9. باب: آیت کی تفسیر ”سو اس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک ایک گواہ حاضر کریں گے اور ان لوگوں پر تجھ کو بطور گواہ پیش کریں گے“۔
(9) Chapter. “How (will it be) then when We bring from each nation a witness and We bring you (O Muhammad ) as a witness against these people?” (V.4:41)
المختال والختال واحد نطمس وجوها نسويها حتى تعود كاقفائهم طمس الكتاب محاه جهنم سعيرا وقودا.الْمُخْتَالُ وَالْخَتَّالُ وَاحِدٌ نَطْمِسَ وُجُوهًا نُسَوِّيَهَا حَتَّى تَعُودَ كَأَقْفَائِهِمْ طَمَسَ الْكِتَابَ مَحَاهُ جَهَنَّمَ سَعِيرًا وُقُودًا.
«المختال» اور «ختال» کا معنی ایک ہے یعنی غرور کرنے اور اکڑنے والا۔ «نطمس وجوههم» کا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کے چہروں کو میٹ کر گدھے کی طرح سپاٹ کر دیں گے، یہ «طمس الكتاب» سے نکلا ہے یعنی لکھا ہوا میٹ دیا۔ لفظ «سعيرا» بمعنی ایندھن کے ہے۔
(مرفوع) حدثنا صدقة، اخبرنا يحيى، عن سفيان، عن سليمان، عن إبراهيم، عن عبيدة، عن عبد الله، قال يحيى: بعض الحديث، عن عمرو بن مرة، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" اقرا علي"، قلت: ااقرا عليك وعليك انزل، قال:" فإني احب ان اسمعه من غيري"، فقرات عليه سورة النساء حتى بلغت فكيف إذا جئنا من كل امة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا سورة النساء آية 41، قال:" امسك"، فإذا عيناه تذرفان.(مرفوع) حَدَّثَنَا صَدَقَةُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ يَحْيَى: بَعْضُ الْحَدِيثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ عَلَيَّ"، قُلْتُ: أَأَقْرَأُ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ، قَالَ:" فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي"، فَقَرَأْتُ عَلَيْهِ سُورَةَ النِّسَاءِ حَتَّى بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، قَالَ:" أَمْسِكْ"، فَإِذَا عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ.
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، کہا ہم کو یحییٰ بن سعید قطان نے خبر دی، انہیں سفیان ثوری نے، انہیں سلیمان نے، انہیں ابراہیم نے، انہیں عبیدہ نے اور انہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، یحییٰ نے بیان کیا کہ حدیث کا کچھ حصہ عمرو بن مرہ سے ہے (بواسطہ ابراہیم) کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ۔ میں نے عرض کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میں پڑھ کے سناؤں؟ وہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی نازل ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دوسرے سے سننا چاہتا ہوں۔ چنانچہ میں نے آپ کو سورۃ نساء سنانی شروع کی، جب میں «فكيف إذا جئنا من كل أمة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا» پر پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر جاؤ۔ میں نے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
Narrated `Abdullah bin Masud: Allah's Messenger said to me, "Recite (of the Qur'an) for me," I said, "Shall I recite it to you although it had been revealed to you?" He said, "I like to hear (the Qur'an) from others." So I recited Surat-an- Nisa' till I reached: "How (will it be) then when We bring from each nation a witness, and We bring you (O Muhammad) as a witness against these people?" (4.41) Then he said, "Stop!" And behold, his eyes were overflowing with tears."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 106
صعيدا: وجه الارض وقال جابر: كانت الطواغيت التي يتحاكمون إليها في جهينة واحد، وفي اسلم واحد وفي كل حي واحد كهان، ينزل عليهم الشيطان، وقال عمر: الجبت السحر، والطاغوت الشيطان، وقال عكرمة: الجبت بلسان الحبشة شيطان، والطاغوت الكاهن.صَعِيدًا: وَجْهَ الْأَرْضِ وَقَالَ جَابِرٌ: كَانَتِ الطَّوَاغِيتُ الَّتِي يَتَحَاكَمُونَ إِلَيْهَا فِي جُهَيْنَةَ وَاحِدٌ، وَفِي أَسْلَمَ وَاحِدٌ وَفِي كُلِّ حَيٍّ وَاحِدٌ كُهَّانٌ، يَنْزِلُ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ، وَقَالَ عُمَرُ: الْجِبْت السِّحْر، وَالطَّاغُوتُ الشَّيْطَانُ، وَقَالَ عِكْرِمَةُ: الْجِبْتُ بِلِسَانِ الْحَبَشَةِ شَيْطَانٌ، وَالطَّاغُوتُ الْكَاهِنُ.
