(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، قال غيره: حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الله، عن ابن عباس، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، انه قال: لما مات عبد الله بن ابي ابن سلول، دعي له رسول الله صلى الله عليه وسلم ليصلي عليه، فلما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وثبت إليه، فقلت: يا رسول الله، اتصلي على ابن ابي، وقد قال: يوم كذا، كذا، وكذا، قال: اعدد عليه قوله، فتبسم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقال اخر: عني يا عمر، فلما اكثرت عليه، قال:" إني خيرت فاخترت، لو اعلم اني إن زدت على السبعين يغفر له لزدت عليها"، قال: فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم انصرف، فلم يمكث إلا يسيرا حتى نزلت الآيتان من براءة ولا تصل على احد منهم مات ابدا إلى قوله وهم فاسقون سورة التوبة آية 84، قال: فعجبت بعد من جراتي على رسول الله صلى الله عليه وسلم والله ورسوله اعلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ غَيْرُهُ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ، دُعِيَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَبْتُ إِلَيْهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُصَلِّي عَلَى ابْنِ أُبَيٍّ، وَقَدْ قَالَ: يَوْمَ كَذَا، كَذَا، وَكَذَا، قَالَ: أُعَدِّدُ عَلَيْهِ قَوْلَهُ، فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ أَخِّرْ: عَنِّي يَا عُمَرُ، فَلَمَّا أَكْثَرْتُ عَلَيْهِ، قَالَ:" إِنِّي خُيِّرْتُ فَاخْتَرْتُ، لَوْ أَعْلَمُ أَنِّي إِنْ زِدْتُ عَلَى السَّبْعِينَ يُغْفَرْ لَهُ لَزِدْتُ عَلَيْهَا"، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا يَسِيرًا حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَتَانِ مِنْ بَرَاءَةَ وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا إِلَى قَوْلِهِ وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84، قَالَ: فَعَجِبْتُ بَعْدُ مِنْ جُرْأَتِي عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے اور ان کے علاوہ (ابوصالح عبداللہ بن صالح) نے بیان کیا، کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبیداللہ بن عبداللہ نے خبر دی اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے، ان سے عمر رضی اللہ عنہ نے جب عبداللہ بن ابی ابن سلول کی موت ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کہا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں جلدی سے خدمت نبوی میں پہنچا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ ابن ابی (منافق) کی نماز جنازہ پڑھانے لگے حالانکہ اس نے فلاں فلاں دن اس اس طرح کی باتیں (اسلام کے خلاف) کی تھیں؟ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں اس کی کہی ہوئی باتیں ایک ایک کر کے پیش کرنے لگا۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کر کے فرمایا کہ عمر! میرے پاس سے ہٹ جاؤ (اور صف میں جا کے کھڑے ہو جاؤ)۔ میں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے۔ اس لیے میں نے (اس کے لیے استغفار کرنے اور اس کی نماز جنازہ پڑھانے ہی کو) پسند کیا، اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرنے سے اس کی مغفرت ہو جائے گی تو میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کروں گا۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور واپس تشریف لائے، تھوڑی دیر ابھی ہوئی تھی کہ سورۃ برات کی دو آیتیں نازل ہوئیں «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا» کہ ”ان میں سے جو کوئی مر جائے اس پر کبھی بھی نماز نہ پڑھئے۔“ آخر آیت «وهم فاسقون» تک۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بعد میں مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اس درجہ جرات پر خود بھی حیرت ہوئی اور اللہ اور اس کے رسول بہتر جاننے والے ہیں۔
Narrated `Umar bin Al-Khattab: When `Abdullah bin Ubai bin Salul died, Allah's Messenger was called in order to offer the funeral prayer for him. When Allah's Messenger got up (to offer the prayer) I jumped towards him and said, "O Allah's Messenger ! Do you offer the prayer for Ibn Ubai although he said so-and-so on such-and-such-a day?" I went on mentioning his sayings. Allah's Messenger smiled and said, "Keep away from me, O `Umar!" But when I spoke too much to him, he said, "I have been given the choice, and I have chosen (this) ; and if I knew that if I asked forgiveness for him more than seventy times, he would be for given, I would ask it for more times than that." So Allah's Messenger offered the funeral prayer for him and then left, but he did not stay long before the two Verses of Surat-Bara'a were revealed, i.e.:-- 'And never (O Muhammad) pray for anyone of them that dies.... and died in a state of rebellion.' (9.84) Later I was astonished at my daring to speak like that to Allah's Messenger and Allah and His Apostle know best.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 193
13. باب: آیت کی تفسیر ”اے نبی! اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس پر کبھی بھی نماز جنازہ نہ پڑھئیے اور نہ اس کی (دعائے مغفرت کے لیے) قبر پر کھڑے ہوئیے، بیشک انہوں نے اللہ اور رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ فاسق مرے ہیں“۔
(13) Chapter. The Statement of Allah: “And never (O Muhammad ) pray (funeral prayer) for any of them (hypocrites) who dies, nor stand at his grave." (V.9:84)
(مرفوع) حدثني إبراهيم بن المنذر، حدثنا انس بن عياض، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، انه قال: لما توفي عبد الله بن ابي، جاء ابنه عبد الله بن عبد الله إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاعطاه قميصه، وامره ان يكفنه فيه، ثم قام يصلي عليه، فاخذ عمر بن الخطاب بثوبه، فقال: تصلي عليه وهو منافق وقد نهاك الله ان تستغفر لهم، قال:" إنما خيرني الله، او اخبرني الله، فقال: استغفر لهم او لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم سورة التوبة آية 80، فقال: سازيده على سبعين"، قال: فصلى عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم وصلينا معه، ثم انزل الله عليه، ولا تصل على احد منهم مات ابدا ولا تقم على قبره إنهم كفروا بالله ورسوله وماتوا وهم فاسقون سورة التوبة آية 84.(مرفوع) حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، جَاءَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَاهُ قَمِيصَهُ، وَأَمَرَهُ أَنْ يُكَفِّنَهُ فِيهِ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي عَلَيْهِ، فَأَخَذَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِثَوْبِهِ، فَقَال: تُصَلِّي عَلَيْهِ وَهُوَ مُنَافِقٌ وَقَدْ نَهَاكَ اللَّهُ أَنْ تَسْتَغْفِرَ لَهُمْ، قَالَ:" إِنَّمَا خَيَّرَنِي اللَّهُ، أَوْ أَخْبَرَنِي اللَّهُ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَهُمْ سورة التوبة آية 80، فَقَالَ: سَأَزِيدُهُ عَلَى سَبْعِينَ"، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْنَا مَعَهُ، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ سورة التوبة آية 84.
