سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھتے تھے تو جب وہ سورت پڑھتے جس میں سجدہ کی آیت ہوتی تو سجدہ کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو لوگ ہوتے وہ بھی سجدہ کرتے، یہاں تک کہ ہم میں سے بعضوں کو اپنی پیشانی رکھنے کی جگہ نہ ملتی تھی۔
سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھی اور اس میں ”اذا السماء انشقت“(سورت) تلاوت کی اور اس میں سجدہ کیا۔ (نماز کے بعد) میں نے کہا کہ یہ سجدہ تم نے کیسا کیا؟ انہوں نے کہا کہ میں نے تو یہ سجدہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کیا ہے اور میں اس کو کرتا رہوں گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملوں۔ (یعنی تاحیات کرتا رہوں گا)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر کی قرآت سے فارغ ہو جاتے تو (دوسری رکعت میں) سرمبارک رکوع سے اٹھاتے اور فرماتے کہ ”سمع اللہ لمن حمدہ، اے ہمارے رب! سب تعریف تیرے ہی لئے ہے“ پھر کھڑے ہی کھڑے کہتے کہ ”اے اللہ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ کو (یہ سب مسلمان کفار کے ہاتھوں میں تھے) اور مومنوں میں سے ضعیف لوگوں (یعنی جو مکہ والوں کے ہاتھ میں دبے پڑے تھے) کو نجات دے۔ یا اللہ (قبیلہ) مضر پر اپنی پکڑ سخت کر۔ اور ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح کا قحط ڈال دے (جیسے مصر میں سات برس واقع ہوا تھا) یا اللہ لعنت کر لحیان، رعل، ذکوان اور عصیہ پر (جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی)۔ پھر ہمیں خبر پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بددعا چھوڑ دی۔ جب یہ آیت اتری کہ ”اے نبی! تم کو اس کام میں کچھ اختیار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے اور چاہے تو انہیں عذاب کرے، کیونکہ وہ ظالم ہیں“۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے قریب نماز پڑھاؤں گا۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر، عشاء اور فجر میں قنوت پڑھتے تھے اور مومنوں کے لئے دعا کرتے تھے اور کافروں پر لعنت کرتے تھے۔
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر نکل آتی تو ہلکی ہلکی دو رکعتوں (یعنی سنت فجر) کے علاوہ کچھ نہ پڑھتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فجر کی دو رکعتیں دنیا اور جو کچھ (اس) دنیا میں ہے (ان سب سے) بہتر ہیں۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی سنت پڑھ چکتے تو میں اگر جاگتی ہوتی تو مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے۔
سماک بن حرب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بہت۔ پھر کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ اپنی نماز کی جگہ بیٹھے رہتے، صبح کے بعد جب تک کہ آفتاب نہ نکلتا۔ پھر جب سورج نکلتا تو اٹھ کھڑے ہوتے۔ اور لوگ دور جاہلیت کا ذکر کیا کرتے تھے اور ہنستے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہتے تھے۔