سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مسلمان جب مدینہ میں آئے تو وقت کا اندازہ کر کے جمع ہو کر نماز پڑھ لیا کرتے تھے اور کوئی شخص ندا وغیرہ نہیں کرتا۔ ایک دن مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ اطلاع نماز کے لئے عیسائیوں کی طرح ناقوس بجا لیا کریں یا یہودیوں کی طرح نرسنگا بجا لیا کریں تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ ایک آدمی کو مقرر کر دیا جائے جو لوگوں کو نماز کے لئے مطلع کر دیا کرے اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بلال! اٹھو اور نماز کے لئے اعلان کر دو۔
سیدنا ابومحذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس طرح اذان سکھائی ہے: اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔ (باقی روایات میں اللہ اکبر چار مرتبہ ہے)۔ اشھد ان لا الٰہ الا اﷲ۔ اشھد ان لا الٰہ الا اﷲ۔ اشھد ان محمد رسول اﷲ۔ اشھد ان محمد رسول اﷲ۔ پھر دوبارہ کہے اشھد ان لا الٰہ الا اﷲ۔ اشھد ان لا الٰہ الا اﷲ۔ اشھد ان محمد رسول اﷲ۔ اشھد ان محمد رسول اﷲ۔ حی علی الصلٰوۃ۔ دو مرتبہ حی علی الفلاح۔ دو مرتبہ۔ اسحٰق کا بیان ہے کہ اس کے بعد اللہ اکبر اﷲاکبر۔ لا الٰہ الا اﷲ۔ کہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے الفاظ دو دو مرتبہ اور اقامت کے الفاظ ایک ایک مرتبہ کہنے کا حکم کیا گیا۔ اور یحییٰ نے ابن علیّہ سے یہ اضافہ کیا ہے کہ میں نے اسے سیدنا ایوب سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اقامت میں صرف قد قامت الصلٰوۃ کے الفاظ دو مرتبہ کہے جائیں۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے۔ ایک سیدنا بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ، جو کہ نابینا تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اذان دیا کرتے تھے اور وہ نابینا تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح سویرے ہی دشمنوں پر حملہ کرتے تھے اور اذان کی آواز پر کان لگائے رکھتے تھے، اگر (مخالفوں کے شہر سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذان کی آواز سنائی دیتی، تو ان پر حملہ نہ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر اللہ اکبر کہتے سنا تو فرمایا کہ یہ مسلمان ہے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ، اشہد ان لا الٰہ الا اﷲ کہتے سنا تو ارشاد فرمایا کہ اے شخص تو نے دوزخ سے نجات پائی۔ لوگوں نے دیکھا تو وہ بکریوں کا چرواہا تھا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اذان ہوتی ہے تو شیطان پیٹھ موڑ کے گوز (یعنی پاد) مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے تاکہ اذان نہ سن سکے اور اذان کے بعد پھر لوٹ آتا ہے اور جب تکبیر (اقامت) کہی جاتی ہے تو پھر بھاگ کھڑا ہوتا ہے اور تکبیر (اقامت) کے بعد پھر واپس آ جاتا ہے اور آدمی کے دل میں وسوسے ڈالتا ہے اور اس کو وہ وہ باتیں یاد دلاتا ہے جو نماز سے پہلے اس شخص کے خیال میں بھی نہ تھیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نمازی کو یاد ہی نہیں رہتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔
عیسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ اتنے میں انہیں مؤذن نماز کے لئے بلانے آیا۔ جس پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن مؤذنوں کی گردن سب سے زیادہ لمبی ہو گی۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے، پھر مجھ پر درود پڑھو کیونکہ جو کوئی مجھ پر درود پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر اپنی دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لئے وسیلہ مانگو۔ اور وسیلہ جنت میں ایک مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ کو دیا جائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا۔ اور جو کوئی میرے لئے وسیلہ (مقام محمود یعنی جنت کا ایک محل) طلب کرے گا تو اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو جائے گی۔
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن اللہ اکبر اللہ اکبر کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ دہرائے اور جب وہ اشہد ان لا الٰہ الا اللہ اور اشہد ان محمدًا رسول اللہ کہے تو سننے والا بھی یہی الفاظ کہے اور جب مؤذن حیّ علی الصلٰوۃ کہے تو سننے والا لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے پھر جب مؤذن حیّ علی الفلاح کہے تو سننے والا بھی لا حول ولا قوۃ الا باللہ کہے اس کے بعد مؤذن جب اللہ اکبر اللہ اکبر اور لا الٰہ الا اللہ کہے تو سننے والے کو بھی یہی الفاظ دہرانا چاہئیں اور جب سننے والے نے اس طرح خلوص اور دل سے یقین رکھ کر کہا تو وہ جنت میں داخل ہوا (بشرطیکہ ارکان اسلام کا بھی پابند ہو)۔