مجھ سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے انس بن عیاض نے، ان سے عبیداللہ نے اور ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب عبداللہ بن ابی کا انتقال ہوا تو اس کے بیٹے عبداللہ بن عبداللہ بن ابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنا کرتہ عنایت فرمایا اور فرمایا کہ اس کرتے سے اسے کفن دیا جائے پھر آپ اس پر نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا دامن پکڑ لیا اور عرض کیا آپ اس پر نماز پڑھانے کے لیے تیار ہو گئے حالانکہ یہ منافق ہے، اللہ تعالیٰ بھی آپ کو ان کے لیے استغفار سے منع کر چکا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا ہے۔ یا راوی نے «خيرني» کی جگہ لفظ «أخبرني» نقل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے «استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم» کہ ”آپ ان کے لیے استغفار کریں خواہ نہ کریں۔ اگر آپ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں گے جب بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ستر مرتبہ سے بھی زیادہ استغفار کروں گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ پڑھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره إنهم كفروا بالله ورسوله وماتوا وهم فاسقون» کہ ”اور ان میں سے جو کوئی مر جائے، آپ اس پر کبھی بھی جنازہ نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہوں۔ بیشک انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور وہ اس حال میں مرے ہیں کہ وہ نافرمان تھے۔“
Narrated Ibn `Umar: When `Abdullah bin Ubai died, his son `Abdullah bin `Abdullah came to Allah's Messenger who gave his shirt to him and ordered him to shroud his father in it. Then he stood up to offer the funeral prayer for the deceased, but `Umar bin Al-Khattab took hold of his garment and said, "Do you offer the funeral prayer for him though he was a hypocrite and Allah has forbidden you to ask forgiveness for hypocrites?" The Prophet said, "Allah has given me the choice (or Allah has informed me) saying: "Whether you, O Muhammad, ask forgiveness for them, or do not ask forgiveness for them, even if you ask forgiveness for them seventy times, Allah will not forgive them," (9.80) The he added, "I will (appeal to Allah for his sake) more than seventy times." So Allah's Messenger offered the funeral prayer for him and we too, offered the prayer along with him. Then Allah revealed: "And never, O Muhammad, pray (funeral prayer) for anyone of them that dies, nor stand at his grave. Certainly they disbelieved in Allah and His Apostle and died in a state of rebellion." (9.84)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 194
14. باب: آیت کی تفسیر ”عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے جب تم ان کے پاس واپس لوٹو گے اللہ کی قسم کھائیں گے تاکہ تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو، سو تم ان کو ان کی حالت پر چھوڑے رہو بیشک یہ گندے ہیں اور ان کا ٹھکا نا دوزخ ہے، بدلہ میں ان افعال کے جو وہ کرتے رہے ہیں“۔
(14) Chapter. The Statement of Allah: “They will swear by Allah to you (Muslims) when you return to them, that you may turn away from them...” (V.9:95)
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن عبد الله، ان عبد الله بن كعب بن مالك، قال: سمعت كعب بن مالك، حين تخلف عن تبوك:" والله ما انعم الله علي من نعمة بعد إذ هداني، اعظم من صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم ان لا اكون كذبته فاهلك، كما هلك الذين كذبوا حين انزل الوحي، سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إليهم إلى قوله الفاسقين سورة التوبة آية 95 - 96".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ تَبُوكَ:" وَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ بَعْدَ إِذْ هَدَانِي، أَعْظَمَ مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ فَأَهْلِكَ، كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوا حِينَ أُنْزِلَ الْوَحْيُ، سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ إِلَى قَوْلِهِ الْفَاسِقِينَ سورة التوبة آية 95 - 96".
ہم سے یحییٰ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ نے اور ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا کہ انہوں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے ان کے غزوہ تبوک میں شریک نہ ہو سکنے کا واقعہ سنا۔ انہوں نے بتلایا، اللہ کی قسم! ہدایت کے بعد اللہ نے مجھ پر اتنا بڑا اور کوئی انعام نہیں کیا جتنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ بولنے کے بعد ظاہر ہوا تھا کہ اس نے مجھے جھوٹ بولنے سے بچایا، ورنہ میں بھی اسی طرح ہلاک ہو جاتا جس طرح دوسرے لوگ جھوٹی معذرتیں بیان کرنے والے ہلاک ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں وحی نازل کی تھی «سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إليهم» کہ ”عنقریب یہ لوگ تمہارے سامنے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے۔ اللہ کی قسم کھا جائیں گے۔“ آخر آیت «الفاسقين» تک۔
Narrated `Abdullah bin Ka`b: I heard Ka`b bin Malik at the time he remained behind and did not join (the battle of) Tabuk, saying, "By Allah, no blessing has Allah bestowed upon me, besides my guidance to Islam, better than that of helping me speak the truth to Allah's Messenger otherwise I would have told the Prophet a lie and would have been ruined like those who had told a lie when the Divine Inspiration was revealed:-- "They will swear by Allah to you (Muslims) when you return to them.. the rebellious people." (9.95-96)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 195
