صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
حدیث نمبر: 4134
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو اليمان , حدثنا شعيب , عن الزهري , قال: حدثني سنان , وابو سلمة , ان جابرا اخبر:" انه غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل نجد".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , قَالَ: حَدَّثَنِي سِنَانٌ , وَأَبُو سَلَمَةَ , أَنَّ جَابِرًا أَخْبَرَ:" أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے شعیب نے بیان کیا ‘ ان سے زہری نے بیان کیا ‘ ان سے سنان اور ابوسلمہ نے بیان کیا اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اطراف نجد میں لڑائی کے لیے گئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Sinan and Abu Salama: Jabir mentioned that he had participated in a Ghazwa towards Najd in the company of Allah's Apostle .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 457


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4135
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا إسماعيل , قال: حدثني اخي , عن سليمان , عن محمد بن ابي عتيق , عن ابن شهاب , عن سنان بن ابي سنان الدؤلي , عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , اخبره: انه غزا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل نجد , فلما قفل رسول الله صلى الله عليه وسلم قفل معه , فادركتهم القائلة في واد كثير العضاه , فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم وتفرق الناس في العضاه يستظلون بالشجر , ونزل رسول الله صلى الله عليه وسلم تحت سمرة فعلق بها سيفه , قال جابر: فنمنا نومة , ثم إذا رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعونا فجئناه , فإذا عنده اعرابي جالس , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن هذا اخترط سيفي وانا نائم , فاستيقظت وهو في يده صلتا , فقال لي: من يمنعك مني؟ قلت: الله" , فها هو ذا جالس ثم لم يعاقبه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ , قَالَ: حَدَّثَنِي أَخِي , عَنْ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي عَتِيقٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ سِنَانِ بْنِ أَبِي سِنَانٍ الدُّؤَلِيِّ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ , فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ , فَأَدْرَكَتْهُمُ الْقَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ , فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الْعِضَاهِ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ , وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ , قَالَ جَابِرٌ: فَنِمْنَا نَوْمَةً , ثُمَّ إِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُونَا فَجِئْنَاهُ , فَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ جَالِسٌ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ سَيْفِي وَأَنَا نَائِمٌ , فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا , فَقَالَ لِي: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قُلْتُ: اللَّهُ" , فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ ثُمَّ لَمْ يُعَاقِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھائی عبدالحمید نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان بن بلال نے ‘ ان سے محمد بن ابی عتیق نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے سنان بن ابی سنان دولی نے ‘ انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اطراف نجد میں غزوہ کے لیے گئے تھے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو وہ بھی واپس ہوئے۔ قیلولہ کا وقت ایک وادی میں آیا ‘ جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں اتر گئے اور صحابہ رضی اللہ عنہم درختوں کے سائے کے لیے پوری وادی میں پھیل گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ببول کے درخت کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار اس درخت پر لٹکا دی۔ جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابھی تھوڑی دیر ہمیں سوئے ہوئے ہوئی تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پکارا۔ ہم جب خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ کے پاس ایک بدوی بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص نے میری تلوار (مجھ ہی پر) کھینچ لی تھی ‘ میں اس وقت سویا ہوا تھا ‘ میری آنکھ کھلی تو میری ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے مجھ سے کہا ‘ تمہیں میرے ہاتھ سے آج کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! اب دیکھو یہ بیٹھا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر کوئی سزا نہیں دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: That he fought in a Ghazwa towards Najd along with Allah's Apostle and when Allah's Apostle returned, he too, returned along with him. The time of the afternoon nap overtook them when they were in a valley full of thorny trees. Allah's Apostle dismounted and the people dispersed amongst the thorny trees, seeking the shade of the trees. Allah's Apostle took shelter under a Samura tree and hung his sword on it. We slept for a while when Allah's Apostle suddenly called us, and we went to him, to find a bedouin sitting with him. Allah's Apostle said, "This (bedouin) took my sword out of its sheath while I was asleep. When I woke up, the naked sword was in his hand and he said to me, 'Who can save you from me?, I replied, 'Allah.' Now here he is sitting." Allah's Apostle did not punish him (for that).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 458


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4136
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال ابان: حدثنا يحيى بن ابي كثير , عن ابي سلمة , عن جابر , قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بذات الرقاع فإذا اتينا على شجرة ظليلة تركناها للنبي صلى الله عليه وسلم , فجاء رجل من المشركين وسيف النبي صلى الله عليه وسلم معلق بالشجرة فاخترطه فقال: تخافني؟ قال:" لا" , قال: فمن يمنعك مني؟ قال:" الله" , فتهدده اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم واقيمت الصلاة فصلى بطائفة ركعتين ثم تاخروا , وصلى بالطائفة الاخرى ركعتين , وكان للنبي صلى الله عليه وسلم اربع وللقوم ركعتان , وقال مسدد: عن ابي عوانة , عن ابي بشر: اسم الرجل غورث بن الحارث وقاتل فيها محارب خصفة.(مرفوع) وَقَالَ أَبَانُ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ جَابِرٍ , قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَاتِ الرِّقَاعِ فَإِذَا أَتَيْنَا عَلَى شَجَرَةٍ ظَلِيلَةٍ تَرَكْنَاهَا لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَسَيْفُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعَلَّقٌ بِالشَّجَرَةِ فَاخْتَرَطَهُ فَقَالَ: تَخَافُنِي؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: فَمَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قَالَ:" اللَّهُ" , فَتَهَدَّدَهُ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى بِطَائِفَةٍ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ تَأَخَّرُوا , وَصَلَّى بِالطَّائِفَةِ الْأُخْرَى رَكْعَتَيْنِ , وَكَانَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعٌ وَلِلْقَوْمِ رَكْعَتَانِ , وَقَالَ مُسَدَّدٌ: عَنْ أَبِي عَوَانَةَ , عَنْ أَبِي بِشْرٍ: اسْمُ الرَّجُلِ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ وَقَاتَلَ فِيهَا مُحَارِبَ خَصَفَةَ.
اور ابان نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا ‘ ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ذات الرقاع میں تھے۔ کہ ہم ایک گھنے سایہ دار درخت کے پاس آئے۔ وہ درخت ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مخصوص کر دیا کہ آپ وہاں آرام فرمائیں۔ بعد میں مشرکین میں سے ایک شخص آیا ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی۔ اس نے وہ تلوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کھینچ لی اور پوچھا ‘ تم مجھ سے ڈرتے ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر اس نے پوچھا آج میرے ہاتھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ! پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے ڈانٹا دھمکایا اور نماز کی تکبیر کہی گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ایک جماعت کو دو رکعت نماز خوف پڑھائی جب وہ جماعت (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سے) ہٹ گئی تو آپ نے دوسری جماعت کو بھی دو رکعت نماز پڑھائی۔ اس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چار رکعت نماز ہوئی۔ لیکن مقتدیوں کی صرف دو دو رکعت اور مسدد نے بیان کیا ‘ ان سے ابوعوانہ نے ‘ ان سے ابوبسر نے کہ اس شخص کا نام (جس نے آپ پر تلوار کھینچی تھی) غورث بن حارث تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں قبیلہ محارب خصفہ سے جنگ کی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

(through another group of narrators) Jabir said: "We were in the company of the Prophet (during the battle of) Dhat-ur-Riqa', and we came across a shady tree and we left it for the Prophet (to take rest under its shade). A man from the pagans came while the Prophet's sword was hanging on the tree. He took it out of its sheath secretly and said (to the Prophet ), 'Are you afraid of me?' The Prophet said, 'No.' He said, 'Who can save you from me?' The Prophet said, Allah.' The companions of the Prophet threatened him, then the Iqama for the prayer was announced and the Prophet offered a two rak`at Fear prayer with one of the two batches, and that batch went aside and he offered two rak`a-t with the other batch. So the Prophet offered four rak`at but the people offered two rak`at only." (The subnarrator) Abu Bishr added, "The man was Ghaurath bin Al-Harith and the battle was waged against Muharib Khasafa."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 458


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4137
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) وقال ابو الزبير: عن جابر:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم بنخل فصلى الخوف". وقال ابو هريرة:" صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم غزوة نجد صلاة الخوف" , وإنما جاء ابو هريرة إلى النبي صلى الله عليه وسلم ايام خيبر.(مرفوع) وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: عَنْ جَابِرٍ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَخْلٍ فَصَلَّى الْخَوْفَ". وَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ نَجْدٍ صَلَاةَ الْخَوْفِ" , وَإِنَّمَا جَاءَ أَبُو هُرَيْرَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَّامَ خَيْبَرَ.
اور ابو الزبیر نے جابر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام نخل میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خوف پڑھائی اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز خوف غزوہ نجد میں پڑھی تھی۔ یہ یاد رہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (سب سے پہلے) غزوہ خیبر کے موقع پر حاضر ہوئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Jabir added, "We were with the Prophet at Nakhl and he offered the Fear prayer." Abu Huraira said, "I offered the Fear prayer with the Prophet during the Ghazwa (i.e. the battle) of Najd." Abu Huraira came to the Prophet during the day of Khaibar.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 458


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
33. بَابُ غَزْوَةُ بَنِي الْمُصْطَلِقِ مِنْ خُزَاعَةَ وَهْيَ غَزْوَةُ الْمُرَيْسِيعِ:
33. باب: غزوہ بنو المصطلق کا بیان جو قبیلہ بنو خزاعہ سے ہوا تھا اور یہی غزوہ مریسیع (بھی کہلاتا) ہے۔
(33) Chapter. The Ghazwa of Banu Al-Mustaliq which belongs to the tribe of Khuzaa. It is also called the Ghazwa of Al- Muraisi.
حدیث نمبر: Q4138
Save to word مکررات اعراب English
قال ابن إسحاق: وذلك سنة ست. وقال موسى بن عقبة: سنة اربع. وقال النعمان بن راشد عن الزهري: كان حديث الإفك في غزوة المريسيع.قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَذَلِكَ سَنَةَ سِتٍّ. وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: سَنَةَ أَرْبَعٍ. وَقَالَ النُّعْمَانُ بْنُ رَاشِدٍ عَنِ الزُّهْرِيِّ: كَانَ حَدِيثُ الإِفْكِ فِي غَزْوَةِ الْمُرَيْسِيعِ.
