صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
13. بَابُ: {فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ} :
13. باب: آیت «فأولئك مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين» کی تفسیر۔
(13) Chapter. “...Then they will be in the company of those on whom Allah has bestowed His Grace, of the Prophets...” (V.4:69)
حدیث نمبر: 4586
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن حوشب، حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابيه، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة"، وكان في شكواه الذي قبض فيه، اخذته بحة شديدة، فسمعته يقول:" مع الذين انعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين سورة النساء آية 69، فعلمت انه خير".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَوْشَبٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا مِنْ نَبِيٍّ يَمْرَضُ إِلَّا خُيِّرَ بَيْنَ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ"، وَكَانَ فِي شَكْوَاهُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، أَخَذَتْهُ بُحَّةٌ شَدِيدَةٌ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ سورة النساء آية 69، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ خُيِّرَ".
ہم سے محمد بن عبداللہ بن حوشب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو نبی مرض الموت میں بیمار ہوتا ہے تو اسے دنیا اور آخرت کا اختیار دیا جاتا ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرض الموت میں جب آواز گلے میں پھنسنے لگی تو میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين‏» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے ساتھ۔ اس لیے میں سمجھ گئی کہ آپ کو بھی اختیار دیا گیا ہے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «اللهم بالرفيق الاعلي» کہہ کر آخرت کو پسند فرمایا)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: I heard Allah's Messenger saying, "No prophet gets sick but he is given the choice to select either this world or the Hereafter." `Aisha added: During his fatal illness, his voice became very husky and I heard him saying: "In the company of those whom is the Grace of Allah, of the prophets, the Siddiqin (those followers of the prophets who were first and foremost to believe in them), the martyrs and the pious.' (4.69) And from this I came to know that he has been given the option.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 110


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

   صحيح البخاري4586عائشة بنت عبد اللهما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة
   صحيح البخاري4435عائشة بنت عبد اللهلا يموت نبي حتى يخير بين الدنيا والآخرة فسمعت النبي يقول في مرضه الذي مات فيه وأخذته بحة يقول مع الذين أنعم الله عليهم
   صحيح مسلم6295عائشة بنت عبد اللهلن يموت نبي حتى يخير بين الدنيا والآخرة قالت فسمعت النبي في مرضه الذي مات فيه وأخذته بحة يقول مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين وحسن أولئك رفيقا
   سنن ابن ماجه1620عائشة بنت عبد اللهما من نبي يمرض إلا خير بين الدنيا والآخرة

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 4586 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4586  
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
رسول اللہ ﷺ تندرستی کی حالت میں فرمایا کرتے تھے:
" کسی نبی کو اس وقت تک موت نہیں آتی جب تک اسے جنت میں اس کا ٹھکانہ نہ دکھایا جائے، پھر اسے دنیا میں رہنے یا آخرت کی طرف سدھارنے کا اختیار دیا جاتا ہے۔
" آپ جب بیمار ہوئے اورآخر وقت آیا تو آپ کا سرمبارک میری ران پر رکھا ہوا تھا آپ بے ہوش ہوگئے۔
جب ہوش آیا تو چھت کی طرف دیکھنے لگے اور فرمایا:
"اے اللہ!میں رفیق اعلیٰ کی رفاقت چاہتا ہوں۔
" میں نے (دل میں)
کہا:
اب رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی حدیث ہے جو آپ تندرستی کی حالت میں بیان کیاکرتے تھے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4437)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی اللہ کے رسولﷺ!مجھے آپ سے بہت محبت ہے اور آپ مجھے میرے اہل وعیال سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔
میں گھر میں ہوتا ہوں تو آپ ہی کو یاد کرتا رہتا ہوں۔
جب تک آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ کو دیکھ نہ لوں مجھے صبر نہیں آتا۔
جب مجھے آپ کی موت یاد آتی ہے تو پریشان ہوجاتا ہوں کہ آپ تو فردوس اعلیٰ میں انبیاء کرام ؑ کے ہمراہ ہوں گے اور میں جنت میں آپ کو نہیں دیکھ سکوں گا، مجھے اس کیفیت سے بہت ڈر لگتاہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اسے کوئی جواب نہ دیا حتی کہ حضرت جبریل ؑ مذکورہ آیت لے کر نازل ہوئے۔
(المعجم الأوسط للطبراني: 296/1۔
رقم: 480)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4586   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1620  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جو نبی بھی بیمار ہوا اسے دنیا یا آخرت میں رہنے کا اختیار دیا گیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو آپ کو ہچکی آنے لگی، میں نے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے: «مع الذين أنعم الله عليهم من النبيين والصديقين والشهداء والصالحين» ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے احسان کیا، انبیاء، صدیقین شہداء، اور صالحین میں سے تو اس وقت میں نے جان لیا کہ آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1620]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیوں علیہ السلام کو دنیا میں رہنے یا اللہ کے پاس جانے کا اختیار دیا جانا انکے مقام ومرتبہ اور شرف منزلت کے اظہار کے لئے ہے۔
لیکن انبیائے کرام رضا بالقضا کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز ہوتے ہیں۔
اس لئے وہ دنیا کے مقابلے میں آخرت ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔
اسی طرح ان کی وفات بھی اسی وقت پرہوتی ہے۔
جو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے مقرر کر رکھا ہوتا ہے۔
اس مقررہ وقت میں تقدیم وتاخیر نہیں ہوتی۔