15. باب: آیت کی تفسیر ”اور کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کر لیا، انہوں نے ملے جلے عمل کئے (کچھ بھلے اور کچھ برے) قریب ہے کہ اللہ ان پر نظر رحمت فرمائے، بیشک اللہ بہت ہی بڑا بخشش کرنے والا اور بہت ہی بڑا مہر بان ہے“۔
(15) Chapter. The Statement of Allah: “And (there are) others who have acknowledged their sins..." (V.9:102)
(مرفوع) حدثنا مؤمل هو ابن هشام، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثنا عوف، حدثنا ابو رجاء، حدثنا سمرة بن جندب رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لنا:" اتاني الليلة آتيان، فابتعثاني، فانتهينا إلى مدينة مبنية بلبن ذهب، ولبن فضة، فتلقانا رجال شطر من خلقهم كاحسن ما انت راء، وشطر كاقبح ما انت راء، قالا لهم: اذهبوا فقعوا في ذلك النهر، فوقعوا فيه، ثم رجعوا إلينا، قد ذهب ذلك السوء عنهم، فصاروا في احسن صورة، قالا لي: هذه جنة عدن وهذاك منزلك، قالا: اما القوم الذين كانوا شطر منهم حسن، وشطر منهم قبيح، فإنهم خلطوا عملا صالحا، وآخر سيئا، تجاوز الله عنهم".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ هُوَ ابْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ، حَدَّثَنَا سَمُرَةُ بْنُ جُنْدَبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَا:" أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتِيَانِ، فَابْتَعَثَانِي، فَانْتَهَيْنَا إِلَى مَدِينَةٍ مَبْنِيَّةٍ بِلَبِنِ ذَهَبٍ، وَلَبِنِ فِضَّةٍ، فَتَلَقَّانَا رِجَالٌ شَطْرٌ مِنْ خَلْقِهِمْ كَأَحْسَنِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، وَشَطْرٌ كَأَقْبَحِ مَا أَنْتَ رَاءٍ، قَالَا لَهُمْ: اذْهَبُوا فَقَعُوا فِي ذَلِكَ النَّهْرِ، فَوَقَعُوا فِيهِ، ثُمَّ رَجَعُوا إِلَيْنَا، قَدْ ذَهَبَ ذَلِكَ السُّوءُ عَنْهُمْ، فَصَارُوا فِي أَحْسَنِ صُورَةٍ، قَالَا لِي: هَذِهِ جَنَّةُ عَدْنٍ وَهَذَاكَ مَنْزِلُكَ، قَالَا: أَمَّا الْقَوْمُ الَّذِينَ كَانُوا شَطْرٌ مِنْهُمْ حَسَنٌ، وَشَطْرٌ مِنْهُمْ قَبِيحٌ، فَإِنَّهُمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا، وَآخَرَ سَيِّئًا، تَجَاوَزَ اللَّهُ عَنْهُمْ".
ہم سے مؤمل بن ہشام نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عوف نے بیان کیا، کہا ہم سے ابورجاء نے بیان کیا، کہا ہم سے سمرہ بن جندب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا کہ رات (خواب میں) میرے پاس دو فرشتے آئے اور مجھے اٹھا کر ایک شہر میں لے گئے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا، وہاں ہمیں ایسے لوگ ملے جن کا آدھا بدن نہایت خوبصورت، اتنا کہ کسی دیکھنے والے نے ایسا حسن نہ دیکھا ہو گا اور بدن کا دوسرا آدھا حصہ نہایت بدصورت تھا، اتنا کہ کسی نے بھی ایسی بدصورتی نہیں دیکھی ہو گی۔ دونوں فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا جاؤ اور اس نہر میں غوطہٰ لگاؤ۔ وہ گئے اور نہر میں غوطہٰ لگا آئے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی جاتی رہی اور اب وہ نہایت خوبصورت نظر آتے تھے پھر فرشتوں نے مجھ سے کہا کہ یہ ”جنت عدن“ ہے اور آپ کا مکان یہیں ہے۔ جن لوگوں کو ابھی آپ نے دیکھا کہ جسم کا آدھا حصہ خوبصورت تھا اور آدھا بدصورت، تو یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے دنیا میں اچھے اور برے سب کام کئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف کر دیا تھا۔
Narrated Samura bin Jundab: Allah's Messenger said, "Tonight two (visitors) came to me (in my dream) and took me to a town built with gold bricks and silver bricks. There we met men who, half of their bodies, look like the mosthandsome human beings you have ever seen, and the other half, the ugliest human beings you have ever seen. Those two visitors said to those men, 'Go and dip yourselves in that river. So they dipped themselves therein and then came to us, their ugliness having disappeared and they were in the mosthandsome shape. The visitors said, 'The first is the Garden of Eden and that is your dwelling place.' Then they added, 'As for those people who were half ugly and half handsome, they were those who mixed good deeds and bad deeds, but Allah forgave them."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 196
16. باب: آیت کی تفسیر ”نبی اور جو لوگ ایمان لائے، ان کے لیے اجازت نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ ان کے قرابت دار ہوں جبکہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ دوزخی ہیں“۔
(16) Chapter. The Statement of Allah: “It is not (proper) for the Prophet (ﷺ) and those who believe to ask for Allah’s forgiveness for the Mushrikun [polytheists, pagans, idolaters, and disbelievers in the Oneness of Allah and His Messenger Muhammad (ﷺ)]...” (V.9:113)
(مرفوع) حدثنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابيه، قال: لما حضرت ابا طالب الوفاة، دخل عليه النبي صلى الله عليه وسلم وعنده ابو جهل، وعبد الله بن ابي امية، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اي عم، قل لا إله إلا الله احاج لك بها عند الله"، فقال ابو جهل وعبد الله بن ابي امية: يا ابا طالب، اترغب عن ملة عبد المطلب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لاستغفرن لك ما لم انه عنك، فنزلت ما كان للنبي والذين آمنوا ان يستغفروا للمشركين ولو كانوا اولي قربى من بعد ما تبين لهم انهم اصحاب الجحيم سورة التوبة آية 113".(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْ عَمِّ، قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ"، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ سورة التوبة آية 113".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد مسیب بن حزن نے کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (آپ ایک بار زبان سے کلمہ) لا الہٰ الا اللہ کہہ دیجئیے میں اسی کو (آپ کی نجات کے لیے وسیلہ بنا کر) اللہ کی بارگاہ میں پیش کر لوں گا۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ ابی امیہ کہنے لگے: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب میں آپ کے لیے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم» کہ ”نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ (مشرکین) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ ظاہر ہو چکے کہ وہ (یقیناً) اہل دوزخ سے ہیں۔“
