سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی مگر جو انکار کرے گا (وہ داخل نہیں ہو گا)۔“ لوگوں نے عرض کی کہ وہ کون ہے (جس نے انکار کیا)؟ فرمایا: ”جس نے میری اطاعت کی وہ تو جنت میں جائے گا اور جس نے میری (عملاً) نافرمانی کی اس نے انکار کیا (اور وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا)۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (چند) فرشتے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت استراحت فرما رہے تھے۔ بعض فرشتوں نے کہا یہ سوتے ہیں، بعض نے کہا (ان کی) آنکھ سوتی ہے مگر دل جاگتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے کہ تمہارے ان صاحب (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک مثال ہے، وہ مثال تو بیان کرو۔ بعض فرشتوں نے کہا یہ تو سوتے ہیں، بعض نے کہا آنکھ سوتی ہے مگر دل جاگتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے مکان بنایا اور (لوگوں کی دعوت کے لیے) کھانا پکایا پھر ایک بلانے والے کو (لوگوں کے پاس) بھیجا۔ پس جس شخص نے اس بلانے والے کے کہنے کو قبول کیا وہ تو مکان میں بھی داخل ہو گا اور کھانا بھی کھائے گا۔ اور جو بلانے والے کے کہنے کو قبول نہ کرے گا، وہ نہ تو مکان میں داخل ہو گا اور نہ ہی کھانا کھائے گا۔ پھر انھوں نے کہا کہ اس کی توضیح کرو۔ بعض کہنے لگے یہ تو سوتے ہیں، بعض نے کہا کہ آنکھ سوتی ہے مگر دل جاگتا ہے۔ پھر انھوں نے اس مثال کی توضیح کو اس طرح بیان کیا کہ وہ مکان جنت ہے اور اس کی طرف بلانے والے ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم “ ہیں۔ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تو درحقیقت اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہیں گویا کہ اچھے کو برے سے جدا کرنے والے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگ برابر سوالات کرتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ بھی کہیں گے کہ اچھا! اللہ تو ہوا جس نے سب کو پیدا کیا، اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فرماتے تھے: ”اللہ تعالیٰ تم سے علم کو دینے کے بعد نہ اٹھائے گا مگر ہاں اس طرح اٹھائے گا کہ علماء کو مع علم (علم سمیت) کے اٹھالے گا، تب جاہل لوگوں سے فتویٰ لیا جائے گا اور وہ محض اپنی رائے سے فتویٰ دے کر خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت نہ ہو گی جب تک کہ میری امت ان باتوں کو اختیار نہ کرے گی جو کہ اس سے پہلے کی امتوں نے اختیار کی تھیں بالشت برابر بالشت اور ہاتھ برابر ہاتھ (یعنی بالکل برابر)۔“ کسی نے عرض کی، یا رسول اللہ! اگلی امتوں سے کون لوگ مراد ہیں کیا پارسی اور عیسائی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”پھر اور کون؟“
امیرالمؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:”یقیناً اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اور اپنی کتاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی، اسی نازل شدہ کتاب (یعنی قرآن مجید) میں سے رجم کی آیت بھی ہے۔“
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حاکم حکم لگانے میں اجتہاد کرتا ہے اور وہ اس میں درست ہوتا ہے تو اس کے لیے دگنا ثواب ہے اور جب حکم لگانے میں اجتہاد کرتا ہے اور اس سے خطا ہو جاتی ہے تو اس کے لیے اکہرا (ایک گنا) ثواب ہے۔“
7. اس شخص کی دلیل کا بیان جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (کسی کام سے کسی کو) منع نہ فرمانے کو بھی حجت سمجھتا ہے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور کے منع نہ کرنے کو نہیں۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ ابن صائدہ دجال ہے۔ میں (راوی محمد بن منکدر) نے کہا کہ تم قسم کھاتے ہو؟ انھوں نے کہا ہاں! میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات پر قسم کھاتے ہوئے سنا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع نہیں فرمایا۔