سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ضماد (ایک شخص کا نام ہے) مکہ میں آیا اور وہ قبیلہ ازد شنوۃ میں سے تھا اور جنوں اور آسیب وغیرہ سے دم جھاڑ کرتا تھا۔ تو اس نے مکہ کے نادانوں سے سنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )(معاذاللہ) مجنوں ہیں۔ تو اس نے کہا کہ میں اس شخص کو دیکھوں گا شاید اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے انہیں اچھا کر دے۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا اور کہا کہ اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! میں جنوں وغیرہ کے اثر سے جھاڑ کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ میرے ہاتھ سے جسے چاہتا ہے شفاء دیتا ہے، تو کیا آپ کو خواہش ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں، میں اس کی خوبیاں بیان کرتا ہوں اور اس سے مدد چاہتا ہوں جس کو اللہ راہ بتلائے اسے کون بہکا سکتا ہے اور جسے وہ بہکائے اسے کون راہ بتلا سکتا ہے؟ اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بندے اور بھیجے ہوئے (رسول) ہیں۔ اب حمد کے بعد جو (کہو کہوں)۔ ضماد نے کہا کہ ان کلمات کو پھر پڑھو۔ غرض کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کلمات کو تین بار پڑھا۔ پھر ضماد نے کہا کہ میں نے کاہنوں کی باتیں سنیں، جادوگروں کے اقوال سنے، شاعروں کے اشعار سنے مگر ان کلمات کے برابر میں نے کسی کو نہیں سنا، اور یہ تو دریائے بلاغت کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ پھر ضماد نے کہا کہ اپنا ہاتھ لائیے کہ میں اسلام کی بیعت کروں۔ غرض انہوں نے بیعت کی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تم سے تمہاری قوم (کی طرف) سے بھی بیعت کر لوں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں، میں اپنی قوم کی طرف سے بھی بیعت کرتا ہوں۔ (راوی) کہتا ہے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک فوجی دستہ بھیجا اور وہ ان (ضماد) کی قوم پر سے گزرے تو اس لشکر کے سردار نے کہا کہ تم نے اس قوم سے تو کچھ نہیں لوٹا؟ تب ایک شخص نے کہا کہ ہاں میں نے ایک لوٹا ان سے لیا ہے۔ انہوں نے حکم دیا کہ جاؤ اسے واپس کر دو اس لئے کہ یہ ضماد کی قوم ہے (اور وہ ضماد کی بیعت کے سبب سے امان میں آ چکے ہیں)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی اور غصہ زیادہ ہو جاتا۔ گویا وہ ایک ایسے لشکر سے ڈرانے والے تھے کہ صبح آیا یا شام آیا اور فرماتے تھے کہ میں اور قیامت یوں اکٹھے بھیجے گئے ہیں جیسے یہ دو انگلیاں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی ملا دکھاتے اور حمد و ثناء کے بعد فرماتے کہ جان لو کہ ہر بات سے بہتر اللہ کی کتاب ہے اور سب سے بہتر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔ اور سب کاموں سے برے نئے کام ہیں اور عبادت کا ہر نیا طریقہ گمراہی ہے۔ پھر فرماتے کہ میں ہر مومن کا اس کی جان سے زیادہ دوست ہوں۔ تو جو مومن مر کر مال چھوڑ جائے وہ اس کے گھر والوں کا ہے۔ اور جو قرض یا بچے چھوڑے تو ان کی پرورش میری طرف ہے اور ان کا خرچ مجھ پر ہے۔
سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے ہم پر خطبہ پڑھا اور بہت مختصر پڑھا اور نہایت بلیغ۔ پھر جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے کہا کہ اے ابوالیقظان! تم نے بہت بلیغ خطبہ پڑھا اور نہایت مختصر کہا۔ اگر آپ اس خطبہ کو ذرا طویل کرتے تو بہتر ہوتا۔ تب سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، کہ آدمی کا نماز کو لمبا کرنا اور خطبہ کو مختصر کرنا اس کے سمجھ دار ہونے کی نشانی ہے، سو تم نماز کو لمبا کیا کرو اور خطبہ کو چھوٹا۔ اور بعض بیان جادو ہوتا ہے (یعنی تاثیر رکھتا ہے)
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خطبہ پڑھا اور اس نے کہا کہ ”جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی اس نے راہ پائی، اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو کیا برا خطیب ہے۔ یوں کہو کہ ”جس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہو گیا“۔
سیدہ ام ھشام بنت حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ دو برس یا ایک برس اور کچھ ماہ تک ہمارا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تنور ایک ہی تھا۔ اور میں نے سورۃ ”ق“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سن کر یاد کر لی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ ارشاد فرماتے وقت منبر پر اس کی تلاوت کیا کرتے تھے۔
حصین سے روایت ہے کہ عمارہ بن رؤیبہ رضی اللہ عنہ نے مروان کے بیٹے بشر کو ممبر پر دیکھا کہ وہ دونوں ہاتھ (خطبہ کے دوران اشارہ کے لئے) اٹھائے ہوئے تھا۔ تو کہا کہ اللہ ان دونوں ہاتھوں کو خراب کرے، میں نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ اس سے زیادہ نہ کرتے تھے اور انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ سو ایک بار ملک شام سے (غلہ لے کر) ایک قافلہ آیا اور لوگ اس کے پاس دوڑ گئے، صرف بارہ آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے۔ اس پر یہ آیت اتری جو سورۃ الجمعہ میں ہے کہ ”جب کوئی تجارت یا کوئی کھیل کی چیز دیکھتے ہیں تو اس طرف دوڑ کر جاتے ہیں اور تجھے کھڑا ہوا چھوڑ جاتے ہیں....“ پوری آیت۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدین اور جمعہ میں ”سبح اسم ربک الاعلیٰ“ اور ”ھل اتاک حدیث الغاشیۃ“ پڑھا کرتے تھے۔ اور جب جمعہ اور عید دونوں ایک دن میں ہوتیں، تب بھی انہی دونوں سورتوں کو دونوں نمازوں میں پڑھتے تھے۔
سیدنا ابورفاعہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ کہتے ہیں، میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک مرد غریب (مسافر) اپنا دین دریافت کرنے کو آیا ہے اور نہیں جانتا ہے کہ اس کا دین کیا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف متوجہ ہوئے اور اپنا خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تک آ گئے اور ایک کرسی لائی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ اس کے پائے لوہے کے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھ گئے (معلوم ہوا کہ کرسی پر بیٹھنا منع نہیں) اور مجھے سکھانے لگے جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سکھایا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر خطبہ کو تمام کیا۔ (یہ کمال خلق تھا اور معلوم ہوا کہ ضروری بات خطبہ میں روا ہے)۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کھڑے ہو کر پڑھتے۔ پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہوتے اور کھڑے کھڑے پڑھتے۔ اور جس نے تم سے کہا کہ بیٹھ کر پڑھتے تھے، اللہ کی قسم اس نے جھوٹ کہا۔ اور اللہ کی قسم میں نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں۔