Narrated Al-Musaiyab: When Abu Talib's death approached, the Prophet went to him while Abu Jahl and `Abdullah bin Abi Umaiya were present with him. The Prophet said, "O uncle, say: None has the right to be worshipped except Allah, so that I may argue for your case with it before Allah." On that, Abu Jahl and `Abdullah bin Abu Umaiya said, "O Abu Talib! Do you want to renounce `Abdul Muttalib's religion?" Then the Prophet said, "I will keep on asking (Allah for) forgiveness for you unless I am forbidden to do so." Then there was revealed:-- 'It is not fitting for the Prophet and those who believe that they should invoke (Allah) for forgiveness for pagans even though they be of kin, after it has become clear to them that they are companions of the Fire.' (9.113)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 197
17. باب: آیت کی تفسیر ”بیشک اللہ نے نبی پر مہاجرین و انصار پر رحمت فرمائی، وہ لوگ جنہوں نے نبی کا ساتھ تنگی کے وقت (جنگ تبوک) میں دیا، بعد اس کے کہ ان میں سے ایک گروہ کے دلوں میں کچھ تزلزل پیدا ہو گیا تھا۔ پھر (اللہ نے) ان لوگوں پر رحمت کے ساتھ توجہ فرما دی، بیشک وہ ان کے حق میں بڑا ہی شفیق بڑا ہی رحم کرنے والا ہے“۔
(17) Chapter. The Statement of Allah: “Allah has forgiven the Prophet (ﷺ), the Muhajirun and the Ansar...’ (V.9:117)
(مرفوع) حدثنا احمد بن صالح، قال: حدثني ابن وهب، قال: اخبرني يونس. ح قال احمد: وحدثنا عنبسة، حدثنا يونس، عن ابن شهاب، قال: اخبرني عبد الرحمن بن كعب بن مالك، قال: اخبرني عبد الله بن كعب، وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك في حديثه،وعلى الثلاثة الذين خلفوا سورة التوبة آية 118، قال في آخر حديثه: إن من توبتي، ان انخلع من مالي صدقة إلى الله وإلى رسوله، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" امسك بعض مالك فهو خير لك".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ. ح قَالَ أَحْمَدُ: وَحَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ فِي حَدِيثِهِ،وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118، قَالَ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ: إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي، أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَإِلَى رَسُولِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی (دوسری سند) احمد بن صالح نے بیان کیا کہ ہم سے عنبسہ بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے یونس نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، کہا مجھ کو عبدالرحمٰن بن کعب نے خبر دی، کہا کہ مجھے عبداللہ بن کعب نے خبر دی کہ(ان کے والد) کعب بن مالک رضی اللہ عنہ جب نابینا ہو گئے تو ان کے بیٹوں میں یہی ان کو راستے میں ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک سے ان کے واقعہ کے سلسلے میں سنا جس کے بارے میں آیت «وعلى الثلاثة الذين خلفوا» نازل ہوئی تھی۔ آپ نے آخر میں (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے) عرض کیا تھا کہ اپنی توبہ کے قبول ہونے کی خوشی میں اپنا تمام مال اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں خیرات کرتا ہوں۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں اپنا کچھ تھوڑا مال اپنے پاس ہی رہنے دو۔ یہ تمہارے حق میں بھی بہتر ہے۔
Narrated `Abdullah bin Ka`b: I heard Ka`b bin Malik talking about the Verse:-- 'And to the three (He also forgave) who remained behind.' (9.118) saying in the last portion of his talk, "(I said), 'As a part (sign) of my repentance, I would like to give up all my property in the cause of Allah and His Apostle,' The Prophet said to me, 'Keep some of your wealth as it is good for you." (To the three (He also forgave) who remained behind till for them the earth, vast as it is, was straitened..." (9.118)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 198
18. باب: آیت کی تفسیر ”اور ان تینوں پر بھی اللہ نے (توجہ فرمائی) جن کا مقدمہ پیچھے کو ڈال دیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اسی کی طرف کے، پھر اس نے ان پر رحمت سے توجہ فرمائی تاکہ وہ بھی توبہ کر کے رجوع کریں۔ بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا بڑا ہی مہربان ہے“۔
(18) Chapter. And (He did forgive also) the three [who did not join the Tabuk expedition] till for them the earth, vast as it is, was straitened...” (V.9:118)