‏‏‏‏ ابن اسحاق نے بیان کیا کہ یہ غزوہ 6 ھ میں ہوا تھا اور موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا کہ 4 ھ میں اور نعمان بن راشد نے زہری سے بیان کیا کہ واقعہ افک غزوہ مریسیع میں پیش آیا تھا۔
حدیث نمبر: 4138
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد , اخبرنا إسماعيل بن جعفر , عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن , عن محمد بن يحيى بن حبان , عن ابن محيريز , انه قال: دخلت المسجد فرايت ابا سعيد الخدري فجلست إليه فسالته عن العزل , قال ابو سعيد: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بني المصطلق , فاصبنا سبيا من سبي العرب , فاشتهينا النساء واشتدت علينا العزبة واحببنا العزل , فاردنا ان نعزل وقلنا نعزل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهرنا قبل ان نساله , فسالناه عن ذلك , فقال:" ما عليكم ان لا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ , عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ , عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ , أَنَّهُ قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْعَزْلِ , قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ , فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ , فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ وَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ وَأَحْبَبْنَا الْعَزْلَ , فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْزِلَ وَقُلْنَا نَعْزِلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ , فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ , فَقَالَ:" مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو اسماعیل بن جعفر نے خبر دی ‘ انہیں ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن نے ‘ انہیں محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ان سے ابومحیریز نے بیان کیا کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اندر موجود تھے۔ میں ان کے پاس بیٹھ گیا اور میں نے عزل کے متعلق ان سے سوال کیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ بنی المصطلق کے لیے نکلے۔ اس غزوہ میں ہمیں کچھ عرب کے قیدی ملے (جن میں عورتیں بھی تھیں) پھر اس سفر میں ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور بے عورت رہنا ہم پر مشکل ہو گیا۔ دوسری طرف ہم عزل کرنا چاہتے تھے (اس خوف سے کہ بچہ نہ پیدا ہو) ہمارا ارادہ یہی تھا کہ عزل کر لیں لیکن پھر ہم نے سوچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں۔ آپ سے پوچھے بغیر عزل کرنا مناسب نہ ہو گا۔ چنانچہ ہم نے آپ سے اس کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم عزل نہ کرو پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ قیامت تک جو جان پیدا ہونے والی ہے وہ ضرور پیدا ہو کر رہے گی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Ibn Muhairiz: I entered the Mosque and saw Abu Sa`id Al-Khudri and sat beside him and asked him about Al-Azl (i.e. coitus interruptus). Abu Sa`id said, "We went out with Allah's Apostle for the Ghazwa of Banu Al-Mustaliq and we received captives from among the Arab captives and we desired women and celibacy became hard on us and we loved to do coitus interruptus. So when we intended to do coitus interrupt us, we said, 'How can we do coitus interruptus before asking Allah's Apostle who is present among us?" We asked (him) about it and he said, 'It is better for you not to do so, for if any soul (till the Day of Resurrection) is predestined to exist, it will exist."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 459


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4139
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمود , حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن الزهري , عن ابي سلمة , عن جابر بن عبد الله , قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة نجد , فلما ادركته القائلة وهو في واد كثير العضاه فنزل تحت شجرة واستظل بها , وعلق سيفه فتفرق الناس في الشجر يستظلون , وبينا نحن كذلك إذ دعانا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فجئنا فإذا اعرابي قاعد بين يديه , فقال:" إن هذا اتاني وانا نائم فاخترط سيفي , فاستيقظت وهو قائم على راسي مخترط صلتا , قال: من يمنعك مني؟ قلت: الله , فشامه ثم قعد فهو هذا" , قال: ولم يعاقبه رسول الله صلى الله عليه وسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودٌ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ نَجْدٍ , فَلَمَّا أَدْرَكَتْهُ الْقَائِلَةُ وَهُوَ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ فَنَزَلَ تَحْتَ شَجَرَةٍ وَاسْتَظَلَّ بِهَا , وَعَلَّقَ سَيْفَهُ فَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الشَّجَرِ يَسْتَظِلُّونَ , وَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ دَعَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَجِئْنَا فَإِذَا أَعْرَابِيٌّ قَاعِدٌ بَيْنَ يَدَيْهِ , فَقَالَ:" إِنَّ هَذَا أَتَانِي وَأَنَا نَائِمٌ فَاخْتَرَطَ سَيْفِي , فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى رَأْسِي مُخْتَرِطٌ صَلْتًا , قَالَ: مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي؟ قُلْتُ: اللَّهُ , فَشَامَهُ ثُمَّ قَعَدَ فَهُوَ هَذَا" , قَالَ: وَلَمْ يُعَاقِبْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے محمود بن غیلان نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو معمر نے خبر دی ‘ انہیں زہری نے ‘ انہیں ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف غزوہ کے لیے گئے۔ دوپہر کا وقت ہوا تو آپ ایک جنگل میں پہنچے جہاں ببول کے درخت بہت تھے۔ آپ نے گھنے درخت کے نیچے سایہ کے لیے قیام کیا اور درخت سے اپنی تلوار ٹکا دی۔ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی درختوں کے نیچے سایہ حاصل کرنے کے لیے پھیل گئے۔ ابھی ہم اسی کیفیت میں تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پکارا۔ ہم حاضر ہوئے تو ایک بدوی آپ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ شخص میرے پاس آیا تو میں سو رہا تھا۔ اتنے میں اس نے میری تلوار کھینچ لی اور میں بھی بیدار ہو گیا۔ یہ میری ننگی تلوار کھینچے ہوئے میرے سر پر کھڑا تھا۔ مجھ سے کہنے لگا آج مجھ سے تمہیں کون بچائے گا؟ میں نے کہا کہ اللہ! (وہ شخص صرف ایک لفظ سے اتنا مرعوب ہوا کہ) تلوار کو نیام میں رکھ کر بیٹھ گیا اور دیکھ لو۔ یہ بیٹھا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی سزا نہیں دی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah: We took part in the Ghazwa of Najd along with Allah's Apostle and when the time for the afternoon rest approached while he was in a valley with plenty of thorny trees, he dismounted under a tree and rested in its shade and hung his sword (on it). The people dispersed amongst the trees in order to have shade. While we were in this state, Allah's Apostle called us and we came and found a bedouin sitting in front of him. The Prophet said, "This (Bedouin) came to me while I was asleep, and he took my sword stealthily. I woke up while he was standing by my head, holding my sword without its sheath. He said, 'Who will save you from me?' I replied, 'Allah.' So he sheathed it (i.e. the sword) and sat down, and here he is." But Allah's Apostle did not punish him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 460


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
34. بَابُ غَزْوَةُ أَنْمَارٍ:
34. باب: غزوہ انمار کا بیان۔
(34) Chapter. The Ghazwa of Anmar.
حدیث نمبر: 4140
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم , حدثنا ابن ابي ذئب , حدثنا عثمان بن عبد الله بن سراقة , عن جابر بن عبد الله الانصاري , قال:" رايت النبي صلى الله عليه وسلم في غزوة انمار يصلي على راحلته متوجها قبل المشرق متطوعا.(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ , حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُرَاقَةَ , عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ , قَالَ:" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ أَنْمَارٍ يُصَلِّي عَلَى رَاحِلَتِهِ مُتَوَجِّهًا قِبَلَ الْمَشْرِقِ مُتَطَوِّعًا.
ہم سے آدم ابن ایاس نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے بیان کیا ‘ ان سے عثمان بن عبداللہ بن سراقہ نے بیان کیا اور ان سے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ انمار میں دیکھا کہ نفل نماز آپ اپنی سواری پر مشرق کی طرف منہ کئے ہوئے پڑھ رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated Jabir bin `Abdullah Al-Ansari: I saw the Prophet offering his Nawafil prayer on his Mount facing the East during the Ghazwa of Anmar.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 461


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
35. بَابُ حَدِيثُ الإِفْكِ:
35. باب: واقعہ افک کا بیان۔
(35) Chapter. The narration of AI-Ifk.
حدیث نمبر: Q4141
Save to word اعراب English
والافك بمنزلة النجس , والنجس يقال: إفكهم وافكهم فمن قال: افكهم , يقول: صرفهم عن الإيمان وكذبهم , كما قال: يؤفك عنه من افك يصرف عنه من صرف.وَالْأَفَكِ بِمَنْزِلَةِ النِّجْسِ , وَالنَّجَسِ يُقَالُ: إِفْكُهُمْ وَأَفْكُهُمْ فَمَنْ قَالَ: أَفَكَهُمْ , يَقُولُ: صَرَفَهُمْ عَنِ الْإِيمَانِ وَكَذَّبَهُمْ , كَمَا قَالَ: يُؤْفَكُ عَنْهُ مَنْ أُفِكَ يُصْرَفُ عَنْهُ مَنْ صُرِفَ.