«صعيدا» زمین کی ظاہری سطح کو کہتے ہیں۔ جابر نے کہا کہ طاغوت بڑے ظالم مشرک قسم کے سردار لوگ جن کے یہاں جاہلیت میں لوگ مقدمات لے جاتے تھے۔ ایک ایسا سردار قبیلہ جہینہ میں تھا، ایک قبیلہ اسلم میں تھا اور ہر قبیلہ میں ہی ایک ایسا طاغوت ہوتا تھا۔ یہ وہی کاہن تھے جن کے پاس شیطان (غیب کی خبریں لے کر) آیا کرتے تھے۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ «الجبت» سے مراد جادو ہے اور «الطاغوت» سے مراد شیطان ہے اور عکرمہ نے کہا کہ «الجبت» حبشی زبان میں شیطان کو کہتے ہیں اور «الطاغوت» بمعنی کاہن کے آتا ہے۔
(مرفوع) حدثني محمد، اخبرنا عبدة، عن هشام، عن ابيه، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" هلكت قلادة لاسماء، فبعث النبي صلى الله عليه وسلم في طلبها رجالا، فحضرت الصلاة وليسوا على وضوء، ولم يجدوا ماء، فصلوا وهم على غير وضوء، فانزل الله" يعني آية التيمم.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ:" هَلَكَتْ قِلَادَةٌ لِأَسْمَاءَ، فَبَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَلَبِهَا رِجَالًا، فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ وَلَيْسُوا عَلَى وُضُوءٍ، وَلَمْ يَجِدُوا مَاءً، فَصَلَّوْا وَهُمْ عَلَى غَيْرِ وُضُوءٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ" يَعْنِي آيَةَ التَّيَمُّمِ.
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انہیں ہشام بن عروہ نے، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ(مجھ سے) اسماء رضی اللہ عنہا کا ایک ہار گم ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ رضی اللہ عنہم کو اسے تلاش کرنے کے لیے بھیجا۔ ادھر نماز کا وقت ہو گیا، نہ لوگ وضو سے تھے اور نہ پانی موجود تھا۔ اس لیے وضو کے بغیر نماز پڑھی گئی اس پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی۔
Narrated `Aisha: The necklace of Asma' was lost, so the Prophet sent some men to look for it. The time for the prayer became due and they had not performed ablution and could not find water, so they offered the prayer without ablution. Then Allah revealed (the Verse of Tayammum).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 107
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو حجاج بن محمد نے خبر دی، انہیں ابن جریج نے، انہیں یعلیٰ بن مسلم نے، انہیں سعید بن جبیر نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ آیت «أطيعوا الله وأطيعوا الرسول وأولي الأمر منكم»”اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اور اپنے میں سے حاکموں کی۔“ عبداللہ بن حذافہ بن قیس بن عدی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک مہم پر بطور افسر کے روانہ کیا تھا۔
Narrated Ibn `Abbas: The Verse: "Obey Allah and Obey the Apostle and those of you (Muslims) who are in authority." (4.59) was revealed in connection with `Abdullah bin Hudhafa bin Qais bin `Adi' when the Prophet appointed him as the commander of a Sariyya (army detachment).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 108
12. باب: آیت کی تفسیر ”تیرے رب کی قسم! یہ لوگ ہرگز ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ لوگ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں، تجھ کو اپنا حکم نہ بنا لیں، پھر تیرے فیصلے کو برضا و رغبت تسلیم نہ کر لیں“۔
(12) Chapter. “But no, by your Lord, they can have no Faith, until they make you (Muhammad ) judge in all disputes between them...” (V.4:65)
(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا محمد بن جعفر، اخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، قال: خاصم الزبير رجلا من الانصار في شريج من الحرة، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اسق يا زبير، ثم ارسل الماء إلى جارك"، فقال الانصاري: يا رسول الله، ان كان ابن عمتك، فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" اسق يا زبير، ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر، ثم ارسل الماء إلى جارك"، واستوعى النبي صلى الله عليه وسلم للزبير حقه في صريح الحكم حين احفظه الانصاري، كان اشار عليهما بامر لهما فيه سعة، قال الزبير: فما احسب هذه الآيات إلا نزلت في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم سورة النساء آية 65.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: خَاصَمَ الزُّبَيْرُ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ فِي شَرِيجٍ مِنْ الْحَرَّةِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ"، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ"، وَاسْتَوْعَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ حِينَ أَحْفَظَهُ الْأَنْصَارِيُّ، كَانَ أَشَارَ عَلَيْهِمَا بِأَمْرٍ لَهُمَا فِيهِ سَعَةٌ، قَالَ الزُّبَيْرُ: فَمَا أَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَاتِ إِلَّا نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے اور ان سے عروہ بن زبیر نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ کا ایک انصاری صحابی سے مقام حرہ کی ایک نالی کے بارے میں جھگڑا ہو گیا (کہ اس سے کون اپنے باغ کو پہلے سینچنے کا حق رکھتا ہے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زبیر! پہلے تم اپنے باغ سینچ لو پھر اپنے پڑوسی کو جلد پانی دے دینا۔ اس پر اس انصاری صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! اس لیے کہ یہ آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زبیر! اپنے باغ کو سینچو اور پانی اس وقت تک روکے رکھو کہ منڈیر تک بھر جائے، پھر اپنے پڑوسی کے لیے اسے چھوڑو۔ (پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری کے ساتھ اپنے فیصلے میں رعایت رکھی تھی) لیکن اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو صاف طور پر ان کا پورا حق دے دیا کیونکہ انصاری نے ایسی بات کہی تھی۔ جس سے آپ کا غصہ ہونا قدرتی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پہلے فیصلہ میں دونوں کے لیے رعایت رکھی تھی۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میرا خیال ہے، یہ آیات اسی سلسلے میں نازل ہوئی تھیں «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم»”تیرے پروردگار کی قسم ہے کہ یہ لوگ ایماندار نہ ہوں گے جب تک یہ اس جھگڑے میں جو ان کے آپس میں ہوں آپ کو حکم نہ بنا لیں اور آپ کے فیصلے کو کھلے دل کے ساتھ برضا و رغبت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہوں۔“
