صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
16. بَابُ قَوْلِهِ: {مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ} :
باب: آیت کی تفسیر ”نبی اور جو لوگ ایمان لائے، ان کے لیے اجازت نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں اگرچہ وہ ان کے قرابت دار ہوں جبکہ ان پر ظاہر ہو جائے کہ وہ دوزخی ہیں“۔
حدیث نمبر: 4675
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ، دَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعِنْدَهُ أَبُو جَهْلٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَيْ عَمِّ، قُلْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أُحَاجُّ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ"، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ، أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَنَزَلَتْ مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ سورة التوبة آية 113".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور ان سے ان کے والد مسیب بن حزن نے کہ جب ابوطالب کے انتقال کا وقت ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے، اس وقت وہاں ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ (آپ ایک بار زبان سے کلمہ) لا الہٰ الا اللہ کہہ دیجئیے میں اسی کو (آپ کی نجات کے لیے وسیلہ بنا کر) اللہ کی بارگاہ میں پیش کر لوں گا۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ ابی امیہ کہنے لگے: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اب میں آپ کے لیے برابر مغفرت کی دعا مانگتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے روک نہ دیا جائے، تو یہ آیت نازل ہوئی «ما كان للنبي والذين آمنوا أن يستغفروا للمشركين ولو كانوا أولي قربى من بعد ما تبين لهم أنهم أصحاب الجحيم» کہ ”نبی اور ایمان والوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لیے بخشش کی دعا کریں۔ اگرچہ وہ (مشرکین) رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔ جب ان پر یہ ظاہر ہو چکے کہ وہ (یقیناً) اہل دوزخ سے ہیں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4675 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4675
حدیث حاشیہ:
آیت کا شان نزول بتلایا گیا ہے۔
یہ حکم قیامت تک کے لئے عام ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4675
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4675
حدیث حاشیہ:
1۔
صحیح بخاری کی ایک روایت میں ہےکہ درج ذیل آیت کریمہ بھی اسی سلسلے میں نازل ہوئی:
”آپ جسے چاہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔
ہدایت والوں سے وہی خوب واقف ہے۔
“ (صحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1386)
2۔
چونکہ نبی کریمﷺ کو چچا کے غیر مسلم مرنے کا بہت زیادہ افسوس تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا کہ آپ کا کام صرف دعوت وتبلیغ ہے لیکن ہدایت کے راستے پر چلانا یہ ہمارا کام ہے۔
آپ اپنی ذمہ داری پوری کریں ہم اپنا کام کریں گے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنی والدہ ماجدہ کے لیے بھی استغفار کی اجازت طلب کی لیکن آپ کو اس سے منع کردیا گیا جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔
(القصص56: 28۔
وصحیح البخاري، الجنائز، حدیث: 1360)
3۔
بہرحال مشرکین کے لیے د عائے مغفرت کرنے کی اجازت نہیں، البتہ ان کی ہدایت کے لیے دیا کی جاسکتی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے دوس قبیلے کے لیے دعا کی تھی کہ اے اللہ!انھیں ہدایت دے اور انھیں میرے پاس بھیج دے۔
(مسند أحمد: 355/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4675
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1360
´ جب ایک مشرک موت کے وقت لا الٰہ الا اللہ کہہ لے `
«. . . أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ " لَمَّا حَضَرَتْ أَبَا طَالِبٍ الْوَفَاةُ جَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ عِنْدَهُ أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أُمَيَّةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَالِبٍ: " يَا عَمِّ، قُلْ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ كَلِمَةً أَشْهَدُ لَكَ بِهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أُمَيَّةَ: يَا أَبَا طَالِبٍ أَتَرْغَبُ عَنْ مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُهَا عَلَيْهِ , وَيَعُودَانِ بِتِلْكَ الْمَقَالَةِ، حَتَّى قَالَ أَبُو طَالِبٍ: آخِرَ مَا كَلَّمَهُمْ هُوَ عَلَى مِلَّةِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَأَبَى أَنْ يَقُولَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا وَاللَّهِ لَأَسْتَغْفِرَنَّ لَكَ مَا لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِيهِ: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ سورة التوبة آية 113 " . . . .»