‏‏‏‏ لفظ «الإفك» «نجس» اور «النجس» کی طرح ہے۔ بولتے ہیں «إفكهم» (سورۃ الاحقاف میں) آیا ہے۔ «وذلك إفكهم» وہ بکسر ہمزہ ہے اور یہ بفتح ہمزہ و سکون فاء اور «إفكهم» یہ بفتحہ ہمزہ وفاء بھی ہے اور کاف کو بھی فتحہ پڑھا ہے تو ترجمہ یوں ہو گا اس نے ان کو ایمان سے پھیر دیا اور جھوٹا بنایا جیسے سورۃ والذاریات میں «يؤفك عنه من أفك» ہے یعنی قرآن سے وہی منحرف ہوتا ہے جو اللہ کے علم میں منحرف قرار پا چکا ہے۔
حدیث نمبر: 4141
Save to word مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد العزيز بن عبد الله , حدثنا إبراهيم بن سعد , عن صالح , عن ابن شهاب , قال: حدثني عروة بن الزبير , وسعيد بن المسيب , وعلقمة بن وقاص , وعبيد الله بن عبد الله بن عتبة بن مسعود , عن عائشة رضي الله عنها , زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين قال لها: اهل الإفك ما قالوا وكلهم حدثني طائفة من حديثها وبعضهم كان اوعى لحديثها من بعض , واثبت له اقتصاصا وقد وعيت عن كل رجل منهم الحديث الذي حدثني عن عائشة , وبعض حديثهم يصدق بعضا وإن كان بعضهم اوعى له من بعض , قالوا: قالت عائشة: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد سفرا اقرع بين ازواجه فايهن خرج سهمها خرج بها رسول الله صلى الله عليه وسلم معه , قالت عائشة: فاقرع بيننا في غزوة غزاها فخرج فيها سهمي , فخرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ما انزل الحجاب فكنت احمل في هودجي وانزل فيه , فسرنا حتى إذا فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من غزوته تلك وقفل دنونا من المدينة قافلين آذن ليلة بالرحيل , فقمت حين آذنوا بالرحيل فمشيت حتى جاوزت الجيش , فلما قضيت شاني اقبلت إلى رحلي فلمست صدري فإذا عقد لي من جزع ظفار قد انقطع , فرجعت فالتمست عقدي فحبسني ابتغاؤه , قالت: واقبل الرهط الذين كانوا يرحلوني فاحتملوا هودجي فرحلوه على بعيري الذي كنت اركب عليه وهم يحسبون اني فيه وكان النساء إذ ذاك خفافا لم يهبلن ولم يغشهن اللحم , إنما ياكلن العلقة من الطعام فلم يستنكر القوم خفة الهودج حين رفعوه وحملوه , وكنت جارية حديثة السن , فبعثوا الجمل فساروا ووجدت عقدي بعد ما استمر الجيش فجئت منازلهم وليس بها منهم داع ولا مجيب , فتيممت منزلي الذي كنت به وظننت انهم سيفقدوني فيرجعون إلي , فبينا انا جالسة في منزلي غلبتني عيني فنمت , وكان صفوان بن المعطل السلمي ثم الذكواني من وراء الجيش فاصبح عند منزلي فراى سواد إنسان نائم فعرفني حين رآني , وكان رآني قبل الحجاب فاستيقظت باسترجاعه حين عرفني فخمرت وجهي بجلبابي ووالله ما تكلمنا بكلمة ولا سمعت منه كلمة غير استرجاعه , وهوى حتى اناخ راحلته فوطئ على يدها فقمت إليها فركبتها فانطلق يقود بي الراحلة حتى اتينا الجيش موغرين في نحر الظهيرة وهم نزول , قالت: فهلك من هلك وكان الذي تولى كبر الإفك عبد الله بن ابي ابن سلول , قال عروة: اخبرت انه كان يشاع ويتحدث به عنده فيقره ويستمعه ويستوشيه , وقال عروة ايضا: لم يسم من اهل الإفك ايضا إلا حسان بن ثابت , ومسطح بن اثاثة , وحمنة بنت جحش في ناس آخرين لا علم لي بهم غير انهم عصبة كما قال الله تعالى , وإن كبر ذلك يقال له عبد الله بن ابي ابن سلول , قال عروة: كانت عائشة تكره ان يسب عندها حسان وتقول: إنه الذي قال: فإن ابي ووالده وعرضي لعرض محمد منكم وقاء قالت عائشة: فقدمنا المدينة فاشتكيت حين قدمت شهرا والناس يفيضون في قول اصحاب الإفك , لا اشعر بشيء من ذلك وهو يريبني في وجعي اني لا اعرف من رسول الله صلى الله عليه وسلم اللطف الذي كنت ارى منه حين اشتكي , إنما يدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيسلم , ثم يقول:" كيف تيكم" , ثم ينصرف فذلك يريبني ولا اشعر بالشر حتى خرجت حين نقهت , فخرجت مع ام مسطح قبل المناصع وكان متبرزنا وكنا لا نخرج إلا ليلا إلى ليل وذلك قبل ان نتخذ الكنف قريبا من بيوتنا , قالت: وامرنا امر العرب الاول في البرية قبل الغائط , وكنا نتاذى بالكنف ان نتخذها عند بيوتنا , قالت: فانطلقت انا وام مسطح وهي ابنة ابي رهم بن المطلب بن عبد مناف وامها بنت صخر بن عامر خالة ابي بكر الصديق وابنها مسطح بن اثاثة بن عباد بن المطلب , فاقبلت انا وام مسطح قبل بيتي حين فرغنا من شاننا , فعثرت ام مسطح في مرطها , فقالت: تعس مسطح , فقلت لها: بئس ما قلت , اتسبين رجلا شهد بدرا , فقالت: اي هنتاه ولم تسمعي ما قال؟ قالت: وقلت ما قال , فاخبرتني بقول اهل الإفك , قالت: فازددت مرضا على مرضي , فلما رجعت إلى بيتي دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم فسلم , ثم قال:" كيف تيكم" , فقلت له: اتاذن لي ان آتي ابوي , قالت: واريد ان استيقن الخبر من قبلهما , قالت: فاذن لي رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت لامي: يا امتاه ماذا يتحدث الناس؟ قالت: يا بنية هوني عليك فوالله لقلما كانت امراة قط وضيئة عند رجل يحبها لها ضرائر إلا كثرن عليها , قالت: فقلت سبحان الله اولقد تحدث الناس بهذا؟ قالت: فبكيت تلك الليلة حتى اصبحت لا يرقا لي دمع ولا اكتحل بنوم , ثم اصبحت ابكي , قالت: ودعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب , واسامة بن زيد حين استلبث الوحي يسالهما ويستشيرهما في فراق اهله , قالت: فاما اسامة فاشار على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالذي يعلم من براءة اهله وبالذي يعلم لهم في نفسه , فقال اسامة: اهلك ولا نعلم إلا خيرا , واما علي فقال: يا رسول الله لم يضيق الله عليك والنساء سواها كثير وسل الجارية تصدقك , قالت: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بريرة فقال:" اي بريرة هل رايت من شيء يريبك؟" قالت له بريرة: والذي بعثك بالحق ما رايت عليها امرا قط اغمصه , غير انها جارية حديثة السن تنام عن عجين اهلها , فتاتي الداجن فتاكله , قالت: فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم من يومه فاستعذر من عبد الله بن ابي وهو على المنبر , فقال:" يا معشر المسلمين من يعذرني من رجل قد بلغني عنه اذاه في اهلي , والله ما علمت على اهلي إلا خيرا ولقد ذكروا رجلا ما علمت عليه إلا خيرا , وما يدخل على اهلي إلا معي" , قالت فقام سعد بن معاذ اخو بني عبد الاشهل , فقال: انا يا رسول الله , اعذرك فإن كان من الاوس ضربت عنقه , وإن كان من إخواننا من الخزرج امرتنا ففعلنا امرك , قالت: فقام رجل من الخزرج وكانت ام حسان بنت عمه من فخذه وهو سعد بن عبادة وهو سيد الخزرج , قالت: وكان قبل ذلك رجلا صالحا ولكن احتملته الحمية , فقال لسعد: كذبت لعمر الله لا تقتله ولا تقدر على قتله , ولو كان من رهطك ما احببت ان يقتل فقام اسيد بن حضير وهو ابن عم سعد , فقال لسعد بن عبادة: كذبت لعمر الله لنقتلنه فإنك منافق تجادل عن المنافقين , قالت: فثار الحيان الاوس , والخزرج حتى هموا ان يقتتلوا ورسول الله صلى الله عليه وسلم قائم على المنبر , قالت: فلم يزل رسول الله صلى الله عليه وسلم يخفضهم حتى سكتوا وسكت , قالت: فبكيت يومي ذلك كله لا يرقا لي دمع ولا اكتحل بنوم , قالت: واصبح ابواي عندي , وقد بكيت ليلتين ويوما لا يرقا لي دمع ولا اكتحل بنوم حتى إني لاظن ان البكاء فالق كبدي , فبينا ابواي جالسان عندي وانا ابكي , فاستاذنت علي امراة من الانصار فاذنت لها فجلست تبكي معي , قالت: فبينا نحن على ذلك دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم علينا فسلم ثم جلس , قالت: ولم يجلس عندي منذ قيل ما قيل قبلها وقد لبث شهرا لا يوحى إليه في شاني بشيء , قالت: فتشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم حين جلس , ثم قال: اما بعد يا عائشة إنه بلغني عنك كذا وكذا فإن كنت بريئة فسيبرئك الله , وإن كنت الممت بذنب فاستغفري الله وتوبي إليه , فإن العبد إذا اعترف ثم تاب تاب الله عليه" , قالت: فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم مقالته قلص دمعي حتى ما احس منه قطرة , فقلت لابي: اجب رسول الله صلى الله عليه وسلم عني فيما قال , فقال ابي: والله ما ادري ما اقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت لامي: اجيبي رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما قال , قالت امي: والله ما ادري ما اقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلت وانا جارية حديثة السن لا اقرا من القرآن كثيرا: إني والله لقد علمت لقد سمعتم هذا الحديث حتى استقر في انفسكم وصدقتم به , فلئن قلت لكم إني بريئة لا تصدقوني , ولئن اعترفت لكم بامر والله يعلم اني منه بريئة , لتصدقني فوالله لا اجد لي ولكم مثلا إلا ابا يوسف حين قال: فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون , ثم تحولت واضطجعت على فراشي والله يعلم اني حينئذ بريئة , وان الله مبرئي ببراءتي , ولكن والله ما كنت اظن ان الله منزل في شاني وحيا يتلى لشاني في نفسي كان احقر من ان يتكلم الله في بامر , ولكن كنت ارجو ان يرى رسول الله صلى الله عليه وسلم في النوم رؤيا يبرئني الله بها , فوالله ما رام رسول الله صلى الله عليه وسلم مجلسه ولا خرج احد من اهل البيت حتى انزل عليه , فاخذه ما كان ياخذه من البرحاء حتى إنه ليتحدر منه من العرق مثل الجمان , وهو في يوم شات من ثقل القول الذي انزل عليه , قالت: فسري عن رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يضحك فكانت اول كلمة تكلم بها ان قال:" يا عائشة اما الله فقد براك" , قالت: فقالت لي امي قومي إليه , فقلت والله لا اقوم إليه فإني لا احمد إلا الله عز وجل , قالت: وانزل الله تعالى إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم سورة النور آية 11 العشر الآيات , ثم انزل الله هذا في براءتي , قال ابو بكر الصديق: وكان ينفق على مسطح بن اثاثة لقرابته منه وفقره , والله لا انفق على مسطح شيئا ابدا بعد الذي قال لعائشة ما قال , فانزل الله: ولا ياتل اولو الفضل منكم إلى قوله غفور رحيم سورة النور آية 22 قال ابو بكر الصديق: بلى والله إني لاحب ان يغفر الله لي فرجع إلى مسطح النفقة التي كان ينفق عليه , وقال: والله لا انزعها منه ابدا , قالت عائشة: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم سال زينب بنت جحش عن امري , فقال لزينب:" ماذا علمت او رايت؟" فقالت: يا رسول الله احمي سمعي وبصري والله ما علمت إلا خيرا , قالت عائشة: وهي التي كانت تساميني من ازواج النبي صلى الله عليه وسلم فعصمها الله بالورع , قالت: وطفقت اختها حمنة تحارب لها فهلكت فيمن هلك , قال ابن شهاب: فهذا الذي بلغني من حديث هؤلاء الرهط , ثم قال عروة: قالت عائشة: والله إن الرجل الذي قيل له ما قيل ليقول سبحان الله , فوالذي نفسي بيده ما كشفت من كنف انثى قط , قالت: ثم قتل بعد ذلك في سبيل الله.