Narrated `Urwa: Az-Zubair quarrelled with a man from the Ansar because of a natural mountainous stream at Al-Harra. The Prophet said "O Zubair! Irrigate (your lands and the let the water flow to your neighbor The Ansar said, "O Allah's Messenger (This is because) he (Zubair) is your cousin?" At that, the Prophet's face became red (with anger) and he said "O Zubair! Irrigate (your land) and then withhold the water till it fills the land up to the walls and then let it flow to your neighbor." So the Prophet enabled Az- Zubair to take his full right after the Ansari provoked his anger. The Prophet had previously given a order that was in favor of both of them Az-Zubair said, "I don't think but the Verse was revealed in this connection: "But no, by your Lord, they can have no faith, until they make you judge in all disputes between them." (4.6)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 109
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة"، وكان في شكواه الذي قبض فيه، اخذته بحة شديدة، فسمعته يقول:" مع الذين انعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين سورة النساء آية 69، فعلمت انه خير".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين»”ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔“ اس لیے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اللهم بالرفيق الاعلي» کہہ کر آخرت کو پسند فرمایا)۔
Narrated `Aisha: I heard Allah's Messenger saying, "No prophet gets sick but he is given the choice to select either this world or the Hereafter." `Aisha added: During his fatal illness, his voice became very husky and I heard him saying: "In the company of those whom is the Grace of Allah, of the prophets, the Siddiqin (those followers of the prophets who were first and foremost to believe in them), the martyrs and the pious.' (4.69) And from this I came to know that he has been given the option.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 110
14. باب: آیت کی تفسیر ”اور تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد نہیں کرتے اور ان لوگوں کی مدد کے لیے نہیں لڑتے جو کمزور ہیں، مردوں میں سے اور عورتوں اور لڑکوں میں سے“۔
(14) Chapter. Allah’s Statement: “And what is wrong with you that you fight not in the Cause of Allah... (till)... Whose people are oppressors...” (V.4:75)
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے بیان کیا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں اور میری والدہ «مستضعفين»(کمزوروں) میں سے تھے۔
(موقوف) حدثنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن زيد، عن ايوب، عن ابن ابي مليكة، ان ابن عباس تلا: إلا المستضعفين من الرجال والنساء والولدان سورة النساء آية 98، قال:" كنت انا وامي ممن عذر الله". ويذكر عن ابن عباس: حصرت: ضاقت، تلووا: السنتكم بالشهادة، وقال غيره:" المراغم المهاجر راغمت هاجرت قومي موقوتا: موقتا وقته عليهم".(موقوف) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ تَلَا: إِلا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ سورة النساء آية 98، قَالَ:" كُنْتُ أَنَا وَأُمِّي مِمَّنْ عَذَرَ اللَّهُ". وَيُذْكَرُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ: حَصِرَتْ: ضَاقَتْ، تَلْوُوا: أَلْسِنَتَكُمْ بِالشَّهَادَةِ، وَقَالَ غَيْرُه:" الْمُرَاغَمُ الْمُهَاجَرُ رَاغَمْتُ هَاجَرْتُ قَوْمِي مَوْقُوتًا: مُوَقَّتًا وَقْتَهُ عَلَيْهِمْ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے ابن ابی ملیکہ نے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت «لا المستضعفين من الرجال والنساء والولدان» کی تلاوت کی اور فرمایا کہ میں اور میری والدہ بھی ان لوگوں میں سے تھیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے معذور رکھا تھا۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ «حصرت» معنی میں «ضاقت» کے ہے۔ «تلووا» یعنی تمہاری زبانوں سے گواہی ادا ہو گی۔ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سوا دوسرے شخص (ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ) نے کہا «مراغم» کا معنی ہجرت کا مقام۔ عرب لوگ کہتے ہیں «راغمت قومي.» یعنی میں نے اپنی قوم والوں کو جمع کر دیا۔ «موقوتا» کے معنی ایک وقت مقررہ پر یعنی جو وقت ان کے لیے مقرر ہو۔
Narrated Ibn Abi Mulaika: Ibn `Abbas recited:-- "Except the weak ones among men women and children," (4.98) and said, "My mother and I were among those whom Allah had excused."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 112
15. باب: آیت کی تفسیر یعنی اور ”تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم منافقین کے بارے میں دو گروہ ہو گئے ہو حالانکہ اللہ نے ان کے کرتوتوں کے باعث انہیں الٹا پھیر دیا“۔
(15) Chapter. “Then what is the matter with you that you are divided into two parties about the hypocrites? Allah has cast them back (to disbelief) because of what they have earned...” (V.4:88)