(مرفوع) حدثني محمد، حدثنا احمد ابن ابي شعيب، حدثنا موسى بن اعين، حدثنا إسحاق بن راشد، ان الزهري حدثه، قال: اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن ابيه، قال: سمعت ابي كعب بن مالك، وهو احد الثلاثة الذين تيب عليهم: انه لم يتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها قط، غير غزوتين: غزوة العسرة، وغزوة بدر، قال: فاجمعت صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحى، وكان قلما يقدم من سفر سافره إلا ضحى، وكان يبدا بالمسجد، فيركع ركعتين، ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن كلامي، وكلام صاحبي، ولم ينه عن كلام احد من المتخلفين غيرنا، فاجتنب الناس كلامنا، فلبثت كذلك حتى طال علي الامر، وما من شيء اهم إلي من ان اموت فلا يصلي علي النبي صلى الله عليه وسلم، او يموت رسول الله صلى الله عليه وسلم فاكون من الناس بتلك المنزلة، فلا يكلمني احد منهم ولا يصلي ولا يسلم علي، فانزل الله توبتنا على نبيه صلى الله عليه وسلم حين بقي الثلث الآخر من الليل، ورسول الله صلى الله عليه وسلم عند ام سلمة، وكانت ام سلمة محسنة في شاني، معنية في امري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا ام سلمة، تيب على كعب"، قالت: افلا ارسل إليه فابشره؟ قال:" إذا يحطمكم الناس فيمنعونكم النوم سائر الليلة"، حتى إذا صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة الفجر، آذن بتوبة الله علينا، وكان إذا استبشر استنار وجهه حتى كانه قطعة من القمر، وكنا ايها الثلاثة الذين خلفوا عن الامر الذي قبل من هؤلاء الذين اعتذروا، حين انزل الله لنا التوبة، فلما ذكر الذين كذبوا رسول الله صلى الله عليه وسلم من المتخلفين واعتذروا بالباطل، ذكروا بشر ما ذكر به احد، قال الله سبحانه: يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبانا الله من اخباركم وسيرى الله عملكم ورسوله سورة التوبة آية 94 الآية.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ ابْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَعْيَنَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ رَاشِدٍ، أَنَّ الزُّهْرِيَّ حَدَّثَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ: أَنَّهُ لَمْ يَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ، غَيْرَ غَزْوَتَيْنِ: غَزْوَةِ الْعُسْرَةِ، وَغَزْوَةِ بَدْرٍ، قَالَ: فَأَجْمَعْتُ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضُحًى، وَكَانَ قَلَّمَا يَقْدَمُ مِنْ سَفَرٍ سَافَرَهُ إِلَّا ضُحًى، وَكَانَ يَبْدَأُ بِالْمَسْجِدِ، فَيَرْكَعُ رَكْعَتَيْنِ، وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كَلَامِي، وَكَلَامِ صَاحِبَيَّ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْ كَلَامِ أَحَدٍ مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ غَيْرِنَا، فَاجْتَنَبَ النَّاسُ كَلَامَنَا، فَلَبِثْتُ كَذَلِكَ حَتَّى طَالَ عَلَيَّ الْأَمْرُ، وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَهَمُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَمُوتَ فَلَا يُصَلِّي عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ يَمُوتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكُونَ مِنَ النَّاسِ بِتِلْكَ الْمَنْزِلَةِ، فَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ مِنْهُمْ وَلَا يُصَلِّي وَلَا يُسَلِّمُ عَلَيَّ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَوْبَتَنَا عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَقِيَ الثُّلُثُ الْآخِرُ مِنَ اللَّيْلِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ أُمِّ سَلَمَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ سَلَمَةَ مُحْسِنَةً فِي شَأْنِي، مَعْنِيَّةً فِي أَمْرِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أُمَّ سَلَمَةَ، تِيبَ عَلَى كَعْبٍ"، قَالَتْ: أَفَلَا أُرْسِلُ إِلَيْهِ فَأُبَشِّرَهُ؟ قَالَ:" إِذًا يَحْطِمَكُمُ النَّاسُ فَيَمْنَعُونَكُمُ النَّوْمَ سَائِرَ اللَّيْلَةِ"، حَتَّى إِذَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْفَجْرِ، آذَنَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ عَلَيْنَا، وَكَانَ إِذَا اسْتَبْشَرَ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّهُ قِطْعَةٌ مِنَ الْقَمَرِ، وَكُنَّا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ الَّذِينَ خُلِّفُوا عَنِ الْأَمْرِ الَّذِي قُبِلَ مِنْ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ اعْتَذَرُوا، حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ لَنَا التَّوْبَةَ، فَلَمَّا ذُكِرَ الَّذِينَ كَذَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُتَخَلِّفِينَ وَاعْتَذَرُوا بِالْبَاطِلِ، ذُكِرُوا بِشَرِّ مَا ذُكِرَ بِهِ أَحَدٌ، قَالَ اللَّهُ سُبْحَانَهُ: يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ قُلْ لا تَعْتَذِرُوا لَنْ نُؤْمِنَ لَكُمْ قَدْ نَبَّأَنَا اللَّهُ مِنْ أَخْبَارِكُمْ وَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ سورة التوبة آية 94 الْآيَةَ.
مجھ سے محمد بن نصر نیشاپوری نے بیان کیا، کہا ہم سے احمد بن ابی شعیب نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن اعین نے بیان کیا، کہا ہم سے اسحاق بن راشد نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے خبر دی، ان سے ان کے والد عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا۔ وہ ان تین صحابہ میں سے تھے جن کی توبہ قبول کی گئی تھی۔ انہوں نے بیان کیا کہ دو غزووں، غزوہ عسرت (یعنی غزوہ تبوک) اور غزوہ بدر کے سوا اور کسی غزوے میں کبھی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جانے سے نہیں رکا تھا۔ انہوں نے بیان کیا چاشت کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (غزوہ سے واپس تشریف لائے) تو میں نے سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ کا سفر سے واپس آنے میں معمول یہ تھا کہ چاشت کے وقت ہی آپ (مدینہ) پہنچتے تھے اور سب سے پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے اور دو رکعت نماز پڑھتے (بہرحال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اور میری طرح عذر بیان کرنے والے دو اور صحابہ سے دوسرے صحابہ کو بات چیت کرنے سے منع کر دیا۔ ہمارے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ (جو ظاہر میں مسلمان تھے) اس غزوے میں شریک نہیں ہوئے لیکن آپ نے ان میں سے کسی سے بھی بات چیت کی ممانعت نہیں کی تھی۔ چنانچہ لوگوں نے ہم سے بات چیت کرنا چھوڑ دیا۔ میں اسی حالت میں ٹھہرا رہا۔ معاملہ بہت طول پکڑتا جا رہا تھا۔ ادھر میری نظر میں سب سے اہم معاملہ یہ تھا کہ اگر کہیں (اس عرصہ میں) میں مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر نماز جنازہ نہیں پڑھائیں گے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو جائے تو افسوس لوگوں کا یہی طرز عمل میرے ساتھ پھر ہمیشہ کے لیے باقی رہ جائے گا، نہ مجھ سے کوئی گفتگو کرے گا اور نہ مجھ پر نماز جنازہ پڑھے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس وقت نازل کی جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تشریف رکھتے تھے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا مجھ پر بڑا احسان و کرم تھا اور وہ میری مدد کیا کرتی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام سلمہ! کعب کی توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے عرض کیا۔ پھر میں ان کے یہاں کسی کو بھیج کر یہ خوشخبری نہ پہنچوا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ خبر سنتے ہی لوگ جمع ہو جائیں گے اور ساری رات تمہیں سونے نہیں دیں گے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد بتایا کہ اللہ نے ہماری توبہ قبول کر لی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ خوشخبری سنائی تو آپ کا چہرہ مبارک منور ہو گیا جیسے چاند کا ٹکڑا ہو اور (غزوہ میں نہ شریک ہونے والے دوسرے لوگوں سے) جنہوں نے معذرت کی تھی اور ان کی معذرت قبول بھی ہو گئی تھی۔ ہم تین صحابہ کا معاملہ بالکل مختلف تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری توبہ قبول ہونے کے متعلق وحی نازل کی، لیکن جب ان دوسرے غزوہ میں شریک نہ ہونے والے لوگوں کا ذکر کیا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جھوٹ بولا تھا اور جھوٹی معذرت کی تھی تو اس درجہ برائی کے ساتھ کیا کہ کسی کا بھی اتنی برائی کے ساتھ ذکر نہ کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا «يعتذرون إليكم إذا رجعتم إليهم قل لا تعتذروا لن نؤمن لكم قد نبأنا الله من أخباركم وسيرى الله عملكم ورسوله» کہ ”یہ لوگ تمہارے سب کے سامنے عذر پیش کریں گے، جب تم ان کے پاس واپس جاؤ گے تو آپ کہہ دیں کہ بہانے نہ بناؤ ہم ہرگز تمہاری بات نہ مانیں گے! بیشک ہم کو اللہ تمہاری خبر دے چکا ہے اور عنقریب اللہ اور اس کا رسول تمہارا عمل دیکھ لیں گے۔“ آخر آیت تک۔
Narrated `Abdullah bin Ka`b: I heard Ka`b bin Malik who was one of the three who were forgiven, saying that he had never remained behind Allah's Messenger in any Ghazwa which he had fought except two Ghazwat Ghazwat- Al-`Usra (Tabuk) and Ghazwat-Badr. He added. "I decided to tell the truth to Allah's Messenger in the forenoon, and scarcely did he return from a journey he made, except in the forenoon, he would go first to the mosque and offer a two-rak`at prayer. The Prophet forbade others to speak to me or to my two companions, but he did not prohibit speaking to any of those who had remained behind excepting us. So the people avoided speaking to us, and I stayed in that state till I could no longer bear it, and the only thing that worried me was that I might die and the Prophet would not offer the funeral prayer for me, or Allah's Messenger might die and I would be left in that social status among the people that nobody would speak to me or offer the funeral prayer for me. But Allah revealed His Forgiveness for us to the Prophet in the last third of the night while Allah's Messenger was with Um Salama. Um Salama sympathized with me and helped me in my disaster. Allah's Messenger said, 'O Um Salama! Ka`b has been forgiven!' She said, 'Shall I send someone to him to give him the good tidings?' He said, 'If you did so, the people would not let you sleep the rest of the night.' So when the Prophet had offered the Fajr prayer, he announced Allah's Forgiveness for us. His face used to look as bright as a piece of the (full) moon whenever he was pleased. When Allah revealed His Forgiveness for us, we were the three whose case had been deferred while the excuse presented by those who had apologized had been accepted. But when there were mentioned those who had told the Prophet lies and remained behind (the battle of Tabuk) and had given false excuses, they were described with the worse description one may be described with. Allah said: 'They will present their excuses to you (Muslims) when you return to them. Say: Present no excuses; we shall not believe you. Allah has already informed us of the true state of matters concerning you. Allah and His Apostle will observe your actions." (9.94)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 199
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك، عن عبد الله بن كعب بن مالك، وكان قائد كعب بن مالك، قال: سمعت كعب بن مالك، يحدث حين تخلف عن قصة تبوك: فوالله، ما اعلم احدا ابلاه الله في صدق الحديث احسن مما ابلاني، ما تعمدت منذ ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا كذبا، وانزل الله عز وجل على رسوله صلى الله عليه وسلم، لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار إلى قوله وكونوا مع الصادقين سورة التوبة آية 117 - 119.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَكَانَ قَائِدَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، يُحَدِّثُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ قِصَّةِ تَبُوكَ: فَوَاللَّهِ، مَا أَعْلَمُ أَحَدًا أَبْلَاهُ اللَّهُ فِي صِدْقِ الْحَدِيثِ أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي، مَا تَعَمَّدْتُ مُنْذُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا كَذِبًا، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ إِلَى قَوْلِهِ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 117 - 119.
