سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک جنازہ گزرا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! وہ تو یہودی عورت کا جنازہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ موت گھبراہٹ کی چیز ہے، جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے اور وہ بیٹھنے لگے پھر ہم بھی بیٹھنے لگے یعنی جنازہ میں۔
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کی ماں پر نماز جنازہ پڑھی جو نفاس میں فوت ہو گئی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جنازہ کے وسط میں کھڑے ہوئے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی موت کی خبر دی، جس دن کہ ان کا انتقال ہوا۔ اور صحابہ کرام کے ساتھ عیدگاہ میں گئے اور ان کی (نماز جنازہ پر) چار تکبریں پڑھیں۔
سیدنا عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں کی نماز میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک جنازہ پر پانچ تکبیریں کہیں تو میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بھی کبھی کبھی پانچ تکبریں) کہا کرتے تھے۔
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ پر نماز پڑھی اور میں نے آپ کی دعا میں سے یہ الفاظ یاد رکھے ”اے اللہ! اس کو بخش دے، اس پر رحم کر، اس کو عافیت میں رکھ، اس کو معاف کر، اپنی عنایت سے مہربانی کر، اس کا گھر (قبر) کشادہ کر دے، اس کو پانی، برف اور اولوں سے دھو دے، اس کو گناہوں سے صاف کر دے جیسے سفید کپڑا میل سے صاف ہو جاتا ہے، اس کو گھر کے بدلے اس سے بہتر گھر دے، اس کے لوگوں سے بہتر لوگ دے، اس کی بیوی سے بہتر بیوی دے، جنت میں لے جا اور عذاب قبر سے بچا“ یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ یہ مرنے والا میں ہوتا۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب (فاتح ایران) سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے انتقال فرمایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات نے کہلا بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں سے لے آؤ کہ ہم بھی نماز پڑھ لیں، سو ایسا ہی کیا گیا۔ اور ان کے حجروں کے آگے جنازہ رکھ دیا کہ وہ نماز پڑھ لیں اور جنازہ کو باب الجنائز سے جو مقاعد کی طرف تھا، وہاں سے باہر لے گئے۔ لوگوں کو یہ خبر پہنچی تو عیب کرنے لگے اور کہا کہ جنازہ کہیں مسجد میں لاتے ہیں؟ اس پر ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ لوگ کیا جلدی عیب کرنے لگے اس چیز کے متعلق جس کا ان کو علم نہیں ہے۔ انہوں نے ہم پر عیب کیا کہ جنازہ کو مسجد میں لائے حالانکہ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے بیٹے سہیل کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ہی پڑھی تھی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک حبشی عورت مسجد کی خدمت کرتی تھی یا ایک جوان تھا اور اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تو لوگوں نے عرض کیا کہ وہ مر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ کہا گویا کہ انہوں نے اس کو حقیر جان کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اس کی قبر بتاؤ۔ لوگوں نے بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی اور فرمایا: یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میری نماز کی وجہ سے ان کو روشن کر دیتا ہے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص (کا جنازہ) لایا گیا، جس نے اپنے آپ کو ایک چوڑے تیر سے مار ڈالا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی۔