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ صَالِحٍ , عَنْ ابْنِ شِهَابٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ , وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ , وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ , وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ , عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا , زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَالَ لَهَا: أَهْلُ الْإِفْكِ مَا قَالُوا وَكُلُّهُمْ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنْ حَدِيثِهَا وَبَعْضُهُمْ كَانَ أَوْعَى لِحَدِيثِهَا مِنْ بَعْضٍ , وَأَثْبَتَ لَهُ اقْتِصَاصًا وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمُ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْ عَائِشَةَ , وَبَعْضُ حَدِيثِهِمْ يُصَدِّقُ بَعْضًا وَإِنْ كَانَ بَعْضُهُمْ أَوْعَى لَهُ مِنْ بَعْضٍ , قَالُوا: قَالَتْ عَائِشَةُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ سَفَرًا أَقْرَعَ بَيْنَ أَزْوَاجِهِ فَأَيُّهُنَّ خَرَجَ سَهْمُهَا خَرَجَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهُ , قَالَتْ عَائِشَةُ: فَأَقْرَعَ بَيْنَنَا فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا فَخَرَجَ فِيهَا سَهْمِي , فَخَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا أُنْزِلَ الْحِجَابُ فَكُنْتُ أُحْمَلُ فِي هَوْدَجِي وَأُنْزَلُ فِيهِ , فَسِرْنَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَتِهِ تِلْكَ وَقَفَلَ دَنَوْنَا مِنْ الْمَدِينَةِ قَافِلِينَ آذَنَ لَيْلَةً بِالرَّحِيلِ , فَقُمْتُ حِينَ آذَنُوا بِالرَّحِيلِ فَمَشَيْتُ حَتَّى جَاوَزْتُ الْجَيْشَ , فَلَمَّا قَضَيْتُ شَأْنِي أَقْبَلْتُ إِلَى رَحْلِي فَلَمَسْتُ صَدْرِي فَإِذَا عِقْدٌ لِي مِنْ جَزْعِ ظَفَارِ قَدِ انْقَطَعَ , فَرَجَعْتُ فَالْتَمَسْتُ عِقْدِي فَحَبَسَنِي ابْتِغَاؤُهُ , قَالَتْ: وَأَقْبَلَ الرَّهْطُ الَّذِينَ كَانُوا يُرَحِّلُونِي فَاحْتَمَلُوا هَوْدَجِي فَرَحَلُوهُ عَلَى بَعِيرِي الَّذِي كُنْتُ أَرْكَبُ عَلَيْهِ وَهُمْ يَحْسِبُونَ أَنِّي فِيهِ وَكَانَ النِّسَاءُ إِذْ ذَاكَ خِفَافًا لَمْ يَهْبُلْنَ وَلَمْ يَغْشَهُنَّ اللَّحْمُ , إِنَّمَا يَأْكُلْنَ الْعُلْقَةَ مِنَ الطَّعَامِ فَلَمْ يَسْتَنْكِرِ الْقَوْمُ خِفَّةَ الْهَوْدَجِ حِينَ رَفَعُوهُ وَحَمَلُوهُ , وَكُنْتُ جَارِيَةً حَدِيثَةَ السِّنِّ , فَبَعَثُوا الْجَمَلَ فَسَارُوا وَوَجَدْتُ عِقْدِي بَعْدَ مَا اسْتَمَرَّ الْجَيْشُ فَجِئْتُ مَنَازِلَهُمْ وَلَيْسَ بِهَا مِنْهُمْ دَاعٍ وَلَا مُجِيبٌ , فَتَيَمَّمْتُ مَنْزِلِي الَّذِي كُنْتُ بِهِ وَظَنَنْتُ أَنَّهُمْ سَيَفْقِدُونِي فَيَرْجِعُونَ إِلَيَّ , فَبَيْنَا أَنَا جَالِسَةٌ فِي مَنْزِلِي غَلَبَتْنِي عَيْنِي فَنِمْتُ , وَكَانَ صَفْوَانُ بْنُ الْمُعَطَّلِ السُّلَمِيُّ ثُمَّ الذَّكْوَانِيُّ مِنْ وَرَاءِ الْجَيْشِ فَأَصْبَحَ عِنْدَ مَنْزِلِي فَرَأَى سَوَادَ إِنْسَانٍ نَائِمٍ فَعَرَفَنِي حِينَ رَآنِي , وَكَانَ رَآنِي قَبْلَ الْحِجَابِ فَاسْتَيْقَظْتُ بِاسْتِرْجَاعِهِ حِينَ عَرَفَنِي فَخَمَّرْتُ وَجْهِي بِجِلْبَابِي وَوَاللَّهِ مَا تَكَلَّمْنَا بِكَلِمَةٍ وَلَا سَمِعْتُ مِنْهُ كَلِمَةً غَيْرَ اسْتِرْجَاعِهِ , وَهَوَى حَتَّى أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ فَوَطِئَ عَلَى يَدِهَا فَقُمْتُ إِلَيْهَا فَرَكِبْتُهَا فَانْطَلَقَ يَقُودُ بِي الرَّاحِلَةَ حَتَّى أَتَيْنَا الْجَيْشَ مُوغِرِينَ فِي نَحْرِ الظَّهِيرَةِ وَهُمْ نُزُولٌ , قَالَتْ: فَهَلَكَ مَنْ هَلَكَ وَكَانَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَ الْإِفْكِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ , قَالَ عُرْوَةُ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ كَانَ يُشَاعُ وَيُتَحَدَّثُ بِهِ عِنْدَهُ فَيُقِرُّهُ وَيَسْتَمِعُهُ وَيَسْتَوْشِيهِ , وَقَالَ عُرْوَةُ أَيْضًا: لَمْ يُسَمَّ مِنْ أَهْلِ الْإِفْكِ أَيْضًا إِلَّا حَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ , وَمِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ , وَحَمْنَةُ بِنْتُ جَحْشٍ فِي نَاسٍ آخَرِينَ لَا عِلْمَ لِي بِهِمْ غَيْرَ أَنَّهُمْ عُصْبَةٌ كَمَا قَالَ اللَّهُ تَعَالَى , وَإِنَّ كِبْرَ ذَلِكَ يُقَالُ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ ابْنُ سَلُولَ , قَالَ عُرْوَةُ: كَانَتْ عَائِشَةُ تَكْرَهُ أَنْ يُسَبَّ عِنْدَهَا حَسَّانُ وَتَقُولُ: إِنَّهُ الَّذِي قَالَ: فَإِنَّ أَبِي وَوَالِدَهُ وَعِرْضِي لِعِرْضِ مُحَمَّدٍ مِنْكُمْ وِقَاءُ قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَاشْتَكَيْتُ حِينَ قَدِمْتُ شَهْرًا وَالنَّاسُ يُفِيضُونَ فِي قَوْلِ أَصْحَابِ الْإِفْكِ , لَا أَشْعُرُ بِشَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ وَهُوَ يَرِيبُنِي فِي وَجَعِي أَنِّي لَا أَعْرِفُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللُّطْفَ الَّذِي كُنْتُ أَرَى مِنْهُ حِينَ أَشْتَكِي , إِنَّمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيُسَلِّمُ , ثُمَّ يَقُولُ:" كَيْفَ تِيكُمْ" , ثُمَّ يَنْصَرِفُ فَذَلِكَ يَرِيبُنِي وَلَا أَشْعُرُ بِالشَّرِّ حَتَّى خَرَجْتُ حِينَ نَقَهْتُ , فَخَرَجْتُ مَعَ أُمِّ مِسْطَحٍ قِبَلَ الْمَنَاصِعِ وَكَانَ مُتَبَرَّزَنَا وَكُنَّا لَا نَخْرُجُ إِلَّا لَيْلًا إِلَى لَيْلٍ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ نَتَّخِذَ الْكُنُفَ قَرِيبًا مِنْ بُيُوتِنَا , قَالَتْ: وَأَمْرُنَا أَمْرُ الْعَرَبِ الْأُوَلِ فِي الْبَرِّيَّةِ قِبَلَ الْغَائِطِ , وَكُنَّا نَتَأَذَّى بِالْكُنُفِ أَنْ نَتَّخِذَهَا عِنْدَ بُيُوتِنَا , قَالَتْ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ وَهِيَ ابْنَةُ أَبِي رُهْمِ بْنِ الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ مَنَافٍ وَأُمُّهَا بِنْتُ صَخْرِ بْنِ عَامِرٍ خَالَةُ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَابْنُهَا مِسْطَحُ بْنُ أُثَاثَةَ بْنِ عَبَّادِ بْنِ الْمُطَّلِبِ , فَأَقْبَلْتُ أَنَا وَأُمُّ مِسْطَحٍ قِبَلَ بَيْتِي حِينَ فَرَغْنَا مِنْ شَأْنِنَا , فَعَثَرَتْ أُمُّ مِسْطَحٍ فِي مِرْطِهَا , فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ , فَقُلْتُ لَهَا: بِئْسَ مَا قُلْتِ , أَتَسُبِّينَ رَجُلًا شَهِدَ بَدْرًا , فَقَالَتْ: أَيْ هَنْتَاهْ وَلَمْ تَسْمَعِي مَا قَالَ؟ قَالَتْ: وَقُلْتُ مَا قَالَ , فَأَخْبَرَتْنِي بِقَوْلِ أَهْلِ الْإِفْكِ , قَالَتْ: فَازْدَدْتُ مَرَضًا عَلَى مَرَضِي , فَلَمَّا رَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلَّمَ , ثُمَّ قَالَ:" كَيْفَ تِيكُمْ" , فَقُلْتُ لَهُ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ آتِيَ أَبَوَيَّ , قَالَتْ: وَأُرِيدُ أَنْ أَسْتَيْقِنَ الْخَبَرَ مِنْ قِبَلِهِمَا , قَالَتْ: فَأَذِنَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ لِأُمِّي: يَا أُمَّتَاهُ مَاذَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ؟ قَالَتْ: يَا بُنَيَّةُ هَوِّنِي عَلَيْكِ فَوَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتِ امْرَأَةٌ قَطُّ وَضِيئَةً عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا لَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا كَثَّرْنَ عَلَيْهَا , قَالَتْ: فَقُلْتُ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوَلَقَدْ تَحَدَّثَ النَّاسُ بِهَذَا؟ قَالَتْ: فَبَكَيْتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ حَتَّى أَصْبَحْتُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ , ثُمَّ أَصْبَحْتُ أَبْكِي , قَالَتْ: وَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ , وَأُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ حِينَ اسْتَلْبَثَ الْوَحْيُ يَسْأَلُهُمَا وَيَسْتَشِيرُهُمَا فِي فِرَاقِ أَهْلِهِ , قَالَتْ: فَأَمَّا أُسَامَةُ فَأَشَارَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالَّذِي يَعْلَمُ مِنْ بَرَاءَةِ أَهْلِهِ وَبِالَّذِي يَعْلَمُ لَهُمْ فِي نَفْسِهِ , فَقَالَ أُسَامَةُ: أَهْلَكَ وَلَا نَعْلَمُ إِلَّا خَيْرًا , وَأَمَّا عَلِيٌّ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يُضَيِّقْ اللَّهُ عَلَيْكَ وَالنِّسَاءُ سِوَاهَا كَثِيرٌ وَسَلِ الْجَارِيَةَ تَصْدُقْكَ , قَالَتْ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَرِيرَةَ فَقَالَ:" أَيْ بَرِيرَةُ هَلْ رَأَيْتِ مِنْ شَيْءٍ يَرِيبُكِ؟" قَالَتْ لَهُ بَرِيرَةُ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا رَأَيْتُ عَلَيْهَا أَمْرًا قَطُّ أَغْمِصُهُ , غَيْرَ أَنَّهَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ تَنَامُ عَنْ عَجِينِ أَهْلِهَا , فَتَأْتِي الدَّاجِنُ فَتَأْكُلُهُ , قَالَتْ: فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ يَوْمِهِ فَاسْتَعْذَرَ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُبَيٍّ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ مَنْ يَعْذِرُنِي مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِي عَنْهُ أَذَاهُ فِي أَهْلِي , وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا خَيْرًا وَلَقَدْ ذَكَرُوا رَجُلًا مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا , وَمَا يَدْخُلُ عَلَى أَهْلِي إِلَّا مَعِي" , قَالَتْ فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ أَخُو بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ , فَقَالَ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَعْذِرُكَ فَإِنْ كَانَ مِنْ الْأَوْسِ ضَرَبْتُ عُنُقَهُ , وَإِنْ كَانَ مِنْ إِخْوَانِنَا مِنْ الْخَزْرَجِ أَمَرْتَنَا فَفَعَلْنَا أَمْرَكَ , قَالَتْ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ الْخَزْرَجِ وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بِنْتَ عَمِّهِ مِنْ فَخِذِهِ وَهُوَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ وَهُوَ سَيِّدُ الْخَزْرَجِ , قَالَتْ: وَكَانَ قَبْلَ ذَلِكَ رَجُلًا صَالِحًا وَلَكِنْ احْتَمَلَتْهُ الْحَمِيَّةُ , فَقَالَ لِسَعْدٍ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَا تَقْتُلُهُ وَلَا تَقْدِرُ عَلَى قَتْلِهِ , وَلَوْ كَانَ مِنْ رَهْطِكَ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ يُقْتَلَ فَقَامَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَمِّ سَعْدٍ , فَقَالَ لِسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ: كَذَبْتَ لَعَمْرُ اللَّهِ لَنَقْتُلَنَّهُ فَإِنَّكَ مُنَافِقٌ تُجَادِلُ عَنِ الْمُنَافِقِينَ , قَالَتْ: فَثَارَ الْحَيَّانِ الْأَوْسُ , وَالْخَزْرَجُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَقْتَتِلُوا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ , قَالَتْ: فَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ حَتَّى سَكَتُوا وَسَكَتَ , قَالَتْ: فَبَكَيْتُ يَوْمِي ذَلِكَ كُلَّهُ لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ , قَالَتْ: وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي , وَقَدْ بَكَيْتُ لَيْلَتَيْنِ وَيَوْمًا لَا يَرْقَأُ لِي دَمْعٌ وَلَا أَكْتَحِلُ بِنَوْمٍ حَتَّى إِنِّي لَأَظُنُّ أَنَّ الْبُكَاءَ فَالِقٌ كَبِدِي , فَبَيْنَا أَبَوَايَ جَالِسَانِ عِنْدِي وَأَنَا أَبْكِي , فَاسْتَأْذَنَتْ عَلَيَّ امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَأَذِنْتُ لَهَا فَجَلَسَتْ تَبْكِي مَعِي , قَالَتْ: فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ , قَالَتْ: وَلَمْ يَجْلِسْ عِنْدِي مُنْذُ قِيلَ مَا قِيلَ قَبْلَهَا وَقَدْ لَبِثَ شَهْرًا لَا يُوحَى إِلَيْهِ فِي شَأْنِي بِشَيْءٍ , قَالَتْ: فَتَشَهَّدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ جَلَسَ , ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ يَا عَائِشَةُ إِنَّهُ بَلَغَنِي عَنْكِ كَذَا وَكَذَا فَإِنْ كُنْتِ بَرِيئَةً فَسَيُبَرِّئُكِ اللَّهُ , وَإِنْ كُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللَّهَ وَتُوبِي إِلَيْهِ , فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللَّهُ عَلَيْهِ" , قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ قَلَصَ دَمْعِي حَتَّى مَا أُحِسُّ مِنْهُ قَطْرَةً , فَقُلْتُ لِأَبِي: أَجِبْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي فِيمَا قَالَ , فَقَالَ أَبِي: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ لِأُمِّي: أَجِيبِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا قَالَ , قَالَتْ أُمِّي: وَاللَّهِ مَا أَدْرِي مَا أَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ لَا أَقْرَأُ مِنَ الْقُرْآنِ كَثِيرًا: إِنِّي وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَقَدْ سَمِعْتُمْ هَذَا الْحَدِيثَ حَتَّى اسْتَقَرَّ فِي أَنْفُسِكُمْ وَصَدَّقْتُمْ بِهِ , فَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي بَرِيئَةٌ لَا تُصَدِّقُونِي , وَلَئِنْ اعْتَرَفْتُ لَكُمْ بِأَمْرٍ وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي مِنْهُ بَرِيئَةٌ , لَتُصَدِّقُنِّي فَوَاللَّهِ لَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ حِينَ قَالَ: فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ , ثُمَّ تَحَوَّلْتُ وَاضْطَجَعْتُ عَلَى فِرَاشِي وَاللَّهُ يَعْلَمُ أَنِّي حِينَئِذٍ بَرِيئَةٌ , وَأَنَّ اللَّهَ مُبَرِّئِي بِبَرَاءَتِي , وَلَكِنْ وَاللَّهِ مَا كُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ اللَّهَ مُنْزِلٌ فِي شَأْنِي وَحْيًا يُتْلَى لَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ , وَلَكِنْ كُنْتُ أَرْجُو أَنْ يَرَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي النَّوْمِ رُؤْيَا يُبَرِّئُنِي اللَّهُ بِهَا , فَوَاللَّهِ مَا رَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَجْلِسَهُ وَلَا خَرَجَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الْبَيْتِ حَتَّى أُنْزِلَ عَلَيْهِ , فَأَخَذَهُ مَا كَانَ يَأْخُذُهُ مِنَ الْبُرَحَاءِ حَتَّى إِنَّهُ لَيَتَحَدَّرُ مِنْهُ مِنَ الْعَرَقِ مِثْلُ الْجُمَانِ , وَهُوَ فِي يَوْمٍ شَاتٍ مِنْ ثِقَلِ الْقَوْلِ الَّذِي أُنْزِلَ عَلَيْهِ , قَالَتْ: فَسُرِّيَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَضْحَكُ فَكَانَتْ أَوَّلَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا أَنْ قَالَ:" يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَكِ" , قَالَتْ: فَقَالَتْ لِي أُمِّي قُومِي إِلَيْهِ , فَقُلْتُ وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ فَإِنِّي لَا أَحْمَدُ إِلَّا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ , قَالَتْ: وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ سورة النور آية 11 الْعَشْرَ الْآيَاتِ , ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ هَذَا فِي بَرَاءَتِي , قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: وَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحِ بْنِ أُثَاثَةَ لِقَرَابَتِهِ مِنْهُ وَفَقْرِهِ , وَاللَّهِ لَا أُنْفِقُ عَلَى مِسْطَحٍ شَيْئًا أَبَدًا بَعْدَ الَّذِي قَالَ لِعَائِشَةَ مَا قَالَ , فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22 قَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: بَلَى وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِبُّ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لِي فَرَجَعَ إِلَى مِسْطَحٍ النَّفَقَةَ الَّتِي كَانَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ , وَقَالَ: وَاللَّهِ لَا أَنْزِعُهَا مِنْهُ أَبَدًا , قَالَتْ عَائِشَةُ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَأَلَ زَيْنَبَ بِنْتَ جَحْشٍ عَنْ أَمْرِي , فَقَالَ لِزَيْنَبَ:" مَاذَا عَلِمْتِ أَوْ رَأَيْتِ؟" فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَحْمِي سَمْعِي وَبَصَرِي وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ إِلَّا خَيْرًا , قَالَتْ عَائِشَةُ: وَهِيَ الَّتِي كَانَتْ تُسَامِينِي مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَصَمَهَا اللَّهُ بِالْوَرَعِ , قَالَتْ: وَطَفِقَتْ أُخْتُهَا حَمْنَةُ تُحَارِبُ لَهَا فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ , قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَهَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِ هَؤُلَاءِ الرَّهْطِ , ثُمَّ قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ مَا قِيلَ لَيَقُولُ سُبْحَانَ اللَّهِ , فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا كَشَفْتُ مِنْ كَنَفِ أُنْثَى قَطُّ , قَالَتْ: ثُمَّ قُتِلَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ‘ ان سے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ مجھ سے عروہ بن زبیر ‘ سعید بن مسیب ‘ علقمہ بن وقاص اور عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب اہل افک (یعنی تہمت لگانے والوں) نے ان کے متعلق وہ سب کچھ کہا جو انہیں کہنا تھا (ابن شہاب نے بیان کیا کہ) تمام حضرات نے (جن چار حضرات کے نام انہوں نے روایت کے سلسلے میں لیے ہیں) مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث کا ایک ایک ٹکڑا بیان کیا۔ یہ بھی تھا کہ ان میں سے بعض کو یہ قصہ زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھا اور عمدگی سے یہ قصہ بیان کرتا تھا اور میں نے ان میں سے ہر ایک کی روایت یاد رکھی جو اس نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے یاد رکھی تھی۔ اگرچہ بعض لوگوں کو دوسرے لوگوں کے مقابلے میں روایت زیادہ بہتر طریقہ پر یاد تھی۔ پھر بھی ان میں باہم ایک کی روایت دوسرے کی روایت کی تصدیق کرتی ہے۔ ان لوگوں نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کا ارادہ کرتے تو ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے درمیان قرعہ ڈالا کرتے تھے اور جس کا نام آتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک غزوہ کے موقع پر جب آپ نے قرعہ ڈالا تو میرا نام نکلا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روانہ ہوئی۔ یہ واقعہ پردہ کے حکم کے نازل ہونے کے بعد کا ہے۔ چنانچہ مجھے ہودج سمیت اٹھا کر سوار کر دیا جاتا اور اسی کے ساتھ اتارا جاتا۔ اس طرح ہم روانہ ہوئے۔ پھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس غزوہ سے فارغ ہو گئے تو واپس ہوئے۔ واپسی میں اب ہم مدینہ کے قریب تھے (اور ایک مقام پر پڑاؤ تھا) جہاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا رات کے وقت اعلان کیا۔ کوچ کا اعلان ہو چکا تھا تو میں کھڑی ہوئی اور تھوڑی دور چل کر لشکر کے حدود سے آگے نکل گئی۔ پھر قضائے حاجت سے فارغ ہو کر میں اپنی سواری کے پاس پہنچی۔ وہاں پہنچ کر جو میں نے اپنا سینہ ٹٹولا تو ظفار (یمن کا ایک شہر) کے مہرہ کا بنا ہوا میرا ہار غائب تھا۔ اب میں پھر واپس ہوئی اور اپنا ہار تلاش کرنے لگی۔ اس تلاش میں دیر ہو گئی۔ انہوں نے بیان کیا کہ جو لوگ مجھے سوار کیا کرتے تھے وہ آئے اور میرے ہودج کو اٹھا کر انہوں نے میرے اونٹ پر رکھ دیا۔ جس پر میں سوار ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے سمجھا کہ میں ہودج کے اندر ہی موجود ہوں۔ ان دنوں عورتیں بہت ہلکی پھلکی ہوتی تھیں۔ ان کے جسم میں زیادہ گوشت نہیں ہوتا تھا کیونکہ بہت معمولی خوراک انہیں ملتی تھی۔ اس لیے اٹھانے والوں نے جب اٹھایا تو ہودج کے ہلکے پن میں انہیں کوئی فرق معلوم نہیں ہوا۔ یوں بھی اس وقت میں ایک کم عمر لڑکی تھی۔ غرض اونٹ کو اٹھا کر وہ بھی روانہ ہو گئے۔ جب لشکر گزر گیا تو مجھے بھی اپنا ہار مل گیا۔ میں ڈیرے پر آئی تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ نہ پکارنے والا نہ جواب دینے والا۔ اس لیے میں وہاں آئی جہاں میرا اصل ڈیرہ تھا۔ مجھے یقین تھا کہ جلد ہی میرے نہ ہونے کا انہیں علم ہو جائے گا اور مجھے لینے کے لیے وہ واپس لوٹ آئیں گے۔ اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے میری آنکھ لگ گئی اور میں سو گئی۔ صفوان بن معطل سلمی الذکوانی رضی اللہ عنہ لشکر کے پیچھے پیچھے آ رہے تھے۔ (تاکہ لشکر کی کوئی چیز گم ہو گئی ہو تو وہ اٹھا لیں) انہوں نے ایک سوئے انسان کا سایہ دیکھا اور جب (قریب آ کر) مجھے دیکھا تو پہچان گئے پردہ سے پہلے وہ مجھے دیکھ چکے تھے۔ مجھے جب وہ پہچان گئے تو اناللہ پڑھنا شروع کیا اور ان کی آواز سے میں جاگ اٹھی اور فوراً اپنی چادر سے میں نے اپنا چہرہ چھپا لیا۔ اللہ کی قسم! میں نے ان سے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ سوا اناللہ کے میں نے ان کی زبان سے کوئی لفظ سنا۔ وہ سواری سے اتر گئے اور اسے انہوں نے بٹھا کر اس کی اگلی ٹانگ کو موڑ دیا (تاکہ بغیر کسی مدد کے ام المؤمنین اس پر سوار ہو سکیں) میں اٹھی اور اس پر سوار ہو گئی۔ اب وہ سواری کو آگے سے پکڑے ہوئے لے کر چلے۔ جب ہم لشکر کے قریب پہنچے تو ٹھیک دوپہر کا وقت تھا۔ لشکر پڑاؤ کئے ہوئے تھا۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر جسے ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔ اصل میں تہمت کا بیڑا عبداللہ بن ابی ابن سلول (منافق) نے اٹھا رکھا تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ وہ اس تہمت کا چرچا کرتا اور اس کی مجلسوں میں اس کا تذکرہ ہوا کرتا۔ وہ اس کی تصدیق کرتا ‘ خوب غور اور توجہ سے سنتا اور پھیلانے کے لیے خوب کھود کرید کرتا۔ عروہ نے پہلی سند کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ حسان بن ثابت ‘ مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش کے سوا تہمت لگانے میں شریک کسی کا بھی نام نہیں لیا کہ مجھے ان کا علم ہوتا۔ اگرچہ اس میں شریک ہونے والے بہت سے تھے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (کہ جن لوگوں نے تہمت لگائی ہے وہ بہت سے ہیں) لیکن اس معاملہ میں سب سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا عبداللہ بن ابی ابن سلول تھا۔ عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ اس پر بڑی خفگی کا اظہار کرتی تھیں۔ اگر ان کے سامنے حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا جاتا ‘ آپ فرماتیں کہ یہ شعر حسان ہی نے کہا ہے کہ میرے والد اور میرے والد کے والد اور میری عزت ‘ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کی حفاظت کے لیے تمہارے سامنے ڈھال بنی رہیں گی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر ہم مدینہ پہنچ گئے اور وہاں پہنچتے ہی میں بیمار ہو گئی تو ایک مہینے تک بیمار ہی رہی۔ اس عرصہ میں لوگوں میں تہمت لگانے والوں کی افواہوں کا بڑا چرچا رہا لیکن میں ایک بات بھی نہیں سمجھ رہی تھی البتہ اپنے مرض کے دوران ایک چیز سے مجھے بڑا شبہ ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ محبت و عنایت میں نہیں محسوس کرتی تھی جس کو پہلے جب بھی بیمار ہوتی میں دیکھ چکی تھی۔ آپ میرے پاس تشریف لاتے ‘ سلام کرتے اور دریافت فرماتے کیسی طبیعت ہے؟ صرف اتنا پوچھ کر واپس تشریف لے جاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے مجھے شبہ ہوتا تھا۔ لیکن شر (جو پھیل چکا تھا) اس کا مجھے کوئی احساس نہیں تھا۔ مرض سے جب افاقہ ہوا تو میں ام مسطح کے ساتھ مناصع کی طرف گئی۔ مناصع (مدینہ کی آبادی سے باہر) ہمارے رفع حاجت کی جگہ تھی۔ ہم یہاں صرف رات کے وقت جاتے تھے۔ یہ اس سے پہلے کی بات ہے۔ جب بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بن گئے تھے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ ابھی ہم عرب قدیم کے طریقے پر عمل کرتے اور میدان میں رفع حاجت کے لیے جایا کرتے تھے اور ہمیں اس سے تکلیف ہوتی تھی کہ بیت الخلاء ہمارے گھروں کے قریب بنائے جائیں۔ انہوں نے بیان کیا کہ الغرض میں اور ام مسطح (رفع حاجت کے لیے) گئے۔ ام مسطح ابی رہم بن عبدالمطلب بن عبد مناف کی بیٹی ہیں۔ ان کی والدہ صخر بن عامر کی بیٹی ہیں اور وہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ تھیں۔ انہی کے بیٹے مسطح بن اثاثہ بن عباد بن مطلب رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر میں اور ام مسطح حاجت سے فارغ ہو کر اپنے گھر کی طرف واپس آ رہے تھے کہ ام مسطح اپنی چادر میں الجھ گئیں اور ان کی زبان سے نکلا کہ مسطح ذلیل ہو۔ میں نے کہا ‘ آپ نے بری بات زبان سے نکالی ‘ ایک ایسے شخص کو آپ برا کہہ رہی ہیں جو بدر کی لڑائی میں شریک ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس پر کہا کیوں مسطح کی باتیں تم نے نہیں سنیں؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ بیان کیا ‘ پھر انہوں نے تہمت لگانے والوں کی باتیں سنائیں۔ بیان کیا کہ ان باتوں کو سن کر میرا مرض اور بڑھ گیا۔ جب میں اپنے گھر واپس آئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور سلام کے بعد دریافت فرمایا کہ کیسی طبیعت ہے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا آپ مجھے اپنے والدین کے گھر جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں گے؟ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ ان سے اس خبر کی تصدیق کروں گی۔ انہوں نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اپنی والدہ سے (گھر جا کر) پوچھا کہ آخر لوگوں میں کس طرح کی افواہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ بیٹی! فکر نہ کر ‘ اللہ کی قسم! ایسا شاید ہی کہیں ہوا ہو کہ ایک خوبصورت عورت کسی ایسے شوہر کے ساتھ ہو جو اس سے محبت بھی رکھتا ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں اور پھر اس پر تہمتیں نہ لگائی گئی ہوں۔ اس کی عیب جوئی نہ کی گئی ہو۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ میں نے اس پر کہا کہ سبحان اللہ (میری سوکنوں سے اس کا کیا تعلق) اس کا تو عام لوگوں میں چرچا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ ادھر پھر جو میں نے رونا شروع کیا تو رات بھر روتی رہی اسی طرح صبح ہو گئی اور میرے آنسو کسی طرح نہ تھمتے تھے اور نہ نیند ہی آتی تھی۔ بیان کیا کہ ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو اپنی بیوی کو علیحدہ کرنے کے متعلق مشورہ کرنے کے لیے بلایا کیونکہ اس سلسلے میں اب تک آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔ بیان کیا کہ اسامہ رضی اللہ عنہ نے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی کے مطابق مشورہ دیا جو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی (مراد خود اپنی ذات سے ہے) کی پاکیزگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے محبت کے متعلق جانتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا کہ آپ کی بیوی میں مجھے خیر و بھلائی کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہے لیکن علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے اور عورتیں بھی ان کے علاوہ بہت ہیں۔ آپ ان کی باندی (بریرہ رضی اللہ عنہا) سے بھی دریافت فرما لیں وہ حقیقت حال بیان کر دے گی۔ بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور ان سے دریافت فرمایا کہ کیا تم نے کوئی ایسی بات دیکھی ہے جس سے تمہیں (عائشہ پر) شبہ ہوا ہو۔ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا۔ میں نے ان کے اندر کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو بری ہو۔ اتنی بات ضرور ہے کہ وہ ایک نوعمر لڑکی ہیں ‘ آٹا گوندھ کر سو جاتی ہیں اور بکری آ کر اسے کھا جاتی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کیا اور منبر پر کھڑے ہو کر عبداللہ بن ابی (منافق) کا معاملہ رکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اے گروہ مسلمین! اس شخص کے بارے میں میری کون مدد کرے گا جس کی اذیتیں اب میری بیوی کے معاملے تک پہنچ گئی ہیں۔ اللہ کی قسم کہ میں نے اپنی بیوی میں خیر کے سوا اور کوئی چیز نہیں دیکھی اور نام بھی ان لوگوں نے ایک ایسے شخص (صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ جو ام المؤمنین کو اپنے اونٹ پر لائے تھے) کا لیا ہے جس کے بارے میں بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔ وہ جب بھی میرے گھر آئے تو میرے ساتھ ہی آئے۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس پر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو اسہل کے ہم رشتہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا میں، یا رسول اللہ! آپ کی مدد کروں گا۔ اگر وہ شخص قبیلہ اوس کا ہوا تو میں اس کی گردن مار دوں گا اور اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا آپ کا اس کے متعلق بھی جو حکم ہو گا ہم بجا لائیں گے۔ ام المؤمنین نے بیان کیا کہ اس پر قبیلہ خزرج کے ایک صحابی کھڑے ہوئے۔ حسان کی والدہ ان کی چچا زاد بہن تھیں یعنی سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ وہ قبیلہ خزرج کے سردار تھے اور اس سے پہلے بڑے صالح اور مخلصین میں تھے لیکن آج قبیلہ کی حمیت ان پر غالب آ گئی۔ انہوں نے سعد رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم! تم جھوٹے ہو ‘ تم اسے قتل نہیں کر سکتے، اور نہ تمہارے اندر اتنی طاقت ہے۔ اگر وہ تمہارے قبیلہ کا ہوتا تو تم اس کے قتل کا نام نہ لیتے۔ اس کے بعد اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ جو سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے چچیرے بھائی تھے کھڑے ہوئے اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہا: اللہ کی قسم! تم جھوٹے ہو ‘ ہم اسے ضرور قتل کریں گے۔ اب اس میں شبہ نہیں رہا کہ تم بھی منافق ہو ‘ تم منافقوں کی طرف سے مدافعت کرتے ہو۔ اتنے میں اوس و خزرج کے دونوں قبیلے بھڑک اٹھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپس ہی میں لڑ پڑیں گے۔ اس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر ہی تشریف فرما تھے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کو خاموش کرانے لگے۔ سب حضرات چپ ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی خاموش ہو گئے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں اس روز پورا دن روتی رہی۔ نہ میرا آنسو تھمتا تھا اور نہ آنکھ لگتی تھی۔ بیان کیا کہ صبح کے وقت میرے والدین میرے پاس آئے۔ دو راتیں اور ایک دن میرا روتے ہوئے گزر گیا تھا۔ اس پورے عرصہ میں نہ میرا آنسو رکا اور نہ نیند آئی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ روتے روتے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا۔ ابھی میرے والدین میرے پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے اور میں روئے جا رہی تھی کہ قبیلہ انصار کی ایک خاتون نے اندر آنے کی اجازت چاہی۔ میں نے انہیں اجازت دے دی اور وہ بھی میرے ساتھ بیٹھ کر رونے لگیں۔ بیان کیا کہ ہم ابھی اسی حالت میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ آپ نے سلام کیا اور بیٹھ گئے۔ بیان کیا کہ جب سے مجھ پر تہمت لگائی گئی تھی ‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس نہیں بیٹھے تھے۔ ایک مہینہ گزر گیا تھا اور میرے بارے میں آپ کو وحی کے ذریعہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ بیان کیا کہ بیٹھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ شہادت پڑھا پھر فرمایا امابعد اے عائشہ! مجھے تمہارے بارے میں اس اس طرح کی خبریں ملی ہیں ‘ اگر تم واقعی اس معاملہ میں پاک و صاف ہو تو اللہ تمہاری پاکی خود بیان کر دے گا لیکن اگر تم نے کسی گناہ کا قصد کیا تھا تو اللہ کی مغفرت چاہو اور اس کے حضور میں توبہ کرو کیونکہ بندہ جب (اپنے گناہوں کا) اعتراف کر لیتا ہے اور پھر اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کلام پورا کر چکے تو میرے آنسو اس طرح خشک ہو گئے کہ ایک قطرہ بھی محسوس نہیں ہوتا تھا۔ میں نے پہلے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے کلام کا جواب دیں۔ والد نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں کچھ نہیں جانتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ اس کا جواب دیں۔ والدہ نے بھی یہی کہا۔ اللہ کی قسم! مجھے کچھ نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مجھے کیا کہنا چاہیے۔ اس لیے میں نے خود ہی عرض کیا۔ حالانکہ میں بہت کم عمر لڑکی تھی اور قرآن مجید بھی میں نے زیادہ نہیں پڑھا تھا کہ اللہ کی قسم! مجھے بھی معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگوں نے اس طرح کی افوہوں پر کان دھرا اور بات آپ لوگوں کے دلوں میں اتر گئی اور آپ لوگوں نے اس کی تصدیق کی۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ میں اس تہمت سے بری ہوں تو آپ لوگ میری تصدیق نہیں کریں گے اگر اور اس گناہ کا اقرار کر لوں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں اس سے بری ہوں تو آپ لوگ اس کی تصدیق کرنے لگ جائیں گے۔ پس اللہ کی قسم! میری اور لوگوں کی مثال یوسف علیہ السلام کے والد جیسی ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا «فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون‏» (یوسف: 18) پس صبر جمیل بہتر ہے اور اللہ ہی کی مدد درکار ہے اس بارے میں جو کچھ تم کہہ رہے ہو پھر میں نے اپنا رخ دوسری طرف کر لیا اور اپنے بستر پر لیٹ گئی۔ اللہ خوب جانتا تھا کہ میں اس معاملہ میں قطعاً بری تھی اور وہ خود میری برات ظاہر کرے گا۔ کیونکہ میں واقعی بری تھی لیکن اللہ کی قسم! مجھے اس کا کوئی وہم و گمان بھی نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعہ قرآن مجید میں میرے معاملے کی صفائی اتارے گا کیونکہ میں اپنے کو اس سے بہت کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے معاملہ میں خود کوئی کلام فرمائے ‘ مجھے تو صرف اتنی امید تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ میری برات کر دے گا لیکن اللہ کی قسم! ابھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس سے اٹھے بھی نہیں تھے اور نہ اور کوئی گھر کا آدمی وہاں سے اٹھا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہونی شروع ہوئی اور آپ پر وہ کیفیت طاری ہوئی جو وحی کی شدت میں طاری ہوتی تھی۔ موتیوں کی طرح پسینے کے قطرے آپ کے چہرے سے گرنے لگے۔ حالانکہ سردی کا موسم تھا۔ یہ اس وحی کی وجہ سے تھا جو آپ پر نازل ہو رہی تھی۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر آپ کی وہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ تبسم فرما رہے تھے۔ سب سے پہلا کلمہ جو آپ کی زبان مبارک سے نکلا وہ یہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! اللہ نے تمہاری برات نازل کر دی ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میری والدہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑی ہو جاؤ۔ میں نے کہا ‘ نہیں اللہ کی قسم! میں آپ کے سامنے نہیں کھڑی ہوں گی۔ میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد و ثنا نہیں کروں گی (کہ اسی نے میری برات نازل کی ہے) بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا «إن الذين جاءوا بالإفك‏» جو لوگ تہمت تراشی میں شریک ہوئے ہیں دس آیتیں اس سلسلہ میں نازل فرمائیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے (سورۃ النور میں) یہ آیتیں میری برات کے لیے نازل فرمائیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ (جو مسطح بن اثاثہ کے اخراجات ‘ ان سے قرابت اور ان کی محتاجی کی وجہ سے خود اٹھاتے تھے) نے کہا: اللہ کی قسم! مسطح نے جب عائشہ کے متعلق اس طرح کی تہمت تراشی میں حصہ لیا تو میں اس پر اب کبھی کچھ خرچ نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ولا يأتل أولو الفضل منكم‏» یعنی اہل فضل اور اہل ہمت قسم نہ کھائیں سے «غفور رحيم‏» تک (کیونکہ مسطح رضی اللہ عنہ یا دوسرے مومنین کی اس میں شرکت محض غلط فہمی کی بنا پر تھی)۔ چنانچہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کی قسم! میری تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کہنے پر معاف کر دے اور مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ‘ اسے پھر دینے لگے اور کہا کہ اللہ کی قسم! اب اس وظیفہ کو میں کبھی بند نہیں کروں گا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میرے معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے بھی مشورہ کیا تھا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ عائشہ کے متعلق کیا معلومات ہیں تمہیں یا ان میں تم نے کیا چیز دیکھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی آنکھوں اور کانوں کو محفوظ رکھتی ہوں (کہ ان کی طرف خلاف واقعہ نسبت کروں) اللہ کی قسم! میں ان کے بارے میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ زینب ہی تمام ازواج مطہرات میں میرے مقابل کی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے تقویٰ اور پاکبازی کی وجہ سے انہیں محفوظ رکھا۔ بیان کیا کہ البتہ ان کی بہن حمنہ نے غلط راستہ اختیار کیا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ وہ بھی ہلاک ہوئی تھیں۔ ابن شہاب نے بیان کیا کہ یہی تھی وہ تفصیل اس حدیث کی جو ان اکابر کی طرف سے مجھ تک پہنچی تھی۔ پھر عروہ نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! جن صحابی کے ساتھ یہ تہمت لگائی گئی تھی وہ (اپنے پر اس تہمت کو سن کر) کہتے ‘ سبحان اللہ ‘ اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ‘ میں نے آج تک کسی عورت کا پردہ نہیں کھولا۔ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر اس واقعہ کے بعد وہ اللہ کے راستے میں شہید ہو گئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

Narrated `Aisha: Whenever Allah's Apostle intended to go on a journey, he used to draw lots amongst his wives, and Allah's Apostle used to take with him the one on whom lot fell. He drew lots amongst us during one of the Ghazwat which he fought. The lot fell on me and so I proceeded with Allah's Apostle after Allah's order of veiling (the women) had been revealed. I was carried (on the back of a camel) in my howdah and carried down while still in it (when we came to a halt). So we went on till Allah's Apostle had finished from that Ghazwa of his and returned. When we approached the city of Medina he announced at night that it was time for departure. So when they announced the news of departure, I got up and went away from the army camps, and after finishing from the call of nature, I came back to my riding animal. I touched my chest to find that my necklace which was made of Zifar beads (i.e. Yemenite beads partly black and partly white) was missing. So I returned to look for my necklace and my search for it detained me. (In the meanwhile) the people who used to carry me on my camel, came and took my howdah and put it on the back of my camel on which I used to ride, as they considered that I was in it. In those days women were light in weight for they did not get fat, and flesh did not cover their bodies in abundance as they used to eat only a little food. Those people therefore, disregarded the lightness of the howdah while lifting and carrying it; and at that time I was still a young girl. They made the camel rise and all of them left (along with it). I found my necklace after the army had gone. Then I came to their camping place to find no call maker of them, nor one who would respond to the call. So I intended to go to the place where I used to stay, thinking that they would miss me and come back to me (in my search). While I was sitting in my resting place, I was overwhelmed by sleep and slept. Safwan bin Al-Muattal As-Sulami Adh-Dhakwani was behind the army. When he reached my place in the morning, he saw the figure of a sleeping person and he recognized me on seeing me as he had seen me before the order of compulsory veiling (was prescribed). So I woke up when he recited Istirja' (i.e. "Inna li l-lahi wa inna llaihi raji'un") as soon as he recognized me. I veiled my face with my head cover at once, and by Allah, we did not speak a single word, and I did not hear him saying any word besides his Istirja'. He dismounted from his camel and made it kneel down, putting his leg on its front legs and then I got up and rode on it. Then he set out leading the camel that was carrying me till we overtook the army in the extreme heat of midday while they were at a halt (taking a rest). (Because of the event) some people brought destruction upon themselves and the one who spread the Ifk (i.e. slander) more, was `Abdullah bin Ubai Ibn Salul." (Urwa said, "The people propagated the slander and talked about it in his (i.e. `Abdullah's) presence and he confirmed it and listened to it and asked about it to let it prevail." `Urwa also added, "None was mentioned as members of the slanderous group besides (`Abdullah) except Hassan bin Thabit and Mistah bin Uthatha and Hamna bint Jahsh along with others about whom I have no knowledge, but they were a group as Allah said. It is said that the one who carried most of the slander was `Abdullah bin Ubai bin Salul." `Urwa added, "`Aisha disliked to have Hassan abused in her presence and she used to say, 'It was he who said: My father and his (i.e. my father's) father and my honor are all for the protection of Muhammad's honor from you."). `Aisha added, "After we returned to Medina, I became ill for a month. The people were propagating the forged statements of the slanderers while I was unaware of anything of all that, but I felt that in my present ailment, I was not receiving the same kindness from Allah's Apostle as I used to receive when I got sick. (But now) Allah's Apostle would only come, greet me and say,' How is that (lady)?' and leave. That roused my doubts, but I did not discover the evil (i.e. slander) till I went out after my convalescence, I went out with Um Mistah to Al-Manasi' where we used to answer the call of nature and we used not to go out (to answer the call of nature) except at night, and that was before we had latrines near our houses. And this habit of our concerning evacuating the bowels, was similar to the habits of the old 'Arabs living in the deserts, for it would be troublesome for us to take latrines near our houses. So I and Um Mistah who was the daughter of Abu Ruhm bin Al-Muttalib bin `Abd Manaf, whose mother was the daughter of Sakhr bin 'Amir and the aunt of Abu Bakr As-Siddiq and whose son was Mistah bin Uthatha bin `Abbas bin Al-Muttalib, went out. I and Um Mistah returned to my house after we finished answering the call of nature. Um Mistah stumbled by getting her foot entangled in her covering sheet and on that she said, 'Let Mistah be ruined!' I said, 'What a hard word you have said. Do you abuse a man who took part in the battle of Badr?' On that she said, 'O you Hantah! Didn't you hear what he (i.e. Mistah) said? 