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کعب بن مالک نے اور ان سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے، وہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ (جب وہ نابینا ہو گئے تھے) عبداللہ نے بیان کیا کہ میں نے کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ غزوہ تبوک میں اپنی غیر حاضری کا قصہ بیان کر رہے تھے، کہا کہ اللہ کی قسم! سچ بولنے کا جتنا عمدہ پھل اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا، کسی کو نہ دیا ہو گا۔ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے میں نے اس بارے میں سچی بات کہی تھی، اس وقت سے آج تک کبھی جھوٹ کا ارادہ بھی نہیں کیا اور اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل کی تھی «لقد تاب الله على النبي والمهاجرين» کہ ”بیشک اللہ نے نبی پر اور مہاجرین و انصار پر رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی۔ آخر آیت «وكونوا مع الصادقين» تک۔
Narrated `Abdullah bin Ka`b: I heard Ka`b bin Malik talking about the story of the battle of Tabuk when he remained behind, "By Allah, I do not know anyone whom Allah has helped for telling the truth more than me since I mentioned that truth to Allah's Messenger till today, I have never intended to tell a lie. And Allah revealed to His Apostle: "Verily! Allah has forgiven the Prophet, the Muhajirin............ and be with those who are true (in words and deeds)." (9.117-119) (See Hadith No. 702 Vol 5).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 200
20. باب: آیت کی تفسیر ”بیشک تمہارے پاس ایک رسول آئے ہیں جو تمہاری ہی جنس میں سے ہیں، جو چیز تمہیں نقصان پہنچاتی ہے وہ انہیں بہت گراں گزرتی ہے، وہ تمہاری (بھلائی) کے انتہائی حریص ہیں اور ایمان والوں کے حق میں تو بڑے ہی شفیق اور مہربان ہیں“ «روف» ، «رأفة» سے نکلا ہے۔
(20) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, there has come unto you a Messenger (Muhammad ) from amongst yourselves (i.e., whom you know well). It grieves him that you should receive any injury or difficulty...” (V.9:128)
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني ابن السباق، ان زيد بن ثابت الانصاري رضي الله عنه، وكان ممن يكتب الوحي، قال: ارسل إلي ابو بكر مقتل اهل اليمامة، وعنده عمر، فقال ابو بكر: إن عمر اتاني، فقال: إن القتل قد استحر يوم اليمامة بالناس، وإني اخشى ان يستحر القتل بالقراء في المواطن، فيذهب كثير من القرآن، إلا ان تجمعوه وإني لارى ان تجمع القرآن، قال ابو بكر: قلت لعمر: كيف افعل شيئا لم يفعله رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال عمر: هو والله خير، فلم يزل عمر يراجعني فيه حتى شرح الله لذلك صدري، ورايت الذي راى عمر، قال زيد بن ثابت: وعمر عنده جالس لا يتكلم، فقال ابو بكر: إنك رجل شاب عاقل، ولا نتهمك، كنت تكتب الوحي لرسول الله صلى الله عليه وسلم فتتبع القرآن، فاجمعه، فوالله لو كلفني نقل جبل من الجبال ما كان اثقل علي مما امرني به من جمع القرآن، قلت: كيف تفعلان شيئا لم يفعله النبي صلى الله عليه وسلم؟ فقال ابو بكر: هو والله خير، فلم ازل اراجعه حتى شرح الله صدري للذي شرح الله له صدر ابي بكر و عمر، فقمت فتتبعت القرآن اجمعه من الرقاع، والاكتاف، والعسب، وصدور الرجال، حتى وجدت من سورة التوبة آيتين مع خزيمة الانصاري لم اجدهما مع احد غيره، لقد جاءكم رسول من انفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم سورة التوبة آية 128 إلى آخرهما، وكانت الصحف التي جمع فيها القرآن عند ابي بكر حتى توفاه الله، ثم عند عمر حتى توفاه الله، ثم عند حفصة بنت عمر. تابعه عثمان بن عمروالليث، عن يونس، عن ابن شهاب، وقال الليث: حدثني عبد الرحمن بن خالد، عن ابن شهاب، وقال: مع ابي خزيمة الانصاري، وقال موسى، عن إبراهيم، حدثنا ابن شهاب، مع ابي خزيمة، وتابعه يعقوب بن إبراهيم، عن ابيه، وقال ابو ثابت: حدثنا إبراهيم، وقال: مع خزيمة، او ابي خزيمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ السَّبَّاقِ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ مِمَّنْ يَكْتُبُ الْوَحْيَ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ أَبُو بَكْرٍ مَقْتَلَ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، وَعِنْدَهُ عُمَرُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ عُمَرَ أَتَانِي، فَقَالَ: إِنَّ الْقَتْلَ قَدِ اسْتَحَرَّ يَوْمَ الْيَمَامَةِ بِالنَّاسِ، وَإِنِّي أَخْشَى أَنْ يَسْتَحِرَّ الْقَتْلُ بِالْقُرَّاءِ فِي الْمَوَاطِنِ، فَيَذْهَبَ كَثِيرٌ مِنَ الْقُرْآنِ، إِلَّا أَنْ تَجْمَعُوهُ وَإِنِّي لَأَرَى أَنْ تَجْمَعَ الْقُرْآنَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قُلْتُ لِعُمَرَ: كَيْفَ أَفْعَلُ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ عُمَرُ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ يَزَلْ عُمَرُ يُرَاجِعُنِي فِيهِ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ لِذَلِكَ صَدْرِي، وَرَأَيْتُ الَّذِي رَأَى عُمَرُ، قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: وَعُمَرُ عِنْدَهُ جَالِسٌ لَا يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ، وَلَا نَتَّهِمُكَ، كُنْتَ تَكْتُبُ الْوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَتَبَّعِ الْقُرْآنَ، فَاجْمَعْهُ، فَوَاللَّهِ لَوْ كَلَّفَنِي نَقْلَ جَبَلٍ مِنَ الْجِبَالِ مَا كَانَ أَثْقَلَ عَلَيَّ مِمَّا أَمَرَنِي بِهِ مِنْ جَمْعِ الْقُرْآنِ، قُلْتُ: كَيْفَ تَفْعَلَانِ شَيْئًا لَمْ يَفْعَلْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: هُوَ وَاللَّهِ خَيْرٌ، فَلَمْ أَزَلْ أُرَاجِعُهُ حَتَّى شَرَحَ اللَّهُ صَدْرِي لِلَّذِي شَرَحَ اللَّهُ لَهُ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ وَ عُمَرَ، فَقُمْتُ فَتَتَبَّعْتُ الْقُرْآنَ أَجْمَعُهُ مِنَ الرِّقَاعِ، وَالْأَكْتَافِ، وَالْعُسُبِ، وَصُدُورِ الرِّجَالِ، حَتَّى وَجَدْتُ مِنْ سُورَةِ التَّوْبَةِ آيَتَيْنِ مَعَ خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ لَمْ أَجِدْهُمَا مَعَ أَحَدٍ غَيْرِهِ، لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ سورة التوبة آية 128 إِلَى آخِرِهِمَا، وَكَانَتِ الصُّحُفُ الَّتِي جُمِعَ فِيهَا الْقُرْآنُ عِنْدَ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ عُمَرَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ عِنْدَ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ. تَابَعَهُ عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَوَاللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ اللَّيْثُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ: مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ الْأَنْصَارِيِّ، وَقَالَ مُوسَى، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ شِهَابٍ، مَعَ أَبِي خُزَيْمَةَ، وَتَابَعَهُ يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، وَقَالَ أَبُو ثَابِتٍ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، وَقَالَ: مَعَ خُزَيْمَةَ، أَوْ أَبِي خُزَيْمَةَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھے عبیداللہ بن سباق نے خبر دی اور ان سے زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے جو کاتب وحی تھے، بیان کیا کہ جب (11 ھ) میں یمامہ کی لڑائی میں (جو مسلیمہ کذاب سے ہوئی تھی) بہت سے صحابہ مارے گئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے مجھے بلایا، ان کے پاس عمر رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا، عمر رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہا کہ جنگ یمامہ میں بہت زیادہ مسلمان شہید ہو گئے ہیں اور مجھے خطرہ ہے کہ (کفار کے ساتھ) لڑائیوں میں یونہی قرآن کے علماء اور قاری شہید ہوں گے اور اس طرح بہت سا قرآن ضائع ہو جائے گا۔ اب تو ایک ہی صورت ہے کہ آپ قرآن کو ایک جگہ جمع کرا دیں اور میری رائے تو یہ ہے کہ آپ ضرور قرآن کو جمع کرا دیں۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس پر میں نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، ایسا کام میں کس طرح کر سکتا ہوں جو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! یہ تو محض ایک نیک کام ہے۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ مجھ سے اس معاملہ پر بات کرتے رہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا اور میری بھی رائے وہی ہو گئی جو عمر رضی اللہ عنہ کی تھی۔ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ وہیں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم جوان اور سمجھدار ہو ہمیں تم پر کسی قسم کا شبہ بھی نہیں اور تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی لکھا بھی کرتے تھے، اس لیے تم ہی قرآن مجید کو جابجا سے تلاش کر کے اسے جمع کر دو۔ اللہ کی قسم! کہ اگر ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے کوئی پہاڑ اٹھا کے لے جانے کے لیے کہتے تو یہ میرے لیے اتنا بھاری نہیں تھا جتنا قرآن کی ترتیب کا حکم۔ میں نے عرض کیا آپ لوگ ایک ایسے کام کے کرنے پر کس طرح آمادہ ہو گئے، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ ایک نیک کام ہے۔ پھر میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کرتا رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لیے میرا بھی سینہ کھول دیا۔ جس طرح ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کا سینہ کھولا تھا۔ چنانچہ میں اٹھا اور میں نے کھال، ہڈی اور کھجور کی شاخوں سے (جن پر قرآن مجید لکھا ہوا تھا، اس دور کے رواج کے مطابق) قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کر دیا اور لوگوں کے (جو قرآن کے حافظ تھے) حافظہ سے بھی مدد لی اور سورۃ التوبہ کی دو آیتیں خزیمہ انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے ملیں۔ ان کے علاوہ کسی کے پاس مجھے نہیں ملی تھی۔ (وہ آیتیں یہ تھیں) «لقد جاءكم رسول من أنفسكم عزيز عليه ما عنتم حريص عليكم» آخر تک۔ پھر مصحف جس میں قرآن مجید جمع کیا گیا تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا، آپ کی وفات کے بعد عمر رضی اللہ عنہ کے پاس محفوظ رہا، پھر آپ کی وفات کے بعد آپ کی صاحبزادی (ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس محفوظ رہا)۔ شعیب کے ساتھ اس حدیث کو عثمان بن عمر اور لیث بن سعد نے بھی یونس سے، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا، اور لیث نے کہا مجھ سے عبدالرحمٰن بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے روایت کیا اس میں خزیمہ کے بدلے ابوخزیمہ انصاری ہے اور موسیٰ نے ابراہیم سے روایت کی، کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، اس روایت میں بھی ابوخزیمہ ہے۔ موسیٰ بن اسماعیل کے ساتھ اس حدیث کو یعقوب بن ابراہیم نے بھی اپنے والد ابراہیم بن سعد سے روایت کیا اور ابوثابت محمد بن عبیداللہ مدنی نے، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا اس روایت میں شک کے ساتھ خزیمہ یا ابوخزیمہ مذکور ہے۔
Narrated Zaid bin Thabit Al-Ansari: who was one of those who used to write the Divine Revelation: Abu Bakr sent for me after the (heavy) casualties among the warriors (of the battle) of Yamama (where a great number of Qurra' were killed). `Umar was present with Abu Bakr who said, `Umar has come to me and said, The people have suffered heavy casualties on the day of (the battle of) Yamama, and I am afraid that there will be more casualties among the Qurra' (those who know the Qur'an by heart) at other battle-fields, whereby a large part of the Qur'an may be lost, unless you collect it. And I am of the opinion that you should collect the Qur'an." Abu Bakr added, "I said to `Umar, 'How can I do something which Allah's Apostle has not done?' `Umar said (to me), 'By Allah, it is (really) a good thing.' So `Umar kept on pressing, trying to persuade me to accept his proposal, till Allah opened my bosom for it and I had the same opinion as `Umar." (Zaid bin Thabit added:) `Umar was sitting with him (Abu Bakr) and was not speaking. me). "You are a wise young man and we do not suspect you (of telling lies or of forgetfulness): and you used to write the Divine Inspiration for Allah's Messenger . Therefore, look for the Qur'an and collect it (in one manuscript). " By Allah, if he (Abu Bakr) had ordered me to shift one of the mountains (from its place) it would not have been harder for me than what he had ordered me concerning the collection of the Qur'an. I said to both of them, "How dare you do a thing which the Prophet has not done?" Abu Bakr said, "By Allah, it is (really) a good thing. So I kept on arguing with him about it till Allah opened my bosom for that which He had opened the bosoms of Abu Bakr and `Umar. So I started locating Qur'anic material and collecting it from parchments, scapula, leaf-stalks of date palms and from the memories of men (who knew it by heart). I found with Khuza`ima two Verses of Surat-at-Tauba which I had not found with anybody else, (and they were):-- "Verily there has come to you an Apostle (Muhammad) from amongst yourselves. It grieves him that you should receive any injury or difficulty He (Muhammad) is ardently anxious over you (to be rightly guided)" (9.128) The manuscript on which the Qur'an was collected, remained with Abu Bakr till Allah took him unto Him, and then with `Umar till Allah took him unto Him, and finally it remained with Hafsa, `Umar's daughter.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 201