سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (چند) فرشتے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت استراحت فرما رہے تھے۔ بعض فرشتوں نے کہا یہ سوتے ہیں، بعض نے کہا (ان کی) آنکھ سوتی ہے مگر دل جاگتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے کہ تمہارے ان صاحب (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ایک مثال ہے، وہ مثال تو بیان کرو۔ بعض فرشتوں نے کہا یہ تو سوتے ہیں، بعض نے کہا آنکھ سوتی ہے مگر دل جاگتا ہے۔ پھر وہ کہنے لگے کہ ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص نے مکان بنایا اور (لوگوں کی دعوت کے لیے) کھانا پکایا پھر ایک بلانے والے کو (لوگوں کے پاس) بھیجا۔ پس جس شخص نے اس بلانے والے کے کہنے کو قبول کیا وہ تو مکان میں بھی داخل ہو گا اور کھانا بھی کھائے گا۔ اور جو بلانے والے کے کہنے کو قبول نہ کرے گا، وہ نہ تو مکان میں داخل ہو گا اور نہ ہی کھانا کھائے گا۔ پھر انھوں نے کہا کہ اس کی توضیح کرو۔ بعض کہنے لگے یہ تو سوتے ہیں، بعض نے کہا کہ آنکھ سوتی ہے مگر دل جاگتا ہے۔ پھر انھوں نے اس مثال کی توضیح کو اس طرح بیان کیا کہ وہ مکان جنت ہے اور اس کی طرف بلانے والے ”محمد صلی اللہ علیہ وسلم “ ہیں۔ جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تو درحقیقت اس نے اللہ کی نافرمانی کی۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہیں گویا کہ اچھے کو برے سے جدا کرنے والے ہیں۔