حدیث حاشیہ: 1۔
اس واقعے کی تفصیل امام بخاری ؒ نے ایک دوسرے مقام پر بیان کی ہے چنانچہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک فوجی دستہ روانہ کیا اور ایک آدمی کو ان کا امیر نامزد کیا۔
اس نے راستے میں آگ کا الاؤ تیار کیا اور حکم دیا کہ تم سب اس میں داخل ہو جاؤ۔
ان سب نے اس میں داخل ہونے کا ارادہ کر لیا البتہ کچھ لوگوں نے کہا ہم ایسی آگ سے بھاگ کر ادھر آئے ہیں۔
واپسی پر انھوں نے اس کا ذکر رسول اللہ ﷺ سے کیا تو آپ نے ان لوگوں سے فرمایا جو آگ میں داخل ہو نے لگے تھے:
”اگر تم اس میں داخل ہو جاتے تو قیامت تک اسی میں رہتے۔
“ اور دوسروں سے فرمایا:
”گناہ کے کاموں میں کسی کی بات نہیں مانی جاتی، اطاعت تو بھلے کاموں میں ہوتی ہے۔
“ (صحیح البخاري، أخبار الآحاد، حدیث: 7257) 2۔
بہر حال اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی اختلاف کے وقت قرآن و حدیث کا فیصلہ ہی حرف آخر ہو گا جس کے آگے کسی حاکم یا امام کی بات نہیں چلے گی۔
صرف قرآن و حدیث کو مطلق حاکم مانا جائے گا حافظ ابن حجر ؒ نے بھی یہ مسئلہ وضاحت سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 320/8) 3۔
اس آیت کریمہ میں اسلامی حکومت کی چار بنیادوں کو ذکر کیا ہے جو حسب ذیل ہیں۔
۔
اسلامی نظام حکومت میں اصل مطاع اور مقتدر اعلیٰ عوام یا پارلیمنٹ نہیں بلکہ صرف اللہ تعالیٰ ہوتا ہے۔
۔
اللہ کے احکام کی بجا آوری رسول کے ذریعے سے ہوتی ہے لہٰذا رسول کی اطاعت اور اس کے احکام کی بجا آوری بھی ضروری ہے۔
۔
تیسری اطاعت ان مسلمان حکام کی ہے جو کسی ذمہ دار انہ منصب پر فائز ہوں گے لیکن یہ طاعت مشروط ہے یعنی ان کی بات اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف نہ ہو بصورت دیگر ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔
۔
چوتھی بنیاد یہ ہے کہ اگر حاکم اور رعایا کے درمیان کسی معاملے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو ایسے معاملے کو کتاب و سنت کی طرف لوٹایا جائے اور اللہ کی شریعت کو "حکم" کی حیثیت دی جائے گی۔
اگر ان چار اصولوں میں سے کسی بھی اصول میں کوتاہی ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان مستحکم نہیں۔
واللہ اعلم۔