صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
90. سورة {لاَ أُقْسِمُ} :
باب: سورۃ «لا أقسم» کی تفسیر۔
وَقَالَ مُجَاهِدٌ: وَأَنْتَ حِلٌّ بِهَذَا الْبَلَدِ: بِمَكَّةَ لَيْسَ عَلَيْكَ مَا عَلَى النَّاسِ فِيهِ مِنَ الْإِثْمِ، وَوَالِدٍ: آدَمَ، وَمَا وَلَدَ، لُبَدًا: كَثِيرًا، وَالنَّجْدَيْنِ: الْخَيْرُ وَالشَّرُّ، مَسْغَبَةٍ، مَجَاعَةٍ: مَتْرَبَةٍ، السَّاقِطُ فِي التُّرَابِ يُقَالُ: فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ، فَلَمْ يَقْتَحِمْ الْعَقَبَةَ فِي الدُّنْيَا، ثُمَّ فَسَّرَ الْعَقَبَةَ، فَقَالَ: وَمَا أَدْرَاكَ مَا الْعَقَبَةُ، فَكُّ رَقَبَةٍ، أَوْ إِطْعَامٌ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ.
مجاہد نے کہا «بهذا البلد» سے مکہ مراد ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خاص تیرے لیے یہ شہر حلال ہوا اوروں کو وہاں لڑنا گناہ ہے۔ «والد» سے آدم، «وما ولد» سے ان کی اولاد مراد ہے۔ «لبدا» بہت سارا۔ «النجدين» دو رستے بھلے اور برے۔ «مسغبة» بھوک۔ «متربة» مٹی میں پڑا رہنا مراد ہے۔ «فلا اقتحم العقبة» یعنی اس نے دنیا میں گھاٹی نہیں پھاندی پھر گھاٹی پھاندنے کو آگے بیان کیا۔ «برده» غلام آزاد کرنا بھوک اور تکلیف کے دن بھوکوں کو کھانا کھلانا۔