سیدنا عبدالرحمن بن ابی سعید خدری اپنے والد سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں پیر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد قباء کی طرف نکلا۔ جب ہم بنی سالم کے محلے میں پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کو آواز دی تو وہ اپنی ازار گھسیٹتے ہوئے نکلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے اس کو جلدی میں مبتلا کر دیا۔ سیدنا عتبان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص جلدی اپنی عورت سے الگ ہو جائے اور منی نہ نکلے، تو اس کا کیا حکم ہے (یعنی غسل کرے یا نہیں)؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانی کا استعمال پانی نکلنے سے ہے (یعنی منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے)۔
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ(وجوب غسل کے) اس مسئلہ میں مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت نے اختلاف کیا۔ انصار نے کہا کہ غسل جب ہی واجب ہوتا ہے کہ منی کود کر نکلے اور انزال ہو، جبکہ مہاجرین نے کہا کہ جب مرد عورت سے صحبت کرے، تو غسل واجب ہے۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہاری تسلی کئے دیتا ہوں۔ میں اٹھا اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر جا کر ان سے اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دی، تو میں نے کہا کہ اے ام المؤمنین میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے شرم آتی ہے۔ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تو اس بات کے پوچھنے میں مت شرم کر جو اپنی سگی ماں سے پوچھ سکتا ہے جس نے تجھے جنم دیا ہے۔ میں بھی تو تیری ماں ہوں (کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں) میں نے کہا کہ غسل کس سے واجب ہوتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اچھے واقف کار سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب مرد عورت کے چاروں کونوں میں بیٹھے اور ختنہ ختنہ سے مل جائے (یعنی ذکر فرج میں داخل ہو جائے) تو غسل واجب ہو گیا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایت کی اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت سے جماع کرے، پھر انزال نہ کر سکے تو کیا دونوں پر غسل واجب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اور یہ (یعنی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) ایسا کرتے ہیں، پھر غسل کرتے ہیں۔
اسحاق بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا (اور وہ راوی حدیث اسحاق بن ابی طلحہ کی دادی تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور وہاں ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی بیٹھی تھیں، انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! عورت اگر سوتے میں ایسا دیکھے، جیسا کہ مرد دیکھتا ہے (یعنی منی کو تو کیا حکم ہے)؟ یہ سن کر ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے ام سلیم! تو نے عورتوں کو رسوا کر دیا (اس وجہ سے کہ احتلام اسی عورت کو ہو گا جو بہت پرشہوت ہو اور منی بھی اسی کی نکلے گی) تیرے ہاتھ میں مٹی لگے (اور یہ انہوں نے نیک بات کہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! تیرے ہاتھ میں مٹی لگے اور ام سلیم سے فرمایا کہ اے ام سلیم! جب عورت ایسا دیکھے تو اس صورت میں غسل کرے۔
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے غسل جنابت کے واسطے پانی رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو بار یا تین بار دونوں ہاتھ دھوئے، پھر ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرمگاہ پر پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر زور سے رگڑ کر دھویا پھر وضو کیا جیسے نماز کے لئے کرتے تھے، پھر اپنے سر پر تین چلو بھر کر ڈالے، پھر سارے بدن کو دھویا، پھر اس جگہ سے ہٹ کر اور پاؤں دھوئے۔ پھر میں بدن پوچھنے کو رو مال (تولیہ) لے کر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ لیا۔
ابوسلمہ بن عبدالرحمن (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے) کہتے ہیں کہ میں اور ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی بھائی (عبداللہ بن یزید) ان کے پاس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت کے متعلق پوچھا؟ انہوں نے ایک برتن منگوایا جس میں صاع بھر پانی آتا تھا اور ہمارے اور اپنے درمیان پردے کی آڑ سے غسل کیا اور انہوں نے اپنے سر پر تین بار پانی ڈالا۔ ابوسلمہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اپنے بال کتراتی تھیں اور کانوں تک بال رکھتی تھیں۔ (ازواج مطہرات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد زینت ختم کرنے کے لئے ایسا کیا تھا کیونکہ بال عورت کی زینت ہیں)۔
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے بلند جانب میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرنے کے لئے اٹھے، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک کپڑے کی آڑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کپڑا لے کر لپیٹا اور پھر آٹھ رکعتیں چاشت کی پڑھیں۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھا کرتے تھے۔ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اکیلے نہاتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام ہمارے ساتھ مل کر اس لئے نہیں نہاتے کہ ان کو تو فتق کی بیماری ہے (یعنی خصیے بڑھ جانے کی)۔ ایک دفعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہانے کو گئے اور کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھے، تو پتھر (خودبخود اللہ کے حکم سے) ان کے کپڑے لیکر بھاگ کھڑا ہوا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے اور کہتے جاتے کہ اے پتھر میرے کپڑے دے، اے پتھر میرے کپڑے دے! یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے ان کا ستر دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ان کو تو کوئی بیماری نہیں ہے۔ اس وقت پتھر کھڑا ہو گیا اور انہیں خوب دیکھا گیا۔ پھر انہوں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور (غصے سے) پتھر کو مارنا شروع کیا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اس پتھر پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی چھ یا سات ماروں کا نشان ہے۔
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو (یعنی وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے) نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے اور نہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تعمیر کعبہ کے لئے پتھر ڈھو رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تہبند باندھے ہوئے تھے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا تھے، نے کہا کہ اے میرے بھتیجے! تم اپنی ازار اتار کر کندھے پر ڈال لو تو اچھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار کھول کر کندھے پر ڈال لی تو اسی وقت غش کھا کر گر پڑے۔ پھر اس دن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