(2)
اس بیماری سے مراد مرض وفات ہے۔
ہر بیماری کے موقع پر اختیار دیا جانا مراد نہیں۔

(3)
اس موقع پر نبی اکرمﷺ جو آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اس سے ارشاد مبارک (الحقني بالرفيق الاعليٰ)
 کی وضاحت ہوگئی۔

(4)
بندوں کے یہ چار گروہ انعام یافتہ ہیں۔
ان میں سے نبوت کا منصب تو محض اللہ کی مشیت کےمطابق اس کے منتخب بندوں کو تفویض ہوا اس میں بندے کی محنت اور کوشش کا کوئی دخل نہیں۔
باقی تینوں درجات (صدیق، شہید، صالح)
ایسے ہیں کہ بندہ کوشش کرے تو اللہ کی توفیق سے انھیں حاصل کرسکتا ہے۔
مومن کو کوشش کرنی چاہیے کہ ان میں سے کوئی درجہ اسے حاصل ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1620   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6295  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتی ہیں،میں سناکرتی تھی۔کہ کو ئی نبی فوت نہیں ہو تا یہاں تک کہ اس کو دنیا آخرت کے درمیان اختیار دیا جا تا ہے کہا: تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرض الموت میں یہ فر تے ہو ئے سنا۔اس وقت آپ کی آواز بھا ری ہو گئی تھی آپ فر رہے تھے:"ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعا لیٰ نے انعام فر یا:"یعنی انبیاء،صدیقین شہداء اور صالحین (کے ساتھ) اور یہی بہترین رفیق ہیں۔(النساء آیت نمبر 69)"فرماتی ہیں تو میں نے سمجھ لیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:6295]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اخذته بحة:
آپ کی آواز میں بھاری پن پیدا ہو گیا۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رفیق سے مراد وہ لوگ ہیں،
جو اس آیت میں بیان ہوئے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6295   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4435  
4435. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں (رسول اللہ ﷺ سے) سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک اس کو اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ میں نے نبی ﷺ سے آپ کی مرضِ وفات میں سنا، جبکہ آپ کا گلہ بیٹھ گیا تھا، آپ یہ پڑھتے تھے: ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا۔ میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4435]
حدیث حاشیہ:
یعنی آپ نے آخرت کو اختیا ر کیا۔
واقدی نے کہا آنحضرت ﷺ نے دنیا میں آنے پر سب سے پہلے جو کلمہ زبان سے نکالا وہ اللہ اکبر تھا اور آخر کلمہ جو وفات کے وقت فرمایا، وہ الرفیق الاعلیٰ تھا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4435   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4435  
4435. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں (رسول اللہ ﷺ سے) سنا کرتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک اس کو اختیار نہیں دیا جاتا کہ دنیا اختیار کرے یا آخرت۔ میں نے نبی ﷺ سے آپ کی مرضِ وفات میں سنا، جبکہ آپ کا گلہ بیٹھ گیا تھا، آپ یہ پڑھتے تھے: ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا۔ میں سمجھ گئی کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4435]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں ہے کہ میرے گمان کے مطابق آپ نے آخرت کو اختیار فرمایا ہے اور اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6509)
حضرت عائشہؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تلاوت سے جو استنباط کیا اسی طرح کا استنباط ان کے والد گرامی حضرت ابو بکرؓ نے بھی کیا تھا چنانچہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور آخرت میں سے ایک اختیار کرنے کے متعلق کہا ہے تو اس نے جو اللہ کے پاس ہے اسے اختیار کیا۔
حضرت ابو بکر ؓ نے یہ سن کر روتے ہوئے کہا:
ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔
(صحیح البخاري، مناقب الأنصار، حدیث: 3904)
حضرت ابو بکر ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے اس کلام سے یہ سمجھا کہ رسول اللہ ﷺ کو اختیار دیا گیا ہے اور آپ نے آخرت کو پسند فرمایا ہے۔
اب آپ ہمارے پاس نہیں رہیں گے۔

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ بیٹی اور باپ کی فہم و فراست اللہ کی طرف سے ایک عطیہ تھی۔
(فتح الباري: 172/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4435   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.