”. . . سعید بن مسیب نے اپنے باپ (مسیب بن حزن رضی اللہ عنہ) سے خبر دی ‘ ان کے باپ نے انہیں یہ خبر دی کہ` جب ابوطالب کی وفات کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے۔ دیکھا تو ان کے پاس اس وقت ابوجہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ چچا! آپ ایک کلمہ «لا إله إلا الله» (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں) کہہ دیجئیے تاکہ میں اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کلمہ کی وجہ سے آپ کے حق میں گواہی دے سکوں۔ اس پر ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا ابوطالب! کیا تم اپنے باپ عبدالمطلب کے دین سے پھر جاؤ گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کلمہ اسلام ان پر پیش کرتے رہے۔ ابوجہل اور ابن ابی امیہ بھی اپنی بات دہراتے رہے۔ آخر ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ وہ عبدالمطلب کے دین پر ہیں۔ انہوں نے «لا إله إلا الله» کہنے سے انکار کر دیا پھر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں آپ کے لیے استغفار کرتا رہوں گا۔ تاآنکہ مجھے منع نہ کر دیا جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت «ما كان للنبي» الآية نازل فرمائی۔ (التوبہ: 113) . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجَنَائِزِ/بَابُ إِذَا قَالَ الْمُشْرِكُ عِنْدَ الْمَوْتِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ: 1360]
� فہم الحدیث:
اس سے معلوم ہوا کہ ہدایت دینے کا اختیار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی نہیں بلکہ صرف اللہ کے پاس ہے۔ [28-القصص:56] اور اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کچھ اختیار ہوتا تو ساری زندگی تعاون کرنے والے چچا کو آپ ضرور ہدایت عطا فرماتے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مشرک کے لیے دعا و استغفار کرنا جائز نہیں اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے۔ امام نووی [المجموع 144/5-258]، شیخ البانی [احكام الجنائز ص/120] اور شیخ سلیم ہلالی [موسوعة المناهي الشرعية، 24/2] نے اسے حرام قرار دیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ موت سے پہلے کلمہ پڑھنے والے کی مغفرت کی امید کی جا سکتی ہے خواہ اس نے ایک سجدہ بھی نہ کیا ہو اور جو کلمہ بھی نہ پڑھے وہ تو پکا جہنمی ہے۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 14
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2037
´کفار و مشرکین کے لیے مغفرت طلب کرنا منع ہے۔`
مسیب بن حزن رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب ابوطالب کی وفات کا وقت آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس آئے، اور ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں ان کے پاس (پہلے سے موجود) تھے، تو آپ نے فرمایا: ”چچا جان! آپ «لا إله إلا اللہ» کا کلمہ کہہ دیجئیے، میں اس کے ذریعہ آپ کے لیے اللہ عزوجل کے پاس جھگڑوں گا“، تو ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ دونوں نے ان سے کہا: ابوطالب! کیا آپ عبدالمطلب کے دین سے منہ موڑ لو گے؟ پھر وہ دونوں ان سے بات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2037]
اردو حاشہ:
(1) ثابت ہوا کہ ابوطالب نے اسلام قبول نہیں کیا بلکہ کفر ہی پر فوت ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے اس کو سب سے ہلکا عذاب ہوگا۔ چونکہ شرک ناقابل معافی جرم ہے، اس لیے مشرک کے لیے استغفار ناجائز ہے۔ ابوطالب کو معذورین میں شامل کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ اسے تو دین حق پہنچ گیا تھا مگر وہ بوجوہ قبول نہ کرسکا۔ واللہ أعلم۔
(2) انسان کو قیامت کے دن اس کا عمل کام دے گا، حسب و نسب کام نہ آسکے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2037
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1360
