سیدہ معاذہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، جو میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان میں ہوتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی پانی لیتے، یہاں تک کہ میں کہتی کہ تھوڑا پانی میرے لئے چھوڑ دو (سیدہ معاذہ) راویہ حدیث کہتی ہیں: اور دونوں جنابت سے ہوتے تھے۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنبی ہوتے اور کھانا یا سونا چاہتے تو وضو کر لیتے جیسے نماز کے لئے کرتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن ابی قیس سے روایت ہے کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا پھر حدیث (وتر کے متعلق) بیان کی۔ میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت میں کیا کیا کرتے تھے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے پہلے غسل کرتے تھے یا غسل سے پہلے سو جاتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں طرح کرتے تھے، کبھی غسل کر لیتے، پھر سوتے اور کبھی وضو کر کے سو رہتے۔ میں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اس امر میں گنجائش رکھی۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی عورت سے صحبت کرے، پھر دوبارہ صحبت کرنا چاہے، تو وضو کر لے (پھر صحبت کرے)۔
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں نکلے، جب بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے (بیداء اور ذات الجیش خیبر اور مدینہ کے درمیان مقام کے نام ہیں) تو میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر گر گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ڈھونڈھنے کے لئے ٹھہر گئے۔ لوگ بھی ٹھہر گئے۔ وہاں پانی نہ تھا اور نہ لوگوں کے پاس پانی تھا۔ لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم دیکھتے نہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ٹھہرایا ہے اور لوگوں کو بھی، جہاں پانی نہیں اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر میری ران پر رکھے سو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک رکھا ہے اور لوگوں کو جہاں نہ پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے اور انہوں نے غصہ کیا اور جو اللہ نے چاہا وہ کہہ ڈالا اور میری کوکھ میں ہاتھ سے گھونسے مارنے لگے۔ میں ضرور ہلتی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر میری ران پر تھا، اس وجہ سے میں نہ ہلی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی بالکل نہ تھا تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو سب نے تیمم کیا۔ سیدنا اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو نقیبوں میں سے تھے، نے کہا کہ اے ابوبکر کی اولاد! یہ تمہاری کچھ پہلی برکت نہیں ہے (یعنی تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مسلمانوں کو فائدہ دیا ہے، یہ بھی ایک نعمت تمہارے سبب سے ملی) ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی، تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔
شقیق کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ (بن مسعود) اور سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمن (یہ کنیت ہے ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی) اگر کسی شخص کو جنابت ہو اور ایک مہینے تک پانی نہ ملے تو وہ نماز کا کیا کرے؟ سیدنا عبداللہ نے کہا کہ اسے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو بھی تیمم نہ کرے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر سورۃ المائدہ میں یہ جو آیت ہے کہ ”پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو“ اس کا کیا حکم ہے؟ سیدنا عبداللہ نے کہا کہ اگر اس آیت سے ان کو جنابت میں تیمم کرنے کی اجازت دی گی تو وہ رفتہ رفتہ پانی ٹھنڈا ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرنے لگ جائیں گے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث نہیں سنی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک کام کو بھیجا، وہاں میں جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا تو میں خاک میں اس طرح سے لیٹا جیسے جانور لیٹتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تجھے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرنا کافی تھا۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارے اور بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ پر مارا۔ پھر ہتھیلیوں کی پشت اور منہ پر مسح کیا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمار رضی اللہ عنہ کی حدیث پر قناعت نہیں کی۔ (سیدنا ابن مسعود اور عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ جنابت سے تیمم کافی نہیں ہے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا)
سیدنا عمیر مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اور عبدالرحمن بن یسار جو ام المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی میمونہ رضی اللہ عنہا کے مولیٰ تھے ابوالجہم بن حارث کے پاس گئے۔ ابوالجہم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئر جمل (مدینہ کے قریب ایک مقام ہے) کی طرف سے آئے، راہ میں ایک شخص ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور منہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا اور پھر سلام کا جواب دیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ کے ایک راستے میں ملے اور وہ جنبی تھے، تو کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں گم پایا، جب وہ آئے تو پوچھا کہ کہاں تھے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! جس وقت آپ مجھ سے ملے میں جنبی تھا، میں نے غسل کئے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھنا ناپسند کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سبحان اللہ! مومن کہیں نجس ہوتا ہے؟
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے اور کھانا لایا گیا۔ لوگوں نے آپ کو وضو یاد دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں نماز پڑھنے لگا ہوں جو وضو کروں؟