4670. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ اپنا کُرتا عنایت فرمائیں تاکہ وہ اپنے باپ کو اس میں کفن دیں۔ آپ نے اسے اپنا کُرتا دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں، چنانچہ رسول اللہ ﷺ اس کا جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کا دامن تھام لیا اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ اس پر نماز جنازہ پڑھتے ہیں، حالانکہ اللہ تعالٰی نے آپ کو ایسے لوگوں کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مجھے اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے: ”تو ان کے لیے دعائے مغفرت کرے یا نہ کرے، اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔“ میں ایسا کروں گا کہ ستر مرتبہ سے زیادہ اس کے لیے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4670]
حدیث حاشیہ: 1۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہﷺ نے رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ کی درخواست پر تین کام کیے:
۔
رئیس المنافقین کے لیے اپنی قمیص دی تاکہ اس میں کفن دیاجائے۔
۔
اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا۔
2۔
آپ نے تین وجوہ کی بنا پر یہ کام کیے:
۔
رسول اللہ ﷺ کی طبیعت میں نرمی رحم اور عفو درگزر کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔
۔
بدر کے قیدیوں میں آپ کے چچا حضرت عباس ؓ بدن سے ننگے تھے چونکہ ان کا قد لمبا تھا، اس لیے رئیس المنافقین سے قمیص مانگ کردی۔
آپ یہ چاہتے تھے کہ قمیص دے کر اس احسان کا بدلہ چکا دیں۔
۔
ایسے حالات میں رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عبداللہ ؓ کی دل جوئی اور تالیف قلبی مقصود تھی تاکہ وہ شکستہ دل نہ ہو۔
3۔
سیدناعمر ؓ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے عرض کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کردیا ہے کیونکہ ستر مرتبہ استغفار کرنے سے بھی اس کی معافی ممکن نہیں تو جنازہ بھی معافی کی درخواست ہوتی ہےاسے ادا کرنے کا کیا فائدہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عمر ؓ کی رائے کے مطابق وحی نازل فرمائی۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اب منافقین سے نرم قسم کی پالیسی اختیار کرنے کا دور بیت چکا ہے اور ان سے سخت رویہ اختیار کرنا عین منشائے الٰہی کے مطابق ہے۔
4۔
واضح رہے کہ رئیس المنافقین کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ نے اس لیے درخواست نہیں کی تھی کہ اس کا باپ نفاق سے تائب ہوچکا تھا بلکہ یہ درخواست اس لیے تھی کہ مرنے کے بعد لوگ اسے اور اس کے قبیلے کو اس کے نفاق کا طعنہ نہ دیں، بہرحال اس کے بیٹے کو اس بات کا علم تھا کہ وہ اب بھی منافق ہے اور حالت نفاق ہی میں مرا ہے۔
واللہ اعلم۔