1360. حضرت مسیب بن حزن ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب ابو طالب مرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے۔ وہاں اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ بھی تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب سے فرمایا:”اے چچا!کلمہ توحید لاإلٰه إلا اللہ کہہ دے تو میں اللہ کے ہاں تیری گواہی دوں گا۔“ ابو جہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بولے:ابو طالب! کیا تم (اپنے باپ) عبدالمطلب کے طریقے سے پھرتے ہو؟رسول اللہ ﷺ تو بار بار اسے کلمہ توحید کی تلقین کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب نے آخر میں کہا:وہ عبدالمطلب کے طریقے پر ہے اور لاإلٰه إلا اللہ کہنے سے انکار کردیا جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اب میں اس وقت تک تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:”نبی کے لیے جائز نہیں (کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی [صحيح بخاري، حديث نمبر:1360]
حدیث حاشیہ:
جس میں کفار ومشرکین کے لیے استغفار کی ممانعت کردی گئی تھی۔
ابوطالب کے آنحضرت ﷺ پر بڑے احسانات تھے۔
انہوں نے اپنے بچوں سے زیادہ آنحضرت ﷺ کو پالا اور پرورش کی اور کافروں کی ایذادہی سے آپ کو بچاتے رہے۔
اس لیے آپ نے محبت کی وجہ سے یہ فرمایا کہ خیر میں تمہارے لیے دعا کرتا رہوں گا اور آپ نے ان کے لیے دعا شروع کی۔
جب سورۃ توبہ کی آیت ﴿وَمَاکَانَ لِلنَبِی﴾ نازل ہوئی کہ پیغمبر اور ایمان والوں کے لیے نہیں چاہئے کہ مشرکوں کے لیے دعاکریں، اس وقت آپ رک گئے۔
حدیث سے یہ نکلا کہ مرتے وقت بھی اگر مشرک شرک سے توبہ کرلے تو اس کا ایمان صحیح ہوگا۔
باب کا یہی مطلب ہے۔
مگر یہ توبہ سکرات سے پہلے ہونی چاہیے۔
سکرات کی توبہ قبول نہیں، جیسا کہ قرآنی آیت ﴿فَلَمْ يَكُ يَنْفَعُهُمْ إِيمَانُهُمْ لَمَّا رَأَوْا بَأْسَنَا﴾ (غافر: 85)
میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1360
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6681
6681. حضرت سعید بن مسیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: جب ابو طالب کی موت کا وقت قریب آیا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس گئے اور اس سے کہا: ”آپ لا إله إلا اللہ کہہ دیں۔ میں اس کلمے کے سبب اللہ کے پاس تمہارے لیے حجت پیش کروں گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6681]
حدیث حاشیہ:
تاکہ اللہ آپ کو بخش دے مگر ابوطالب ا س کے لیے بھی تیار نہ ہو سکے ان کا نام عبدمناف تھا اور یہ عبدالمطلب کے بیٹے اور حضرت علی کے والد تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6681
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1360
1360. حضرت مسیب بن حزن ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:جب ابو طالب مرنے لگا تو رسول اللہ ﷺ اس کے پاس تشریف لائے۔ وہاں اس وقت ابو جہل بن ہشام اور عبداللہ بن ابو امیہ بن مغیرہ بھی تھے۔رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب سے فرمایا:”اے چچا!کلمہ توحید لاإلٰه إلا اللہ کہہ دے تو میں اللہ کے ہاں تیری گواہی دوں گا۔“ ابو جہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بولے:ابو طالب! کیا تم (اپنے باپ) عبدالمطلب کے طریقے سے پھرتے ہو؟رسول اللہ ﷺ تو بار بار اسے کلمہ توحید کی تلقین کرتے رہے اور وہ دونوں اپنی بات دہراتے رہے حتیٰ کہ ابو طالب نے آخر میں کہا:وہ عبدالمطلب کے طریقے پر ہے اور لاإلٰه إلا اللہ کہنے سے انکار کردیا جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اب میں اس وقت تک تیرے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائے مغفرت کرتا رہوں گا جب تک مجھے اس سے منع نہ کردیا جائے۔“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:”نبی کے لیے جائز نہیں (کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کرے اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہی [صحيح بخاري، حديث نمبر:1360]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں شرط کا جواب ذکر نہیں فرمایا، کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے اپنے چچا کو بوقت موت کلمہ توحید پڑھنے کو کہا تو ممکن ہے کہ اس وقت اس کا کلمہ توحید پڑھنا اسے فائدہ دے سکتا ہو اور یہ اس کی خصوصیت ہو، کیونکہ جب موت کا یقین ہو جائے تو کلمہ توحید کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے اس کا جواب ذکر نہیں کیا تاکہ ایسے حالات سے دوچار انسان کو غوروفکر کرنے کا موقع دیا جائے۔