'I said, 'What did he say?' Then she told me the slander of the people of Ifk. So my ailment was aggravated, and when I reached my home, Allah's Apostle came to me, and after greeting me, said, 'How is that (lady)?' I said, 'Will you allow me to go to my parents?' as I wanted to be sure about the news through them. Allah's Apostle allowed me (and I went to my parents) and asked my mother, 'O mother! What are the people talking about?' She said, 'O my daughter! Don't worry, for scarcely is there a charming woman who is loved by her husband and whose husband has other wives besides herself that they (i.e. women) would find faults with her.' I said, 'Subhan-Allah! (I testify the uniqueness of Allah). Are the people really talking in this way?' I kept on weeping that night till dawn I could neither stop weeping nor sleep then in the morning again, I kept on weeping. When the Divine Inspiration was delayed. Allah's Apostle called `Ali bin Abi Talib and Usama bin Zaid to ask and consult them about divorcing me. Usama bin Zaid said what he knew of my innocence, and the respect he preserved in himself for me. Usama said, '(O Allah's Apostle!) She is your wife and we do not know anything except good about her.' `Ali bin Abi Talib said, 'O Allah's Apostle! Allah does not put you in difficulty and there are plenty of women other than she, yet, ask the maid-servant who will tell you the truth.' On that Allah's Apostle called Barira (i.e. the maid-servant) and said, 'O Barira! Did you ever see anything which aroused your suspicion?' Barira said to him, 'By Him Who has sent you with the Truth. I have never seen anything in her (i.e. Aisha) which I would conceal, except that she is a young girl who sleeps leaving the dough of her family exposed so that the domestic goats come and eat it.' So, on that day, Allah's Apostle got up on the pulpit and complained about `Abdullah bin Ubai (bin Salul) before his companions, saying, 'O you Muslims! Who will relieve me from that man who has hurt me with his evil statement about my family? By Allah, I know nothing except good about my family and they have blamed a man about whom I know nothing except good and he used never to enter my home except with me.' Sa`d bin Mu`adh the brother of Banu `Abd Al-Ashhal got up and said, 'O Allah's Apostle! I will relieve you from him; if he is from the tribe of Al-Aus, then I will chop his head off, and if he is from our brothers, i.e. Al-Khazraj, then order us, and we will fulfill your order.' On that, a man from Al-Khazraj got up. Um Hassan, his cousin, was from his branch tribe, and he was Sa`d bin Ubada, chief of Al-Khazraj. Before this incident, he was a pious man, but his love for his tribe goaded him into saying to Sa`d (bin Mu`adh). 'By Allah, you have told a lie; you shall not and cannot kill him. If he belonged to your people, you would not wish him to be killed.' On that, Usaid bin Hudair who was the cousin of Sa`d (bin Mu`adh) got up and said to Sa`d bin 'Ubada, 'By Allah! You are a liar! We will surely kill him, and you are a hypocrite arguing on the behalf of hypocrites.' On this, the two tribes of Al-Aus and Al Khazraj got so much excited that they were about to fight while Allah's Apostle was standing on the pulpit. Allah's Apostle kept on quietening them till they became silent and so did he. All that day I kept on weeping with my tears never ceasing, and I could never sleep. In the morning my parents were with me and I wept for two nights and a day with my tears never ceasing and I could never sleep till I thought that my liver would burst from weeping. So, while my parents were sitting with me and I was weeping, an Ansari woman asked me to grant her admittance. I allowed her to come in, and when she came in, she sat down and started weeping with me. While we were in this state, Allah's Apostle came, greeted us and sat down. He had never sat with me since that day of the slander. A month had elapsed and no Divine Inspiration came to him about my case. Allah's Apostle then recited Tashah-hud and then said, 'Amma Badu, O `Aisha! I have been informed so-andso about you; if you are innocent, then soon Allah will reveal your innocence, and if you have committed a sin, then repent to Allah and ask Him for forgiveness for when a slave confesses his sins and asks Allah for forgiveness, Allah accepts his repentance.' (continued...) (continuing... 1): -5.462:... ... When Allah's Apostle finished his speech, my tears ceased flowing completely that I no longer felt a single drop of tear flowing. I said to my father, 'Reply to Allah's Apostle on my behalf concerning what he has said.' My father said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle .' Then I said to my mother, 'Reply to Allah's Apostle on my behalf concerning what he has said.' She said, 'By Allah, I do not know what to say to Allah's Apostle.' In spite of the fact that I was a young girl and had a little knowledge of Qur'an, I said, 'By Allah, no doubt I know that you heard this (slanderous) speech so that it has been planted in your hearts (i.e. minds) and you have taken it as a truth. Now if I tell you that I am innocent, you will not believe me, and if confess to you about it, and Allah knows that I am innocent, you will surely believe me. By Allah, I find no similitude for me and you except that of Joseph's father when he said, '(For me) patience in the most fitting against that which you assert; it is Allah (Alone) Whose Help can be sought.' Then I turned to the other side and lay on my bed; and Allah knew then that I was innocent and hoped that Allah would reveal my innocence. But, by Allah, I never thought that Allah would reveal about my case, Divine Inspiration, that would be recited (forever) as I considered myself too unworthy to be talked of by Allah with something of my concern, but I hoped that Allah's Apostle might have a dream in which Allah would prove my innocence. But, by Allah, before Allah's Apostle left his seat and before any of the household left, the Divine inspiration came to Allah's Apostle. So there overtook him the same hard condition which used to overtake him, (when he used to be inspired Divinely). The sweat was dropping from his body like pearls though it was a wintry day and that was because of the weighty statement which was being revealed to him. When that state of Allah's Apostle was over, he got up smiling, and the first word he said was, 'O `Aisha! Allah has declared your innocence!' Then my Mother said to me, 'Get up and go to him (i.e. Allah's Apostle). I replied, 'By Allah, I will not go to him, and I praise none but Allah. So Allah revealed the ten Verses:- - "Verily! They who spread the slander Are a gang, among you............." (24.11-20) Allah revealed those Qur'anic Verses to declare my innocence. Abu Bakr As-Siddiq who used to disburse money for Mistah bin Uthatha because of his relationship to him and his poverty, said, 'By Allah, I will never give to Mistah bin Uthatha anything after what he has said about Aisha.' Then Allah revealed:-- "And let not those among you who are good and wealthy swear not to give (any sort of help) to their kinsmen, those in need, and those who have left their homes for Allah's cause, let them pardon and forgive. Do you not love that Allah should forgive you? And Allah is oft-Forgiving Most Merciful." (24.22) Abu Bakr As-Siddiq said, 'Yes, by Allah, I would like that Allah forgive me.' and went on giving Mistah the money he used to give him before. He also added, 'By Allah, I will never deprive him of it at all.' Aisha further said:." Allah's Apostle also asked Zainab bint Jahsh (i.e. his wife) about my case. He said to Zainab, 'What do you know and what did you see?" She replied, "O Allah's Apostle! I refrain from claiming falsely that I have heard or seen anything. By Allah, I know nothing except good (about `Aisha).' From amongst the wives of the Prophet Zainab was my peer (in beauty and in the love she received from the Prophet) but Allah saved her from that evil because of her piety. Her sister Hamna, started struggling on her behalf and she was destroyed along with those who were destroyed. The man who was blamed said, 'Subhan-Allah! By Him in Whose Hand my soul is, I have never uncovered the cover (i.e. veil) of any female.' Later on the man was martyred in Allah's Cause."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 462


حكم: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

Previous    17    18    19    20    21    22    23    24    25    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.