بن ہدم کے ہاں ٹھہرے۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ سعد بن خثیمہ کے پاس ٹھہرے۔
دراصل حضرت سعد کنوارے تھے۔
ان کے گھر کو بیت العزاب یعنی کنواروں کا گھر کہا جاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے حضرت کلثوم ؓ کے گھر مستقل اقامت اختیار کی اور اپنے صحابہ کرام ؓ کے ساتھ حضرت سعد بن خثیمہ ؓ کے پاس بھی بیٹھا کرتے تھے جب حضرت علی ؓ کو خبر ملی کہ رسول اللہ ﷺ امن و امان سے قباء میں تشریف فرما ہیں تو وہ بھی آپ کے بعد قباء میں آ گئے۔
(عمدة القاري: 646/11)
حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینے کے قریب پہنچے تو بنو نجار کی بچیاں دف بجا تی ہوئی نکلیں اور یہ اشعار پڑھ رہی تھیں۔
”ہم قبیلہ نجار کی لڑکیاں ہیں زہے قسمت ہمیں رسول اللہﷺ کا پڑوس نصیب ہوا ہے“ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی تشریف آوری کی خوشی میں انصار کی لڑکیاں یہ شعر گا رہی تھیں۔
”وداع کی گھاٹیوں سے ہم پر بدر کامل طلوع ہوا ہم پر اللہ کا شکر واجب ہے جب تک داعی اللہ کی طرف بلاتا رہے۔
“ اس آخری روایت کی سند متصل ہے صحیح اور راجح امر یہ ہے کہ مذکورہ اشعار غزوہ تبوک سے واپسی پر پڑھے گئے۔
(فتح الباري: 327/7)
2۔
اس حدیث میں "مفصل"سے مراد سورہ الحجرات سے آخر تک تمام سورتیں ہیں۔
انھیں مفصل اس لیے کہتے ہیں کہ ان میں ہر سورت کے بعد بسم اللہ سے فصل کا تکرار ہے۔
اس کی تین قسمیں ہیں۔
"طوال مفصل" یہ سورہ الحجرات تا سورہ بروج تک ہے۔
"اوساط مفصل " یہ سورہ بروج سے لے کر سورہ بینہ تک ہے۔
"اور قصا مفصل" یہ سورہ بینہ سے لے کر آخری سورت الناس تک ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3925