(فتح الباري: 282/3،283) (2)
اگر موت کی علامتیں ظاہر نہ ہوں اور نہ موت کا یقین ہی ہو تو موت کے وقت ایمان لانا فائدہ دے سکتا ہے، بصورت دیگر فائدہ مند ہونے کی توقع نہیں۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو طالب کو نزع سے پہلے ایمان کی دعوت دی ہو۔
فرعون نے بھی موت کے آثار دیکھ کر کہا تھا:
”میں اس بات پر ایمان لاتا ہوں کہ اللہ صرف وہی ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں اس کا فرمانبردار ہوتا ہوں۔
“ (یونس90: 10)
فرعون کا یہ ایمان "إیمان البائس" تھا جو عذاب میں داخل ہونے کے بعد ظاہر ہوا۔
ایسے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا۔
اس کے برعکس قوم یونس نے مشاہدہ عذاب کرتے ہی (عذاب میں داخل ہونے سے قبل)
ایمان اختیار کر لیا تھا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ﴾ (یونس98: 10)
”پھر کیا قوم یونس کے علاوہ کوئی ایسی مثال ہے کہ کوئی قوم (عذاب دیکھ کر)
ایمان لائے تو اس کا ایمان اسے نفع دے؟“ اسے تو اللہ تعالیٰ نے خود مستثنیٰ کر دیا ہے، لہذا اس قوم پر دوسروں کو قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
اس کے علاوہ کلمہ فرعون میں ایمان صحیح کے علاوہ دوسرے احتمالات بھی تھے کیونکہ اس نے بنی اسرائیل کا حوالہ دیا تھا کہ میں اس اللہ پر ایمان لایا جس پر نبی اسرائیل ایمان لائے ہیں۔
ممکن ہے کہ اس وقت خود اس کے ذہن میں اللہ کے متعلق حقیقی معرفت و توحید حاصل نہ ہوئی، نیز کلمہ فرعون کے متعلق خود اللہ تعالیٰ نے جواب دیا ہے:
﴿آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ وَكُنتَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ﴿٩١﴾ ) (یونس91: 10)
”اب تو ایمان لاتا ہے جبکہ اس سے پہلے نافرمانی کرتا رہا اور مفسد بنا رہا۔
“ بہرحال موت کے قریب نزع کی حالت شروع ہونے سے پہلے تک ایمان لائے تو وہ معتبر ہوتا ہے۔
اگر نزع شروع ہو جانے کے بعد کلمہ توحید کہے تو اسے ایمان البائس کہا جاتا ہے جو جمہور کے نزدیک معتبر نہیں۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1360
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3884
3884. حضرت ابن مسیب سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ جب ابوطالب کی موت کا وقت قریب آیا تو اس کے پاس نبی ﷺ تشریف لائے جبکہ اس کے پاس ابوجہل بھی بیٹھا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”اے چچا! ایک بار لا إله إلا الله کہہ دے۔ میں اس وجہ سے اللہ کے پاس تمہارے لیے حجت قائم کر سکوں گا۔“ ابوجہل اور عبداللہ بن ابی امیہ نے کہا: ابوطالب! کیا عبدالمطلب کے مذہب سے روگردانی کر رہے ہو؟ وہ بار بار اسے یہی کہتے رہے حتی کہ ابوطالب نے آخری بات ان سے یہی کہی کہ وہ عبدالمطلب کی ملت پر ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”میں آپ کے لیے اللہ سے استغفار ضرور کروں گا جب تک مجھے روکا نہ جائے گا۔“ پھر یہ آیت نازل ہوئی: ”نبی اور اہل ایمان کے لائق نہیں کہ وہ مشرکین کے لیے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ قریبی ہی کیوں نہ ہوں جبکہ انہیں معلوم ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں۔“ اور ئی آیت بھی نازل ہوئی: ”بےشک آپ جسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3884]
حدیث حاشیہ:
ابو طالب نے رسول اللہ ﷺ کا بہت دفاع کیا۔
رسول اللہ ﷺ نے خود فرمایا کہ جب تک ابو طالب زندہ رہا قریش مجھے تکلیف پہنچانے سے خائف تھے۔
جب وہ فوت ہوا تو قریش کو ہمت ہوئی کہ آپ کو اذیت پہنچائیں حتی کہ ایک بےوقوف نے آپ کے سر مبارک پر مٹی ڈال دی تھی۔
بہر حال رسول اللہ ﷺ کی کوشش اور خواہش کے باوجود ابو طالب نے اسلام قبول نہیں کیا تاہم رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اسے ہلکے عذاب میں رکھا جائے گا۔
(فتح الباري: 244/7)
روایت میں عبد اللہ بن ابی امیہ کا ذکر ہے وہ مسلمانوں کا سخت مخالف تھا اور رسول اللہ ﷺ سے بغض رکھتا تھا لیکن فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کیا اور طائف میں اللہ تعالیٰ نے اسے شہادت سے سرفراز فرمایا۔
(عمدة القاري: 593/11)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3884